اےک روز قبل خصوصی عدالت نے ملک کے سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں دس، دس سال قید کی سزا سنا دی ۔ اڈیالہ جیل میں خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سزا سنائی۔اڈیالہ جیل کے حکام کے مطابق خصوصی عدالت کے جج اس کیس کا مختصر فیصلہ سنا کر چلے گئے جب کہ فیصلہ سنانے سے قبل فریقین کو حتمی دلائل دینے کی مہلت نہیں دی گئی۔عمران خان کی جماعت نے اس فیصلے کو اعلی عدالتوں میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔پارٹی کے ترجمان رﺅف حسن کا کہنا تھا کہ بانی چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے نہایت بے رحمی سے انصاف کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان کو حزب اختلاف کی جانب سے پیش کردہ تحریک عدمِ اعتماد کے ذریعے دس اپریل 2022 کو وزارتِ اعظمی کے منصب سے ہٹایا گیا تھا۔ستائےس مارچ کو عمران خان نے اسلام آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کے ایک جلسے کے دوران حامیوں کے سامنے ایک کاغذ لہراتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ یہ وہ سائفر ہے جس میں درج ہے کہ انہیں اقتدار سے نکالنے کے لیے کس طرح امریکہ میں سازش کی گئی۔ عمران خان نے ایک اور تقریر میں دعوی کیا کہ اس وقت کے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو نے امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید خان سے کہا کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو وہ پاکستان کو معاف کر دیں گے۔عمران خان کا اصرار تھا کہ ڈونلڈ لو اس امریکی سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد ان کی حکومت کو ہٹانا تھا۔ تاہم امریکی دفتر خارجہ نے ان تمام الزامات کی تردید کی تھی۔عمران خان ماضی میں متعدد مرتبہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کو اس سازش کا مرکزی کردار قرار دے چکے ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت ایک مقدمہ درج کیا جس کے بعد آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تحقیقات کا حکم سابق وزیراعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے 19 جولائی 2023 کو دیا اور 29 اگست 2023 کو سائفر کیس میں عمران خان کی گرفتاری ڈال دی گئی۔اس کیس میں عمران خان پر بنیادی الزام یہ تھا کہ انہوں نے سیاسی فائدے کے لیے ایک حساس سفارتی دستاویز کا استعمال کیا۔اس وقت کی حکومت کا کہنا تھا کہ سائفر کو سیکرٹ ایکٹ کے تحت پبلک نہیں کیا جا سکتا مگر عمران خان نے اس سائفر کو منٹس اور تجزیے میں تبدیل کیا اور اس کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ایک انٹرویو کے دوران عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ ان کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی غائب ہو چکی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی قانونی ٹیم کا اس حوالے سے موقف ہے کہ سائفر کی حفاظت کی ذمہ داری ان کے آفس کے عملے کی تھی نہ کہ خود عمران خان کی۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی اپنی سزاﺅں کے خلاف ہائی کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر سکتے ہیں۔ ان کے خلاف ٹرائل کورٹ نے ثابت کیسے کیا ہے اور کس معیار پر کیا ہے، ان تمام چیزوں کا اعلی عدالتوں میں ازسرِنو جائزہ لیا جا سکے گا۔کہا جا رہا ہے کہ اس معاملے میں ٹرائل کورٹ نے عجلت سے کام لیا اور غیرمعمولی طریقہ اختیار کیا گیا۔ صرف چند ہی گھنٹوں میں بہت سارے گواہوں کو دیکھا گیا جس پر عمران خان کے وکیل سلمان صفدر اور ویگر وکلا نے احتجاج بھی کیا تھا۔قارئےن جانتے ہےں کہ عام سفارتی مراسلے یا خط کے برعکس سائفر کوڈ کی زبان میں لکھا جاتا ہے۔ سائفر کو کوڈ زبان میں لکھنا اور اِن کوڈز کو ڈی کوڈ کرنا کسی عام انسان نہیں بلکہ متعلقہ شعبے کے ماہرین کا کام ہوتا ہے۔اس مقصد کے لیے پاکستان کے دفترخارجہ میں گریڈ 16 کے 100 سے زائد اہلکار موجود ہیں، جنہیں سائفر اسسٹنٹ کہا جاتا ہے۔یہ سائفر اسسٹنٹ پاکستان کے بیرون ملک سفارتخانوں میں بھی تعینات ہوتے ہیں۔امریکہ میں پاکستانی سفیر نے سفارخانے میں تعینات سائفر اسسٹنٹ کے ذریعے ملاقات کے بارے میں اپنے پیغام کو کوڈ لینگوئج میں بدلا اور اسے مخصوص ذریعے سے اسلام آباد میں خارجہ سیکرٹری کے نام ارسال کر دیا۔یہ مخصوص ذریعہ کوئی مشین فیکس، ٹیلی گرام، صوتی پیغام یا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے اور اس کا دارومدار کسی بھی ملک کے زیر استعمال اس ٹیکنالوجی پر ہوتا ہے جو وہ اس سلسلے میں استعمال کرتے ہیں۔ یوں یہ سائفر پیغام اسلام آباد پہنچ گیا۔یہاں یہ سائفر جیسے ہی موصول ہوا تو پھر دفترخارجہ نے اپنے سائفر اسسٹنٹ کی مدد طلب کی اور پھر اسے ڈی کوڈ کر لیا گیا۔ اس سائفر کو ڈی کوڈ کروانے کے بعد دفتر خارجہ کے اعلی عہدیدار اس نتیجے پر پہنچے کہ اس سائفر کو ہر صورت چار اہم شخصیات کو بھیجنا لازمی ہے۔یہ سائفر وزیراعظم، صدر مملکت، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بھیجا گیا۔درےں اثناء توشہ خانہ ریفرنس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور انکی اہلیہ بشری بی بی کو چودہ چودہ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اڈیالہ جیل میں کیس کی سماعت کرتے ہوئے عمران خان اور بشری بی بی کی عدم موجودگی میں فیصلہ سنایا۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی بھی ٹیم کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کو مجموعی طور پر 1574 ملین روپے جرمانہ کیا گیا، بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی 787 ملین روپے فی کس جرمانہ ادا کریں گے۔بانی پی ٹی آئی کو دس سال کے لیے نااہلی کی سزا بھی سنائی گئی جبکہ دونوں دس سال تک کسی بھی عوامی عہدے کے لیے اہل نہیں ہوں گےسماعت کے آغاز پر جج محمد بشیر نے کہا کہ خان صاحب آپ نے 342 کا بیان تیار کیا ہے، جس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ جی میں نے تیار کیا ہے میرے وکلا اور بشری بی بی کو آنے دیں تو میں اپنا بیان جمع کروا دوں گا۔جج نے کہا کہ آپ اپنا بیان عدالت میں جمع کرائیں ہم نے کارروائی آگے بڑھانی ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ آپ کو اتنی جلدی کیا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہماری حکم امتناع کی درخواست خارج کر دی ہے، مجھے تو اسسٹنٹ سپرٹنڈنٹ نے حاضری لگوانے کے لیے عدالت بلایا۔بانی پی ٹی آئی یہ کہہ کر کمرہ عدالت سے اپنی بیرک روانہ ہوگئے۔ عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو دوبارہ کمرہ عدالت بلانے کے لیے پیغام بھیجا۔اسسٹنٹ سپرٹنڈنٹ جیل نے عدالت میں بیان دیا کہ بانی پی ٹی آئی کمرہ عدالت آنے کے لیے تیار نہیں، جس پر عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کا نام پکارنے کی ہدایت کر دی۔ عدالتی اہلکار نے اونچی آواز میں بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کا نام پکارا لیکن پکار کے باوجود بانی پی ٹی آئی عدالت نہیں آئے۔سابق وزیراعظم عمران خان اور بشری بی بی کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے فیصلہ سنایا۔فیصلے کے بعد بشری بی بی گرفتاری دینے کے لیے خود اڈیالہ جیل پہنچیں جہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ بشری بی بی اور بانی پی ٹی آئی کو الگ الگ سیلز میں رکھا جائے گا۔پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی بہن علیمہ خان نے سائفر اور توشہ خانہ کیس کے فیصلوں کے خلاف اعلی عدالتوں میں جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی نظام دو دنوں میں دو فیصلوں کے بعد خود دفن ہوگیا ہے۔ہمارے وکلا ہمیں جواب دیں، انہوں نے کہا تھا بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز انصاف کے لیے کھڑی ہوں گی۔ پہلے تو وکلا ہمیں بتائیں کہ یہ ججوں کو انہی سے اٹھ کر بنائے جاتے ہیں تو ان کو کیوں نہیں دیکھا جاتا، انہوں نے کیوں نہیں دیکھا کہ ہمیں انصاف دلا سکیں گے کہ نہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے پورے نظام کو بے نقاب کردیا ہے، وکلا ہمیں جواب دیں یہ کس قسم کے جج آئے ہیں، ہم سمجھ رہے تھے کہ بار کونسلز اور وکلا تنظیمیں ان سب معاملات پر نظر رکھتے ہیں اور کوئی کیوں نہیں بول رہا ہے، سب اپنی اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ سائفر کیس میں سب نے دیکھا ہے کہ سابق وزیراعظم اور سابق وزیرخارجہ کے ساتھ جج کیسے برتاﺅ کررہا تھا، دو فیصلوں کے بعد ہمیں آٹھ فروری کو مزید جوش سے نکلنا چاہیے، بہت منظم انداز میں لوگ ووٹ کے لیے نکلیں گے، ایک ووٹ کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی، یہ ہماری ذمہ داری ہے ووٹ کسی کو بھی ڈال دیں لیکن ہمیں ووٹ ڈالنا ہوگا۔ہماری سےاسی صورتحال غمازی کرتی ہے کہ ہمارے ہاں عدم برداشت کی سےاست نے ملکی مفادات کو پس پشت ڈالنے کا چلن عام کر دےا ہے۔ نوبت بااےں جا رسےد اگر اےک جج دوسرے کے خلاف فےصلہ دے تو اسے قانون و آئےن کی فتح قرار دےا جاتا ہے لےکن وہی جج اگر ان کے خلاف فےصلہ دے تو انصاف کا قتل قرار پاتا ہے ۔ حکام ےہ سمجھتے ہےں کہ انہےں ان کی بداعمالےوں کے ضمن میں بھی کچھ نہ کہا جائے۔ہماری سےاست میں سزاﺅں کا موسم ہمہ وقت موجود رہتا ہے اور المےہ ےہ ہے کہ بعض طبقات ان سزاﺅں پر خوشےاں مناتے‘بھنگڑے ڈالتے اور مٹھائےاں تقسےم کرتے ہےں۔سےاستدانوں پر لازم ہے کہ وہ اےک دوسرے کی ٹانگےں کھےنچنے کی بجائے عوامی مےنڈےٹ کااحترام کرےں ‘ملکی مفادات کو پےش نظر رکھےں تاکہ بار بار اس صورتحال کا اعادہ نہ ہو۔
