آج قوم اےک بار انتخابات کے ذرےعے اپنی قےادت کا انتخاب کرنے جا رہی ہے‘ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ووٹ کی امانت کا درست استعمال کرےں۔آئین کے آرٹیکل باون میں قومی اسمبلی کی مدت کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی مدت پانچ برس ہے۔یہ مدت کسی حکومت کی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کی ہے جس کا آغاز ہر پانچ سال بعد الیکشن کے باعث ہوتا ہے اور اگر اسے مدت سے پہلے تحلیل نہ کر دیا جائے تو یہ مدت پوری ہونے پر خودبخود تحلیل ہو جاتی ہیں۔ اگر اسمبلیاں مدت پوری ہونے سے قبل تحلیل کر دی جائیں تو اس کے بعد نوے دن میں الیکشن کروانے لازم ہیں۔1977کے انتخابات بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے پاکستان کے پہلے انتخابات تھے اور ان کے متعلق یہ بھی کہا جارہا تھا کہ یہ ملکی تاریخ میں ہونے والے سب سے زیادہ منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوں گے۔ پاکستان کے مغربی اور مشرقی حصوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناﺅ کے ساتھ ساتھ اس موقع سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں ۔ یہ انتخابات یحےی خان کے لیگل فریم ورک آرڈربرائے تیس مارچ کے تحت منعقد کیے گئے۔ جس میں رائے دہی کے حوالے سے اصول بھی طے کیے گئے تھے۔ مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان سے ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی انتخابی مہم میں صف اول پر تھیں۔ پاکستان کے پہلے براہ راست انتخابات ہونے کی وجہ سے دونوں اطراف ہی ماحول دوستانہ رہا اور انہوں نے اس کے طریقہ کار کا توجہ کے ساتھ مشاہدہ نہیں کیا۔ چنانچہ جب عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے عوامی لیگ نے قومی اسمبلی کی تین سو تیرہ نشستوں میں سے 167نشستیں حاصل کر کے میدان مار لیا ،اور اس طرح یہ واحد سب سے بڑی جماعت بن گئی جسے حکومت بنانے کا مینڈیٹ حاصل ہوا تو مغربی پاکستان میں سب حیران رہ گئے کہ اب کیا ہوگا؟ اس لیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی جو عوامی لیگ کے مدمقابل تھی، قومی اسمبلی کی 80نشستیں ہی حاصل کر پائی تھی۔ اس وقت کی مقتدر طاقتوں نے ایک نیا کھیل شروع کردیا، عوامی لیگ کو حق رکھنے کے باوجودحکومت نہیں بنانے دی گئی، ظاہر ہے کہ جس کا نتیجہ پاکستان کے مشرقی حصے میں احتجاج کی صورت میں ہی نکلنا تھا، یہ احتجاج بڑھتے بڑھتے خانہ جنگی میں تبدیل ہوگیا جو بالآخر پاکستان کو دو لخت کرنے کا سبب بنا اور بنگلہ دیش ایک آزاد ریاست بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔مغربی پاکستان میں صدارت بھٹو کے سپرد کر دی گئی، یہی نہیں بلکہ انہوں نے ملک کے پہلے غیر فوجی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے چارج سنبھالا اور مختصر مدتی قومی اسمبلی کو ایک دستور ساز اسمبلی میں تبدیل کرنے کا حکم جاری کیا۔1977 کے انتخابات سال کے دوسرے نصف میں منعقد ہونا تھے، لیکن بھٹو نے اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ یہ انتخابات سال کے اوائل میں سات مارچ کو ہی منعقد ہوں گے ۔ جنوری 1977 میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ہی بھٹو نے ایک بہت بڑی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا،عوامی اجتماعات اور پرہجوم جلسوں سے خطاب کے دوران انہوں نے اپنے نام نہاد اسلامی اشتراکیت کی تشہیر کی، یہی نہیں بلکہ مذہبی لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مذہبی حقوق کے نام پر مختلف احکامات بھی جاری کرنے شروع کر دیے ۔اس وقت دائیں بازو کی نو سیاسی جماعتوں کا اتحاد پاکستان نیشنل الائنس بھٹو کے مدمقابل تھا۔ یہ سیاسی ومذہبی جماعتیں انتخابات میں پیپلز پارٹی کو بھاری اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کے لیے اس کے خلاف متحد ہوگئی تھیں۔ انہوں نے بھٹو اور ان کے ساتھیوں پر بدعنوانی، بد انتظامی اور ملک کو بحران میں مبتلا کرنے کا الزام عائد کیا۔ پی این اے نے مذہب کو اپنا بنیادی نعرہ بنایا تھا اور ساتھ ہی بھٹو کے خلاف مہم بھی جاری رکھی، ان کی تنقید کا ہدف ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی خامیاں تھیں۔جب انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو پیپلز پارٹی ایک بڑی اکثریت کے ساتھ جیت گئی، اس نے قومی اسمبلی کی دو سونشستوں میں سے سو پر کامیابی حاصل کی۔ پی این اے جس نے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا، اس نے قومی اسمبلی میں صرف چھتےس نشستیں حاصل کیں ۔ الائنس نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا اور ایک بڑی سول نافرمانی کی ملک گیر مہم شروع کردی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا ، اور پیپلز پارٹی کے صدر اور چیف الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ قومی اتحاد نے انتخابات کے دوبارہ انعقاد کا بھی مطالبہ کیا ۔ابتدا میں تو بھٹو نے قومی اتحاد کے مطالبات مسترد کر دیے، لیکن بعد میں ان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی، دونوں جانب سے گفت و شنید کے سلسلے کے بعد انتخابات دوبارہ کرانے پر اتفاق کی کچھ امید پیدا ہوئی ۔ لیکن اس سے پہلے کہ اس کا موقع آتا، بھٹو کے منتخب کردہ چیف آف آرمی اسٹاف ضیا الحق نے جولائی 1977 کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔جنرل ضیا کے دور حکومت میں انتظامیہ بے لچک تھی۔ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی اور فروری پچاسی میں فوج کی نگرانی میں انتخابات کروانے کا اعلان کیا گیا۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو گرفتار کیا گیا اور قید میں ڈال دیا گیا جو جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک چلا رہے تھے، ان سیاسی جماعتوں نے جنرل ضیا کی آمریت کے خلاف اتحاد تشکیل دے دیا تھا ۔انتخابات سے پہلے بہت سے قوانین اور قواعد میں تبدیلیاں کی گئیں۔ جداگانہ انتخابات کا طریقہ کار متعارف کرایا گیا۔ ووٹ رجسٹریشن کی درخواست میں ایمان کی شہادت کو لازمی قرار دیا گیا۔ عوام کی نظر میں ان انتخابات کا مقصد ایک نمائندہ حکومت کے قیام کے برعکس، ضیا الحق کے اقتدار کو قانونی حیثیت دینا تھا اور یہ خیال اس وقت درست ثابت ہوگیا جب انتخابات کے بعد اختیارات پارلیمنٹ سے صدر یعنی ضیا الحق کو منتقل ہو گئے۔ اختیارات کی منتقلی آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے ہوئی جس کو اس سال کی منتخب قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا ۔حالانکہ ضیا الحق بار بار یہی کہتے رہے کہ یہ تمام اقدامات آئین کے مطابق ہیں جبکہ دوسری جانب سیاسی جماعتیں جن پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی تھی آئین کی بحالی کا مطالبہ کرتی رہیں۔انتیس مئی،1988 کو ضیا الحق نے آئین کے آرٹیکل 58ٹو بی کے تحت اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا۔ بعد میں انہوں نے نومبر 1988 کو ملک گیر غیر جماعتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ لیکن مطلق العنان فوجی حکمران کو اپنے اس اعلان پر عمل ہوتے ہوئے دیکھنے کا موقع نہ مل سکا کہ ان کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوگیا اور ان کے ساتھ امریکی سفیر آرنلڈ رافیل بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حالانکہ ضیا کے فیصلے مطابق 1988 کے انتخابات غیر جماعتی ہونا تھے، لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کی طرف سے دائر کی گئی پٹیشن کے جواب میں سپریم کورٹ نے اسے مسترد کر دیا۔ بے نظیر نے یہ دلیل دی کہ یہ طریقہ کار بنیادی حقوق کی آزادی کے اصولوں کے خلاف ہے۔چنانچہ سیاسی جماعتوں میدان صاف ہو گیا۔ بے نظیر پیپلز پارٹی کی قیادت کررہی تھیں۔ ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سولہ اور انےس نومبر کو یکے بعد دیگرے منعقد ہوئے۔ بہر حال پیپلز پارٹی کے سیاسی میدان میں واپسی کے ساتھ ہی ایک انتخابی اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے تشکیل دے دیا گیا۔ یہ جماعت پیپلز پارٹی کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف جماعتوں نے مل کر بنائی تھی، اس کے نمایاں ارکان جماعت اسلامی اور مسلم لیگ تھے۔سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم زیادہ تر پر امن رہی، نتائج آنے پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی، اس نے قومی اسمبلی کی ترانوے نشستیں حاصل کیں اور دوسری چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر کے ایک مخلوط حکومت قائم کی۔ بے نظیر ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔بے نظیر کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بد عنوانی اور لاقانونیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں بر طرف کر دیا۔چوبےس اکتوبر1990 کے انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی بے نظیر نے ملک گیر جلسے منعقد کرنے شروع کر دیے، جن میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں کارکنان نے شرکت کی، اسی دوران نواز شریف نے بھی انتخابی مہم کے تحت عوامی جلسے شروع کر دیے۔ اس بار پیپلز پارٹی نے پاکستان جمہوری اتحاد کے جھنڈے تلے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس جماعت میں تین اور جماعتیں شامل تھیں، اصغر خان کی تحریک استقلال ، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور پاکستان مسلم لیگ کا ملک قاسم گروپ شامل تھے۔ حالانکہ بےنظیر کی جماعت کے حامی کافی زیادہ تھے لیکن انتخابات میں دیکھا گیا کہ آئی جے آئی جیسی قدامت پسند جماعت نے قومی اسمبلی میں 105 نشستیں جیتیں جب کہ پی ڈی اے نے صرف 44نشستیں حاصل کیں۔ چنا نچہ نواز شریف نے اسلام آباد میں حکومت قائم کی جبکہ پیپلز پارٹی انتخابات میں دھاندلی کا گلہ کرتی رہی۔ لیکن اس کے اعتراضات کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔پھر1993اور1997 میں انتخابات ہوئے‘ ازاں بعد2002 اور2008 میں انتخابات کا انعقاد کراےا گےا۔پھر2013 میں نئی اسمبلی کے انتخاب کے گیارہ مئی کو انتخابات کا اعلان کیا گیا۔2018 میں انتخابات کے بعد آج پھر انتخابات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے دےکھنا ےہ ہے کہ کونسی جماعت اس میں کامےاب ہوتی ہے اور جمہورےت اےک بار پھر اپنے سفر کا آغاز کرتی ہے۔
