پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی ناگزیر فعالیت

ڈپٹی کمشنر گلگت نے کہا ہے کہ اداروں کے درپیش مسائل کو دور اور سروس ڈےلیوری کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے تمام تر وسائل برئے کار لائےں گے ۔ اس حوالے سے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر گلگت نے ڈپٹی کمشنر گلگت کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی محکمہ کی سکیم التوا کا شکار ہونے پر کہہ رہے ہیں حکام بالا سے بجٹ کی منظوری نہیں آئی اس لئے کام نہیں ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ پرائس کنٹرول لسٹ پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے تےنوں سب ڈویژنوں کے اسسٹنٹ کمشنرز اور سےکٹر مجسٹریٹس روزانہ کی بنیاد پر مارکیٹوں پر چھاپے مار رہے ہیں ۔ تےنوں سب ڈویژنوں کے اسسٹنٹ کمشنرز نے اپنی سب ڈویژنوں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر صفائی ستھرائی کے لئے ٹیمیں تشکیل دے کر صفائی ستھرائی کی چیکنگ بھی کر رہے ہیں اور سےکٹر مجسٹریٹ روزانہ کی بنیاد پر پرائس کنٹرول کی چیکنگ کر کے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لا کر رپورٹ پیش کر رہے ہیں ۔ےہ حقےقت ہے کہ مہنگائی کی اےک بڑی وجہ پرائس کنٹرول کمےٹےوں کی عدم فعالےت ہے۔ کون نہےں جانتا کہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑدی ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ عوام غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے اپنے بچوں تک کو بیچنے پر مجبور ہیں۔ چینی، آٹا، گھی ،سبزیاں، پھل اور دیگر روز مرہ استعمال کی اشیا آئے روز مہنگی ہوتی چلی جارہی ہیں ۔ قیمتوں میں ٹھہراﺅ آنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں عملا فرائض کی انجام دہی یا کم از کم نتائج کے حصول میں ناکام رہی ہیں ۔ حکومت کے قائم کردہ یوٹیلٹی سٹوروں پر بھی اشیا کی قیمتیں عام مارکیٹ جتنی ہی ہیں ۔ ان حالات میں سارادن خون پسینہ بہاکر صرف تین چار سو روپے روزانہ کے حساب سے کمانے اور بمشکل اپنی زندگی کی گاڑی چلانے والا ایک غریب فرد حکومت کی کسی بھی فلاحی پالیسی سے استفادہ نہیں کرپاتا ۔ اس کیلئے تو اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت بھی اک خواب سابن کررہ گئی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کا خون چوسنے اور ان کے جذبات سے کھیلنے کی بجائے مہنگائی کی رفتار پر قابو پائیںاور لوگوں کو سستی اشیا کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات بروئے کار لائیں ۔ ہر دوکاندار نے اشیا خورونوش کے من مانے نرخ مقرر کئے ہوئے ہیں جس سے عوام کی قوت خرید جواب دے چکی ہے، حکومت پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال کرکے مہنگائی کنٹرول کرے۔ سرکاری نرخوں پر عملدرآمد انتظامی افسران کی ذمہ داری ہے ، اچھی کارکردگی پر افسران کی حوصلہ افزائی جبکہ ناقص کارکردگی پر محاسبہ کیا جانا چاہےے ۔ناجائز منافع خوروں کو جرمانہ کےا جائے ۔ پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کا دوکانداروں سے برتاﺅ اچھا ہونا چاہیے اور اس مقصد کیلئے انہیں پروفیشنل ٹریننگ دی جائے۔ دکانداروں کو پریشان کرنا مقصد نہیں ہونا چاہےے لیکن پرائس کنٹرول کو یقینی بنایا جائے اور طے شدہ ایس او پیز کے مطابق اشیا کی قیمتوں کی جانچ پڑتال کی جائے۔زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فیئر رٹیل پرائس کا تعین کیا جائے۔ اضلاع میں ڈی سی اورپرائس کنٹرول کمیٹیاں لوکل میڈیا کو ساتھ لے کر مارکیٹ کا وزٹ کریں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اوردیگر بد عنوانیوں کی روک تھام کے لئے انتظامےہ کو فوری اقدامات لینے اوراس سلسلے میں خصوصی مہم شروع کرنے کی ہدایت کی جائے۔ مقامی اور مخصوص قوانین پر مکمل عملدرآمد کے ذریعے سروس ڈیلیوری کو یقینی بنانااور عوام الناس کو ریلیف فراہم کرنا فیلڈ انتظامیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ متعلقہ اہلکاروں کے درمیان باہمی روابط کا فقدان، قوانین کا سطحی علم، غیر موثر عمل درآمد اور ذمہ داریوں سے احتراز کی روش نے جہاں متعلقہ قوانین کو غیر موثر بنا دیا ہے وہاں عام آدمی کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنا ہے۔ قیمتوں کے کنٹرول سے متعلق قوانین پر موثر عمل درآمد کے لئے فوری طور پر لائحہ عمل تشکیل دیا جانا چاہےے ۔ پرائس اور مارکیٹ کمیٹیوں کو مزید موثر بنایا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف متعلقہ قوانین کے تحت سخت کاروائی عمل میں لائی جائے۔ فیلڈ افسران کو ہول سیل مارکیٹوں کا دورہ کرنے اور نیلامی کے دوران قیمتوں کے مناسب تعین کو یقینی بنانے کی ہدایت کی جائے۔حکام متعلقہ اضلاع میں خود اچانک دورے کرکے قیمتوں کی جانچ پڑتال کریں۔ قیمتوں میں بلاجوازاضافہ کرنے والے غیر ذمہ دار عناصر کے خلاف کاروائی کے لئے موثر حکمت عملی اختیار کی جائے۔ ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی جانب سے باقاعدگی سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی فہرستیں جاری کی جائیں اور ان پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔حکومت کی ہدایت پر ہر ضلع میں مہنگائی روکنے کے لیے اجلاس طلب کیے جاتے ہیں۔ تاجروں اور شہریوں کے اجلاس میں اشیائے ضرورت کے سرکاری نرخ مقرر کیے جاتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر قیمتوں کے نرخ ناموں کی فہرستیں بازاروں اور مارکیٹوںمیں قیمتا فراہم کی جاتی ہیں اور سرکاری افسران ہر بار بلند بانگ دعوے کرتے ہیں کہ گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی اور سرکاری نرخوں کے مطابق اشیا فروخت نہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہر سب ڈویژن میں مارکیٹیں اور بازار اتنی زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں کہ ایک اسسٹنٹ کمشنر کے لیے ناممکن ہے کہ وہ روزانہ ہر علاقے میں جا کر گراں فروشوں پر چھاپے مار سکے۔جگہ جگہ پھل فروشوں نے دس بیس کی تعداد میں ریڑھیاں کھڑی کرکے اپنی منی مارکیٹیں بنالی ہیں۔ شہر میں سڑکوں اور راستوں پر بائیں طرف ریڑھیاں کھڑی کرکے کاروبار کرنے کا رجحان خاص طور پر بہت بڑھ رہا ہے جہاں منہ مانگے داموں پھل فروخت کیے جاتے ہیں، ان خود ساختہ مارکیٹوں میں ریڑھی والے ہر پھل کا ڈبل نرخ بتاتے ہیں اور جہاں گاہک پھنسے وہ پھنسالیتے ہیں۔ ان ریڑھی والوں نے باہمی ملی بھگت سے ایک جیسے نرخ مقرر کیے ہوتے ہیں جن کے نرخ کوئی چیک نہیں کرتا۔ اول تو ایسی جگہوں پر کوئی ان کے نرخ چیک نہیں کرتا اور اگر کوئی چیک کرنے آجائے تو ریڑھیاں غائب ہوجاتی ہیں۔ جن افسروں کی نرخ چیک اور قیمتیں کنٹرول کرنے کی ذمے داری ہوتی ہے وہ چونکہ مہنگائی سے زیادہ متاثر نہیں ہوتے کیونکہ ان کا ماتحت عملہ گراں فروشوں کو صاحب کے نام پر ویسے ہی ڈرا دھمکا کر مفت میں یا برائے نام قیمت پر اشیا خریدنے کا ماہر ہوتا ہے۔ اس لیے صاحب موصوف کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ آٹے، دال، سبزی، گوشت اور پھلوں کا بھاﺅ کیا ہے، البتہ انہیں سرکاری ڈیوٹی نبھانی ہوتی ہے۔گراں فروشوں کے خلاف حکومتی کارروائی مجسٹریٹوں کی طرف سے جرمانوں اور بعض کی گرفتاری تک محدود ہوتی ہے۔ جب کہیں چھاپہ لگتا ہے تو سرکاری نرخ نامے بھی آویزاں ہوجاتے ہیں اور نرخ بھی مقررہ وصول ہونے لگتے ہیں اور عوام کو سرکاری نرخوں پر عارضی طور پر اشیا دستیاب ہونے لگتی ہیں تو مجسٹریٹ لوگوں سے نرخ معلوم کرکے گراں فروشوں پر جرمانے کرکے چلے جاتے ہیں، جس کے بعد نرخ نامہ پھر چھپا کر من مانے نرخوں پر گراں فروشی مزید بڑھادی جاتی ہے کیونکہ جرمانے کی ادا کی گئی رقم عوام سے ہی وصول کرنا ہوتی ہے۔جرمانے کی رقم سرکاری خزانے میں جا کر حکومتی آمدنی بڑھ جاتی ہے مگر عوام کو کچھ نہیں ملتا اور عوام کو چھاپوں کے بعد مزید مہنگی اشیا خریدنا پڑتی ہیں۔ گراں فروشی کا سبب ریٹیلرز ہول سیل مارکیٹوں کو قرار دیتے ہیں اور عوام کو اپنی مجبوری بتاتے ہیں کہ انہیں آڑھتیوں اور ہول سیلرز سے مہنگا مال ملتا ہے تو وہ سستا مال کیسے فروخت کریں جس پر عوام بھی چھاپوں کے وقت ان گراں فروشوں کی حمایت کرتے ہیں اور حکومت سے شکوہ کرتے ہیں کہ وہ ہول سیل مارکیٹوں پر قیمتوں پر کنٹرول کیوں نہیں کرتی۔ان گراں فروشوں کے صبح اور شام کے نرخوں میں نمایاں فرق ہوتا ہے ۔ شہروں میں ریڑھی پر مال فروخت کرنے والوں اورمارکیٹوں کے نرخوں میں بھی کافی فرق ہوتا ہے، مگر ان لوگوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے اور اعلی سطح کے بعد اب نچلی سطح پر بھی قانون کا خوف ختم ہوچکا ہے۔ ہر شخص دوسرے کو لوٹنے میں لگا ہوا ہے اور انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے جو کام حکومت کا ہے وہ حکومت نہیں کررہی۔ گراں فروشی روکنے والا عملہ اس سلسلے میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں سنجیدہ اور عوام سے مخلص نہیں، اس لیے ہر سال گراں فروشی روکنے کے لیے دِکھاوے کی تشہیری کارروائی ہوتی اور ہوتا کچھ نہیں ۔حکومت کو یہ چاہیے کہ عوام پر ٹیکسوں کی شرح کم کرے، لیکن بدقسمتی سے نہ صرف ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا جا رہا ہے بلکہ ایسے ٹیکس بھی عائد کیے جا رہے ہیں جو غریبوں پر سرے سے لاگو ہی نہیں ہونے چاہئیں۔ اِس سلسلے میں قومی معاشی و اقتصادی فیصلہ سازی اپنے ہاتھ میں لینا ہوگی اور وہ سبھی معاشی فیصلے خود کرنا ہوں گے جن سے عام آدمی براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ حکومتےں، ایک عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے سے قاصر رہی ہےں اگر ٹیکسوں کا منصفانہ حصہ وصول کیا جائے تو سالانہ کئی کھرب روپے، اضافی آمدنی حاصل ہو سکتی ہے۔ مہنگائی کے خود ساختہ محرکات میں بے لگام منافع خور مافیا کی سازشوں کا عمل دخل ہے جو مارکیٹ کی قیمتوں میں اضافے کا اختیار رکھتے ہیں اور ناجائز منافع خوروں کے ایسے گروہوں کے خلاف خاطرخواہ کارروائی دیکھنے میں نہیں آرہی۔