انتخابات کے بعد سےاسی جماعتوں کے مابےن حکومت سازی پر پےشرفت ہو رہی ہے لےکن تاحال کسی جانب سے حکومت بنانے کے لےے اقدامات نہےں اٹھائے گئے‘جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے ‘مطالبات بھی سامنے آ رہے ہےں۔ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی تاریخ کی سفارش وزیرپارلیمانی امور مرتضی سولنگی کریں گے کیونکہ قانون کے مطابق انتخابات کے بعد نگران وزیر پارلیمانی امور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سفارش نگران وزیراعظم کو کرتے ہیں۔یہ سفارش سمری کی شکل میں نگران وزیراعظم کو جائے گی، نگران وزیراعظم سمری کی منظوری دے کر صدر کو مقررہ تاریخ پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ایڈوائس کریں گے۔اس کے بعد صدر مملکت قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری کی منظوری دیں گے، قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوگا۔پی ٹی آئی بانوے سیٹوں کے ساتھ اس وقت بھی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے، یہ الگ بات ہے کہ پی ٹی آئی ڈیڑھ سو سے زائد سیٹیں حاصل کرنے کی دعویدار ہے اور اسی لیے کسی اتحادی کے ساتھ حکومت بنانے کی بجائے سولو فلائٹ کی کوشش میں ہے۔پےپلز پارٹی نے حکومت کا ساتھ دےنے اور وزارتےں نہ لےنے کا اعلان کےا ہے جبکہ نون لےگ نے وزارت عظمی کےلئے شہباز شرےف اور وزےراعلی پنجاب کےلئے مرےم نواز کو نامزد کےا ہے۔ وفاق میں پہلے مرحلے میں پچےس رکنی کابینہ بنائے جانے کا امکان ہے جس کے اندر ایم کیو ایم کو تےن سے پانچ وفاقی وزارتیں دیے جانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار، سید مصطفی کمال، سید امین الحق اور خواجہ اظہار الحسن کے نام زیر غور آئے ہیں۔پارٹی ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نون کی جانب سے پارٹی کے پندرہ سینیئر رہنماﺅں کے نام وفاقی وزیر کے لیے زیر غور آئے۔اسحاق ڈار، سردار ایاز صادق، خواجہ آصف، احسن اقبال، مریم اورنگزیب، عطااللہ تارڑ، شزا خواجہ، ریاض الحق جج، بلال اظہر کیانی، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، راجہ قمر السلام اور رانا تنویر حسین کے نام وفاقی وزیر کے لیے زیر غور ہیں۔استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما عون چوہدری کو وزیراعظم کا معاون خصوصی بنائے جانے کا امکان ہے۔درےں اثناءجمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کیا ہے۔اسلام آباد میں جے یو آئی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہماری مجلس عاملہ نے انتخابی نتائج کو مسترد کردیاہے، انتخابی دھاندلی نے 2018کی انتخابی دھاندلی کا ریکارڈ بھی توڑ ڈالا ہے، الیکشن کمیشن کے شفاف انتخابات کے بیان کو مسترد کرتے ہیں۔مولانافضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے اپنی اہمیت کھودی ہے، لگتا ہے اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے، پارلیمنٹ میں شرکت احتجاج کے ساتھ ہوگی، جے یو آئی پارلیمانی کردار ادا کرےگی لیکن اسمبلیوں میں شرکت تحفظات کے ساتھ ہوگی۔سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ پچےس فروری کو بلوچستان میں صوبائی جنرل کونسل سے میٹنگ کریں گے،ستائےس فروری کو خیبر پختونخوا میں صوبائی جنرل کونسل سے میٹنگ کریں گے، تےن مارچ کراچی اور پانچ مارچ کو لاہور میں بھی میٹنگ کریں گے، ہماری مرکزی مجلس عاملہ نے مجلس عمومی سے فیصلے کرنےکی سفارش کی ہے،مجلس عمومی فیصلہ کرےگی کہ پارلیمنٹ میں بیٹھیں یا نہ بیٹھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جے یوآئی کو دھاندلی کے ذریعے شکست سے دوچار کیا گیا ہے، ہمارا جرم یہ ہے کہ امریکا اور مغربی دنیا کے لیے جے یو آئی قابل قبول نہیں، ہم پیپلزپارٹی یا نون لیگ کسی کے تابع دار نہیں، کسی پارٹی کے اتحادی نہیں، پارلیمنٹ میں تحفظات کے ساتھ جائیں گے، ہم پر جو گزری ہے، ہم علاقوں میں نہیں جاسکتے تھے، ہماری کوئی بات نہیں سنی گئی، ہم بھی نہیں سنیں گے۔ ہم یک دم میدان میں نہیں آئے ، ہم نے تیاری کی ہے، اسمبلیوں اور انتخابی نتائج سے متعلق ہمارا موقف واضح طور پر آگیا ہے، مسلم لیگ نون کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں، ہم اپوزیشن میں بیٹھتے ہیں، الیکشن کمیشن کا کردار مشکوک رہا ہے، الیکشن کمیشن ہمارے امیدواروں کو نوٹس دیے بغیر درخواستیں خارج کر رہا ہے۔ہمارے پی ٹی آئی سے اختلافات رہے ہیں، ایوان سب کا ہوتا ہے، ہمیں ان کے جسموں سے کوئی مسئلہ نہیں، ان کے دماغوں سے مسئلہ ہے، وہ ٹھیک ہوجائیں گے،اگر کوئی سمجھتا ہے کہ دھاندلی ہوئی تو ساتھ آجائے، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ دھاندلی نہیں ہوئی تو وہ بیٹھ جائے اور عیاشی کرے۔مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ ہمارا جرم یہ ہے کہ امریکا اور مغربی دنیا کے لیے جے یو آئی قابل قبول نہیں، بین الاقوامی مسائل پر کسی سمجھوتے کا شکار نہیں ہوں گے، کارکن تحریک کے لیے تیار رہیں، بعض کو پیسوں کے بدلے پوری کی پوری اسمبلیاں عطا کی گئیں، پشاور میں چوتھے پانچویں نمبر کے ایک افغان باشندے کو جتوا دیا گیا، الیکشن کمیشن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال رہا، پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو رہی ہے اور جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے۔پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ پارٹی قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف سیاست سے کنارہ کش نہیں ہو رہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی جانب سے وزارت عظمی کا عہدہ قبول نہ کرنے کا مطلب اگر یہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف سیاست سے کنارہ کش ہو رہے ہیں تو اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ آئندہ پانچ سال وہ نہ صرف بھرپور سیاست کریں گے بلکہ وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومتوں کی سرپرستی کریں گے۔ نوازشریف کی تینوں حکومتوں میں عوام نے واضح اکثریت دی تھی اور یہ بات وہ انتخابی تقاریر میں واضح کر چکے ہیں کہ وہ کسی مخلوط حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے، جو لوگ نواز شریف کے مزاج سے واقف ہیں انہیں قائد کے اصولی موقف کا پتا ہے۔ محمد نواز شریف نے پاکستان کے عوام اور سیاسی تعاون فراہم کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے اس پختہ یقین کا اظہار کیا ہے کہ ان فیصلوں کے نتیجے میں پاکستان معاشی خطرات، عوام مہنگائی سے نجات پائیں گے۔پےپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر کے مطابق پیپلز پارٹی نے آئینی عہدے مانگے نہیں ہیں بلکہ یہ اعلان کیا ہے کہ وہ ان آئینی عہدوں پر اپنے امیدوار سامنے لائے گی۔ اب یہ تو ہمارا حق ہے کہ جب سینیٹ میں ہمیں اکثریت حاصل ہو جائے گی تو پھر چیئرمین سینیٹ بھی ہمارا ہی ہو۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت آصف زرداری ہی ملک میں وہ واحد شخصیت ہیں جو ادراک رکھتے ہیں اور ملک کو ان مسائل سے باہر نکال سکتے ہیں جن کا پاکستان فی الوقت شکار ہے اس عہدے پر نون لیگ نے پیپلز پارٹی کو حمایت کا یقین دلایا ہے۔سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے سے متعلق تاج حیدرکا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی دیگر جماعتوں سے روابط بڑھا کر کوشش کرے گی کہ یہ عہدہ بھی پی پی پی کے پاس رہے تاکہ اختلاف رائے کو کچلا نہ جا سکے۔کہا جا رہا ہے کہ بلاول بھٹو کا زیادہ انحصار نون لیگ پر ہی ہو گا کیونکہ ایم کیو ایم کے خلاف انہوں نے سخت موقف اختیار کیا ہے اور کہا کہ کراچی میں اس جماعت کو سترہ نشستیں دی گئیں ےعنی انہوں نے جیتی نہیں ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت ملک کی سیاست گمبھیر ہو چکی ہے۔تاج حیدر کا کہنا ہے ان کے پاس تمام شواہد ہیں کہ کیسے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے امیدواران کو کم ووٹوں کے باوجود کامیاب قرار دیا گیا۔تاج حیدر کے مطابق تحریک انصاف میں انتہا پسند عناصر غالب ہو گئے اور اب انہوں نے باقاعدہ اعلان کر دیا ہے کہ پیپلز پارٹی چور ہے اور ان سے بات نہیں ہو سکتی۔ان کے مطابق پیپلز پارٹی بات چیت پر یقین رکھتی ہے تاہم دوسری طرف سے اچھا جواب نہیں ملا۔ایسی صورتحال میں ہمارے پیش نظر صرف ملکی مفاد ہے۔ اب اگر ہم نیوٹرل بھی رہیں تو حکومت نہیں چل سکتی۔صورتحال کے مطابق مرکز میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کی تعداد کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کے کامیاب قرار پانے والے امیدواروں سے زیادہ ہے۔ صوبہ پنجاب میں وہ دوسرے نمبر پر ہیں جبکہ صوبہ خیبرپختونخوا میں آزاد امیدوار دو تہائی اکثریت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے درجنوں امیدواروں نے اپنی ناکامی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چیلنج کر رکھا ہے اور تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کا دعوی ہے کہ ان شکایات پر شفاف تحقیقات صورتحال کو تحریک انصاف کے حق میں مزید بہتر کرے گی۔فی الحال تحریک انصاف کی قیادت کو یہ سوال درپیش ہے کہ وہ وفاق اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی اکثریت کیسے ثابت کریں اور حکومتیں کیسے بنائیں اور اپنے آزاد امیدواروں کو دوسری سیاسی جماعتوں سے بچا کر کیسے رکھیں؟ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کے ابتدائی تجزیے کے مطابق تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو مجموعی طور پر ملک بھر سے ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ ہم سمجھتے ہےں جس قسم کا مےنڈےٹ آےا ہے اس میں تمام سےاسی جماعتوں کی ےہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سےاست سے باہر نکل کر ملکی و عوامی مفاد کا سوچےں تاکہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے اور عوام کو سکون کے لمحات مےسر آئےں۔
