ایران کے شہر سراوان میں پاکستانی مزدوروں کے قتل کے بعد دونوں ممالک کے مابین ایک مرتبہ پھر کشیدگی بڑھ گئی ہے جس کے بعد ایران کے وزیر خارجہ پاکستانی قیادت سے ملاقات کے لیے ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ ایرانی ایئر پورٹ پر پاکستانی سفیر مدثر ٹیپو نے انہیں رخصت کیا۔ اس موقع پرایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے کہا کہ پاکستان کی قیادت کی نیک خواہشات ہمارے تاریخی اور برادرانہ تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے لیے ہمارے مشترکہ عزم کا اعادہ کرتی ہیں۔واضح رہے کہ ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان ایسے وقت پر ہورہا ہے جب 27 جنوری کو ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے شہر سراوان میں نامعلوم مسلح افراد نے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو پاکستانی مزدوروں کو گولیاں مار کر جاں بحق کردیا تھا۔پاکستان نے سراوان میں پاکستانیوں کے قتل کو دہشت گردی اور قابل نفرت واقعہ قرار دیتے ہوئے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا اور ایران نے مزدوروں کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی تھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والے امن دشمن عناصر کی بیخ کنی کریں گے۔علاوہ ازیں پاک فوج نے ایرانی حملے کا جواب دہشت گردوں کے ایران میں ایک ٹھکانے پر حملہ کرکے دیا تھا۔ جس کے بعد دونوں ممالک نے تناﺅ کو کم کرنے کے لیے سفارتی سرگرمیوں کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔پاکستان میں سب سے پہلے کسی غیر ملک کے سربراہ کا دورہ ایرانی سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے کیا تھا۔ دونوں ممالک کے ہمیشہ ہی اچھے مثالی تعلقات قائم رہے ہیں۔ ایرانی حکومت نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں پاکستان کو ضروری اسلحہ بھی فراہم کیا تھا۔ پاکستان نے انقلاب کے بعد ایران سے اپنے تعلقات بحال رکھے تھے اور ان میں مسلسل بہتری آئی تھی۔ایران کی اسلامی حکومت کا پاکستان بہت مداح تھا اس لیے کہ پاکستان خود ایک اسلامی نظام پر مبنی حکومتی ڈھانچہ اور معاشرہ تشکیل دینے پر غور کر رہا تھا۔ گو کہ پاکستان کے امریکا اور یورپی ممالک سے گہرے تعلقات قائم ہیں مگر پاکستان نے بلا جھجک ایرانی اسلامی حکومت سے بھی ہمیشہ دوستانہ ہی نہیں بلکہ برادرانہ تعلقات قائم رکھے اور امریکا کی پابندیوں کے باوجود بھی ایران سے کسی نہ کسی سطح پر تجارت بھی جاری رکھی۔ ایران پاکستان مسلمانوں کے لیے مذہبی طور پر بھی کافی کشش رکھتا ہے کیونکہ وہاں کئی برگزیدہ ہستیوں کے مزارات موجود ہیں جن کی زیارت کرنے کے لیے سال بھر ہی پاکستانی ایران جاتے رہتے ہیں۔پاکستان کے ایران سے تعلقات کے خراب کرنے میں بھارت کا اہم کردار رہا ہے۔ جب پاکستان نے اپنی گوادر بندرگاہ کو ترقی دینا چاہا تو بھارت کے لیے یہ منصوبہ ایک بارگراں ثابت ہوا کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کی کوئی بندرگاہ عالمی توجہ کا مرکز بن جائے اور اس کے سہارے پاکستان کی ترقی میں اضافہ ہو۔ گوادر بندرگاہ کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کو اپنی تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے گود لے لیا۔ بھارت نے گوادر کے مقابلے پر اسے ترقی دینے کے لیے کام شروع کردیا۔اس بندرگاہ کے ذریعے بھارت اپنی تجارت کو وسطی ایشیائی ممالک تک دراز کرنا چاہتا تھا مگر بدقسمتی سے اس نے اس بندرگاہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بھارتی جاسوس وہاں سے بلوچستان کا رخ کرتے اور وہاں دہشتگردی کا نیٹ ورک پاکستان کے خلاف منظم کرنے کے لیے بلوچ نوجوانوں کو استعمال کرتے۔ یہ دہشتگردی ایک زمانے تک بڑے پیمانے پر جاری رہی مگر پھر پاکستانی ایجنسیوں نے بھارتی ایجنٹ کلبھوشن کو گرفتار کرکے بھارتی دہشتگردی کو بڑی حد تک ختم کردیا۔بھارت کی ہی کوششوں سے بلوچستان میں وطن عزیز کے خلاف دہشت گردی کو دائمی بنانے کے لیے بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی کئی دہشتگرد تنظیمیں قائم کی گئیں ان کی باقاعدہ فنڈنگ بھی کی گئی جو ابھی بھی جاری ہے۔ پہلے یہ دہشتگرد تنظیمیں بلوچستان میں ہی موجود تھیں مگر پاکستانی فوج کی ان کے خلاف مہم جوئی کی وجہ سے پہلے وہ افغانستان منتقل ہو گئیں بعد میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد ایران میں پاکستان سے ملحق سرحدی علاقوں میں ڈیرے جما لیے۔ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا۔ ان کی رائے میں پہلے دن سے ایران اور پاکستان نے ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ایران ہر فورم پر کشمیر سمیت ان اہم معاملات پر پاکستان کے موقف کا اعادہ کرتا آیا ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اہمیت کے حامل ہیں۔