انتخابات ہو چکے اور توقعات کے برعکس کوئی بھی جماعت سادہ اکثرےت حاصل کرنے میں کامےاب نہےں ہو سکی اس لےے ےہ کہا جا سکتا ہے کہ اےک بار پھر مضبوط حکومت قائم نہےں ہو سکے گی لےکن اگر سےاستدان اور سےاسی جماعتےں بالغ نظری کا مظاہرہ کرےں اور ملک کے مفادات کو اولےت دےنے کا چلن اختےار کرےں تو مل جل کر ملک کو بحرانوں اور چےلنجزسے نکالا جا سکتا ہے۔ہمارے ہاںکبھی جمہوری حکومتیں تو کبھی مارشل لا ہر حکومت حیلے بہانوں سے اپنا وقت پورا کرتی ہے مگر ملک کو درپیش مسائل پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ اس طرح آج یہ مسائل ملک کیلئے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ سےاسی جماعتوں کو چاہےے کہ وہ ان مسائل سے ملک کو نجات دلانے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرےں گی۔ جب قیادت کوئی فیصلہ کرے تو اسے یہ نہیں سوچنا چاہیئے اس فیصلہ سے اسکی جماعت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ اس فیصلے کے ملک پر کیا اثرات ہوں گے۔ ان مسائل کے حل کیلئے لسانیت، علاقائیت، فرقہ واریت اور سیاست سے بالاتر ہو کر سیاسی جماعتوں کو ملکی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ سیاسی قیادت سے میری مراد موجودہ حکومت اور صرف وزیر اعظم نہیں ہے۔ےہ تمام رہنماﺅں کے سر جوڑ کر بیٹھنے، مسائل کے حل کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنے اور پارلیمنٹ کی طاقت کے استعمال سے ہی ملک مسائل کے گرداب سے نکلے گا۔ سیاسی قیادت کو بصیرت کا ثبوت دےنا ہو گا۔اگر آج کی قیادت متفقہ اصلاحات لانے میں کامیاب ہوتی ہے تو آئندہ آنے والی حکومت کو کام کرنے کا آزادانہ موقع ملے گا۔ اپوزیشن اپنا مثبت کردار ادا کرے گی اور ملک ایجی ٹیشن کی سیاست سے محفوظ رہے گا۔ اسی طرح دیگر مسائل مثلا متفقہ تعلیمی پالیسی ، صحت اور جامع معاشی پالیسی کیلئے الگ الگ کمیٹیاں بنائی جائیں۔ ان کمیٹیوں میں ہر جماعت سے دانشور اور اپنے اپنے شعبے کے ماہر لوگ شامل کئے جائیں۔ یہ تمام پالیسیاں کم ازکم پچیس سال کیلئے بنائی جائیں تاکہ پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے اور آنے والی حکومتیں پالیسیاں بنانے میں نہ الجھی رہیں بلکہ ان کا کام صرف بنی بنائی پالیسیوں پر بہتر اور موثر انداز میں عمل درآمد کرنا ہو۔ بار بار پالیسیاں تبدیل کرنے سے نہ صرف پیسہ اور وقت ضائع ہوتا ہے۔ بلکہ کوئی بھی حکومت مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کرسکتی۔مذکورہ بالا پالیسیاں ایک دوسری سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ موجودہ دور میں تعلیم، صحت اور معیشت کی مضبوطی کے بغیر نہ صرف ملک کی ترقی متاثر ہوتی ہے۔ بلکہ ان کے بغیر ملک کی بقا خطرے میں نظر آتی ہے۔ ملک کو تجربہ گاہ بنانے کی بجائے قیادت کو چاہیئے کہ ان مسائل کے حل کیلئے اس طرح کام کرے جیسے دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے یکجہتی سے اور ہنگامی بنیادوں پر کام کیا تھا۔ ان پالیسیوں کی پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظوری لی جائے تاکہ آنے والی ہر حکومت عمل درآمد کی پابند ہو اور وہ کوئی نئی تبدیلی نہ کرے۔ اگر کبھی مخصوص حالات میں معاشی پالیسی میں تبدیلی کرنا پڑے تو اسکی منظوری بھی متفقہ طور پر ہو۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت نے کبھی بھی اپنے ورکروں کی سیاسی تربیت پر زور نہیں دیا اور نہ ہی کوئی طریقہ کار بنایا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں متبادل قیادت کا بھی فقدان ہے۔ سیاسی جماعتیں ون مین شو کی تصویر ہوتی ہیں اس لیے پاکستان میں سیاسی ورکرز کا قحط ہے۔ سوائے مذہبی جماعتوں کے کسی پارٹی کے پاس تنظیم نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ہمارے ہاں سیاستدان انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دانشور حضرات سیکیورٹی اداروں پر یہ تنقید کرتے رہتے ہیں کہ وہ ماورائے آئین کام کرتے ہیں یہ اپنی جگہ درست ہو سکتی ہے لیکن اگر کوئی سیاسی جماعت کی لیڈر شپ اور اس کے کارکن آئین اور قانون کو پامال کرےں تو انہےں بھی اپنے طرز عمل پر غور کرنا ہو گا۔ملک کی ساری سیاسی قیادت کسی نہ کسی دور میں اقتدار میں حصہ دار رہی ہے ایک سیاستدان کبھی کسی سیاسی جماعت میں ہوتا ہے تو کبھی کسی اور سیاسی جماعت میںجماعت تبدیل کرنا وہ اپنا آئینی اور قانونی حق قرار دیتا ہے لیکن اقتدار حاصل کرنے کے لیے یا اقتدار کا حصہ بننے کے لیے وہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی طرف دیکھتا ہے۔اقتدار میں آنے کے بعد جمہوری سیاسی قیادت نے کبھی ان خرابیوں کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیئے کہ تمام پارٹیاں ، تمام میڈیا ہاﺅسز کے نامور صحافیوں کی مشاورت سے ایک جامع لائحہ عمل مرتب کریں۔ جس سے عوام کو نہ صرف خبریں سننے کو ملیں بلکہ عوام کی سیاسی اور اخلاقی تربیت بھی ہو۔ عوام میں حب الوطنی پیدا ہو۔ اس لائحہ عمل کے ذریعے میڈیا کو پابند کیا جائے کہ وہ کسی بھی لیڈر ، جرنل ، جج یا بیوروکریٹ پر تنقید ضرور کرے لیکن اس میں ذاتی پسند وناپسند کا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہیئے۔ میڈیا کو چاہیئے کہ وہ ایسے پروگرام پیش نہ کرے جس سے اداروں میں تصادم کا خطرہ ہو یا کسی بھی طرح ملک میں عدم استحکام کا اندیشہ ہو ۔ اس پر سیاستدانوں کو بڑے تدبر سے پالیسی بنانا ہوگی۔افسوسناک امر ےہ ہے کہ جمہورےت کا تسلسل نہ ہونے میں زیادہ قصور سیاسی قیادت کا ہی نکلے گا کیونکہ سیاسی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ہی اقتدار میں آئی ہوتی ہے اور اس لیے وہ متنازعہ اور انصاف کے اصولوں کے خلاف بنے ہوئے قوانین کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتی لیکن جب وہ اقتدار سے باہر جاتی ہے تو اس پر انہی قوانین کے تحت مقدمات قائم ہوتے ہیں تو تب وہ واویلا شروع کر دیتی ہے۔گزشتہ دو تین برس میں سیاست میں جو نفرت انگیزی اور متشدد پن داخل ہوا ہے اس کی وجہ سے ملک کے جمہوری کلچر کو بہت نقصان پہنچا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کاروباری سرگرمیوں کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے۔ آج سےاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دلیرانہ فیصلے کرے‘ ہر سیاسی جماعت کے معاملہ فہم اور سینیئر پارلیمنٹےرین پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے جو اپنی ذاتی خواہشات کو پس پشت ڈال کر ملکی مفاد میں کوئی فارمولا وضع کرے تاکہ یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہوسکے اور مستقبل میں ملک کسی ممکنہ ایجیٹیشن یا سیاسی بحران کا شکار نہ ہو۔ملک کے حق میں تمام فیصلوں کی منظوری کے بعد تمام سیاسی جماعتیں آپس میں نیا اےن آر او کریں تاکہ سیاسی نظام مستحکم سے مستحکم ہو سکے۔کون نہےں جانتا کہ سیاست میں راستے بنائے جاتے ہیںراستے بند نہیں کیے جاتے۔ سیاسی جماعت کا بنیادی مقصد اقتدار میں آنا ہے سیاسی جماعت کوئی کاروباری ادارہ ہوتی ہے اور نہ ہی یہ کوئی ٹرسٹ ہوتا ہے۔سیاسی جماعت اپنے منشور کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے ۔اس کا ایک باقاعدہ آئین ہوتا ہے اس آئین پر عمل کرنا سیاسی قیادت کا اولین فرض ہوتا ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعت گراس روٹ لیول تک اپنی تنظیم سازی کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا نعرہ تو جمہوریت ہوتا ہے لیکن ان کا عمل آمرانہ اور شاہانہ ہوتا ہے۔ ملک کے ریاستی اداروں پر تنقید کرنے سے پہلے سیاسی قیادت کو خود احتسابی کرنا چاہیے اگر سیاسی قیادت کا دامن صاف ہو تو ریاستی اداروں کے طاقتور عہدے دار کبھی ماورائے آئین اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتے۔پاکستان کی سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ جمہوری اصولوں کو مدنظر رکھے اور آمرانہ طرز فکر سے باہر نکل کر جیو اور جینے دو کے اصول کو اپناتے ہوئے ملکی مفادات کا ایک شفاف میکنزم بنائیں اور اس پر متفق ہو جائیں۔ملک اس وقت شدےد معاشی بحران سے دوچار ہے‘معاشی فلاح و بہبود سے دوری کے باعث ملک کا اکثریتی طبقہ غریب رہ جاتا ہے۔ اس طرح ملک کی پسماندگی بڑھتی رہتی ہے۔ آمدن میں اضافہ نہیں ہوتا۔ سرمایہ دار بااثر طبقہ مختلف طور طریقے سے اپنے اوپر سے ٹیکس کی رقم کو کم سے کم کروا کر حکومت کو برائے نام ٹیکس ادا کرتا ہے۔ پھر ملکی خزانے میں رقم کہاں سے آئے گی۔اس طرح عوام بھی غریب سے غریب تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ حکومت کے لیے مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے سے جب قرض طلب کرتی ہے تو اس کی شرائط پر عمل درآمد کرتے ہوئے عوام پر پٹرول، بجلی اور اب گیس کی مہنگائی کا نزلہ گراتی ہے ۔اس وقت مہنگائی نے عوام کا جےنا دوبھر کر رکھا ہے اب سےاستدانوں کی ذمہ دارےاں ہےں کہ عوام نے انہےں اپنا مےنڈےٹ دے دےا ہے او ےہ ان پر لازم ہے کہ وہ ماضی کی طرح اےک دوسرے کی ٹانگےں کھےنچ کر ملکی وسائل اور وقت کا ضےاع کےے بغےر ملک و قوم کو ترقی کی شاہراہ پر لے جا کر مسائل کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرےں‘ عوام کو وہ سہولےات فراہم کرےں جن کا انہےں برسوں سے انتظار ہے۔اگر سےاستدان ماضی کے طرز عمل سے نہ نکلے تو صورتحال میں کسی تبدےلی کی امےد نہےں کی جا سکتی لہذا کامےابی حاصل کرنے والی جماعتوں کا ےہ فرض ہے کہ وہ ملکی مفادات کے حوالے سے اپنی ذمہ دارےوں کا احساس و ادراک کرےں۔