1965 اور1971 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگوں میں بھی ایران نے پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا اور اسلام آباد کو تہران کی سفارتی حمایت حاصل رہی۔ چند مواقع اور معاملات پر تناﺅ اور مشکلات کے باوجود پاکستان اور ایران کے تعلقات عمومی طور پر دوستانہ ہی رہے ہیں۔ یہ تعلقات بغیر کسی بڑے چیلنج کے 1979 تک بہت اچھے طریقے سے آگے بڑھ رہے تھے۔ دونوں ممالک کی ہی خارجہ پالیسی کی بنیاد مغربی ممالک سے اچھے تعلقات پر تھی ایران میں اسلامی جمہوریہ قائم ہونے کے بعد ایران مغرب مخالف کیمپ میں جا کر کھڑا ہوا اور یہی وہ وقت تھا جب ایران نے عرب ممالک کو بھی عرب بمقابلہ عجم کے تناظر میں دیکھنا شروع کیا۔ ایران کی خارجہ اور اندروںی پالیسیوں میں آنے والے بڑی تبدیلیوں کے باوجود بھی اس کے پاکستان سے تعلقات بہتر ہی رہے۔ پاکستان جب 28 مئی 1998 کو جوہری ملک بنا تو ایران میں اس بات کا جشن منایا گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد پاکستان پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ذریعے جوہری راز کی متعدد ممالک کو فروخت کا الزام بھی لگا، جس میں ایران کا نام بھی لیا گیا۔پاکستان اور ایران میں 1990 کی دہائی میں تعلقات میں اس وقت سرد مہری پیدا ہوئی جب ایران میں کچھ پاکستانی اور پاکستان میں کچھ ایرانی شہری مبینہ فرقہ وارایت کے بنیاد پر قتل ہوئے۔تاہم فرقہ وارانہ بنیاد پر تعلقات میں کشیدگی نوے کی دہائی کی ابتدا تک ہی محدود رہی۔ماہرین کے مطابق پاکستان میں ایران کے انڈیا کے ساتھ قریبی روابط پر تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ جس کی ابتدا بلخصوص مئی 2016 میں اس وقت ہوئی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے ایران کا دورہ کیا اورانڈیا، ایران اور افغانستان کے مابین سہ فریقی تعلقات کے لیے 550 ملین ڈالر کے فنڈ کا اعلان کیا تھا۔ ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے دشمن ہو ہی نہیں سکتے اور اس کی خاص وجہ لوگوں کا ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام کا رشتہ ہے۔ایران کو اپنی حکمت عملی پر از سر نو غور کرنا ہو گا کیونکہ پاکستان کے لیے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ وہ یہ پیغام دے کہ پاکستان کی خودمختاری پر حملہ تمام تر ماضی کے اچھے تعلقات کے باوجود برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ایک دوسرے کی سرزمین پر حالیہ کارروائیوں کے بعد بھی دونوں اطراف سے جاری کردہ بیانات میں حکام نے ایک دوسرے کے لیے اچھے الفاظ کا چناﺅ کیا ہے۔امےد ہے کہ ایران اور پاکستان اپنے تعلقات کو مثبت حالات میں بدلنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ ایران پاکستان قانونی تجارت ٹیکس آمدن کا بڑا ذریعہ ہے۔ ایران پاکستان تجارت سے سالانہ تقریبا 80 ارب روپے سے زیادہ ٹیکس حکومت پاکستان اکٹھا کرتی ہے۔ یہ صرف قانونی تجارت کے اعداد و شمار ہیں اور اگر اسے بہتر طریقے سے منظم کیا جائے تو مزید ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔دونوں ملکوں کا تقریبا 900 کلومیٹر کا بارڈر ہے۔ ایران پاکستان بارڈر کے دونوں اطراف بلوچ قبائل آباد ہیں۔ پنجگور کی آبادی تقریبا پانچ لاکھ ہے۔ یہاں کے عوام کا ذریعہ معاش ایران کی تجارت سے جڑا ہے۔ سرحد بند ہونے کی صورت میں بے روزگاری بڑھے گی اور امن و امان کی صورت حال بھی خراب ہو سکتی ہے۔ معاشی معاملات صرف پاکستانی طرف ہی خراب نہیں ہوں گے بلکہ ایرانی تاجر بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس مےں کہا گےا کہ دونوں ملک اچھے ہمسائیگی کے تعلقات کے عالمی اصولوں کے مطابق باہمی بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے معمولی رکاوٹوں پر قابو پا سکیں گے اور اپنے تاریخی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی راہ ہموار کریں گے۔ ایرانی وزیرخارجہ کے حالےہ دورے کے دوران اعلی پاکستانی قیادت سے بھی ملاقاتیں متوقع ہیں جن میں حالیہ پاک ایران کشیدگی، کالعدم گروہوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر تبادلہ خیال ہوگا، اس کے علاوہ سرحدی انتظام سمیت متعدد اہم امور پر بات کی جائے گی۔ پاک ایران تناﺅ سے بچنے کیلئے سفارتی رابطے مزید بہتر بنانے پر بھی غورکیا جائے گا، دونوں ممالک باہمی اعتماد کی بحالی کیلئے اقدامات پر بھی بات چیت کریں گے۔ حسین امیرعبداللہیان نے نگران وزیرخارجہ کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کےا ہے ، انہوں نے 19جنوری کو ٹیلیفونک رابطے میں ایرانی ہم منصب کو دورہ پاکستان کی دعوت دی تھی۔ہم امےد کرتے ہےں کہ دونوں ہمساےہ برادر ممالک اپنے اختلافات کو حل کر کے اچھے روابط قائم کرےں گے اور دشمنوں ان کے مابےن دورےاں پےدا کرنے کا موقع نہےں دےں گے۔
