گلگت بلتستان کے معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ نے کہا ہے کہ روزگار کے فروغ اور معاشی ترقی کے لیے حکومت پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کرے گی۔سرکاری شعبے کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کی جانب سے معاشرے میں بے روزگاری کے خاتمے کے لئے اٹھائے جانےو الے اقدامات قابل ستائش ہیں۔ معاشرے کے تمام طبقات کو رزق حلا ل کے حصول کے لیئے تیار کرنا احسن اقدام ہے، انہوں نے مزید کہا کہ مردو خواتین مل کر معاشرے اور ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنا سکتے ہیں، ایسی کمپنیز کی بدولت علاقے میں بے روزگاری کے خاتمے اور مقامی اشیاکے بیرون ملک ایکسپورٹ سے ملکی معیشت میں بہتری آئے گی وہ افراد جو اپنے کاروبار کے ساتھ لوگوں کو گھر کی دہلیز پر کاروبار کا موقع فراہم کرتے ہیں ان کی کاوشیں قابل تحسین ہیں ایسے اداروں کو اگر حکومت وقت سپورٹ کریں گی تو اس سے مزید ملازمتوں کے مواقع فراہم ہونگے۔ اس طرح کے فوڈ پروسسنگ یونٹ گلگت بلتستان کے ہر ضلعے میں لگائے جا سکتے ہیں گلگت بلتستان میں تازہ پھل وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں اس قسم کے کاروبار سے عوام کو باعزت روزگار کے مواقع بھی میسر ہونگے نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ اس یونٹ میں اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہے ۔خواتین گھروں میں بیٹھ کر آہ و زاری کرنے کے بجائے محنت سے کما کر اپنے گھریلوں اخراجات پورا کر رہی ہے اس قسم کے مواقع ہر ضلعے کی خواتین کو ملنا چاہیں ۔اپنی مدد آپ کے تحت کاروبار چلانے والوں کی صوبائی حکومت مکمل تعاون کرے گی اس کمپنی کی خاص بات یے یہ کہ یہ کمپنی اپنی مدد اپ کے تحت چل رہی ہے اور 80 کے قریب خواتین کو روزگار فراہم کیا ہے خواتین معاشرے کا اہم حصہ ہے خواتین کی ترقی کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی کے راہوں پر گامزن نہیں ہوسکتا خواتین کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔خواتےن کو معاشی طور پر مضبوط بنانا وقت کی اہم ترےن ضرورت ہے‘ معاشی خود مختاری بہتر زندگی کی کلید ہے۔خواتین کو عزت کی ضرورت ہے۔ماضی کی نسبت اب خواتین کی زیادہ بڑی تعداد کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا رہی ہے۔ اس سے فرق تو پڑنا ہی تھا۔ اگر موجودہ دور کا ماضی سے موازنہ کیا جائے، تو بحیثیت مجموعی اس حوالے سے آگہی بڑھی ہے اور روزگار کے شعبے میں بھی خواتین کا تناسب روز بروز زیادہ ہی ہو رہا ہے۔خواتین کی تعلیم اور ترقی کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہر حکومت کی ترجیح رہی ہے، جس کے ثمرات بالآخر دیہی علاقوں کی خواتین تک بھی پہنچتے ہیں۔نوجوان خواتین زیادہ بہادر ہیں۔ وہ آواز اٹھانے کی ہمت کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے حقوق سے آگاہ ہیں۔ انہیں ایسے اداروں کی خدمات بھی حاصل ہیں، جو ہر طرح کی رہنمائی اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ماضی میں خواتین میں یہی شعور اور ہمت بہت ہی کم اور ایسے ادارے تو نہ ہونے کے برابر تھے۔ خواتین کی زندگیوں میں تبدیلی آئی ہے، اس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا بھی بڑا کردار ہے۔ اس کے علاوہ ذرائع آمد و رفت کی صورت میں بہتر سہولیات نے بھی ان کے لیے یہ کام آسان کر دیا ہے کہ وہ اپنے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔ مگر اس تبدیلی کی رفتار ابھی تک بہت سست اور تبدیلی کا حجم بہت کم ہے۔شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں خواتین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ مگر اعلی ملازمتوں یا فیصلہ ساز عہدوں کی بات کی جائے تو آج بھی شہری خواتین دیہی خواتین سے بہت آگے ہیں۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ دیہی علاقوں کی خواتین کے لیے ملازمتوں کا دائرہ بھی وسیع کیا جائے اور ان کی فیصلہ ساز عہدوں پر موجودگی کی مزید حوصلہ افزائی کی جائے۔دیہی علاقوں کی خواتین نہ صرف شہری مردوں اور عورتوں بلکہ دیہی مردوں سے بھی زیادہ کام کرتی ہیں۔ لیکن ان کے کام کو کام سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اس فرق اور اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے، جو آج بھی پوری شدت سے پائے جاتے ہیں۔ دیہی خواتین کی محنت کو بھی سراہا جانا چاہیے۔حکومتی سطح پر بھی ان خواتین کو سراہا نہیں جاتا، جو ایک افسوس ناک رویہ ہے۔ ایک عام دیہی خاتون جس کا ملکی پیداوار میں بہت اہم کردار ہے، وہی عورت صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ وہ ہسپتال جائے تو وہاں طبی سہولیات ہی کافی نہیں ہوتیں۔ دیہی علاقوں میں رات کے وقت کسی خاتون کو کسی شدید طبی مسئلے کا سامنا کرنا پڑ جائے، تو علاقے کے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر تک نہیں ملتا۔ یہ حکومتوں کے کرنے کے وہ کام ہیں، جن کی دیہی خواتین بھی دیہی علاقوں کے مردوں اور شہری علاقوں کی آبادی کی طرح برابر کی حق دار ہیں۔صنف اور جنس کی تفریق سے بالاتر ہوکر خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع دیئے جانے چاہےں ٹیکنالوجی پر ان کا بھی حق تسلیم کرلیا جائے توخواتین اپنے خاندانوں کی معاشی حالت بدل سکتی ہیں۔ اےک چیمبر خواتین کو جدید ٹیکنالوجی اور ای مارکیٹنگ پر مختلف ٹریننگز کا بھی اہتمام کرتا رہتا ہے،تاکہ وہ گھر بیٹھے بآسانی اپنے کام کو فروغ دے سکیں۔انہی خواتین کے کام کوآگے بڑھا نے کے لئے ہر سال بلیوفیئر کا بھی انعقاد کیاجاتا ہے۔جس میں بہت سی معاشی و انتظامی مشکلات بھی درپیش رہتی ہیں،لیکن ان سب کو بھی خواتین مل کرحل کرتی ہیں۔ آن لائن بزنس میں زیادہ تر لوگ کورونا وائرس کی وبا کے دوران منتقل ہوئے۔ اس وبا کے دوران معاشی مشکلات، بے روزگاری بڑھنے اور کئی کاروبارختم ہونے کی وجہ سے لوگوں اور خواتین کی جانب سے گھروں میں کام شروع کرنے پر انہوں نے بھی جدید دنیا سے ہم آہنگ ہونے اور خواتین کی آن لائن کاروبار میں حوصلہ افزائی ہوئی ۔ آن لائن کاروبار میں آپ کی انویسٹمنٹ بہت کم ہوتی ہے جو خواتین کیلئے بہترین موقع ہے۔خصوصاسوشل میڈیا مارکیٹنگ نہایت آسان ہے۔آرڈر آنے پر آپ چیز ایک سے اٹھا کر دوسرے کو ڈیلیور کر دیتے ہیں ،دوسرا ایسی خواتین جنہیں گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے وہ گھر میں بیٹھ کر کما سکتی ہیں۔تاہم گھر میں بیٹھے ہوئے کام پر مکمل فوکس کرنا ایک چیلنج ہوتا ہے ۔دوردراز کے علاقوں میں رسائی بہت مشکل ہوتی ہے کیونکہ کورئیر سروس وہاں موجود نہیں ہے،دوسرا ای کامرس میں انٹر نیٹ کی رفتاربہترین چاہیئے ہوتی ہے جو ہمارے یہاں نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی کا سوچ سمجھ کر اور مثبت استعمال خواتین کی زندگیوں کا رخ بدل دیتا ہے،وہ نہ صرف اپنا کاروبارچلاتی ہیں بلکہ غیر ملکی نمائشوں کیلئے اب اپلائی بھی خود کرتی ہےں زمانے کے بدلتے ڈھنگ دیکھ کر اپنے کام میں مزید بہتری لاتی ہےں ۔اگر خواتین پر اعتماد کیا جائے تو وہ خاندانوں اور ملک کی قسمت بدل سکتی ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان خصوصا پسماندہ خطوں میں یہ کم نظر آتا ہے۔مگر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ای کامرس میں خواتین ہی چھائی ہوئی ہوں گی۔اس کام میں اکثر مشکلات درپیش ہوتی ہیں کیونکہ کبھی ہنرمند خاتون پر شوہر پابندی لگا دیتے ہیں تو کبھی والدین اور سسرال والے ان کے کام میں رکاوٹ پیدا کردیتے ہیں ،اس طرح کی دقت اکثر سامنے رہتی ہے کیونکہ ہمارے خطہ میں آج بھی خواتین کا گھر سے باہر نکل کر کام کرنا معیوب تصورکیاجاتا ہے۔گھر کے مرد چاہتے ہیں کہ عورتیں اپنی صلاحتیوں کا استعمال کرنے کی بجائے بس جو خود کما کر لائیں ،اسی پر گزارا کیا جائے ،یہ خواتین بچے پالیں ،ان کی خدمت کریں اور دو وقت کی روٹی کھائیں، زندگی بھر کیلئے بس یہی بہت ہے۔ملک میں موبائل صارفین کی تعداد 19 کروڑ تک پہنچ گئی ہے جس میں 14 کروڑ مرد جبکہ خوتین صرف 5کروڑ ہیں۔ اسی طرح موبائل فون پر انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 11 کروڑ ہے جس میں 9 کروڑ کے قریب مرد اور دو کروڑ 60 لاکھ سے زائد خواتین صارفین ہیں۔ پاکستان میں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایکٹو سوشل میڈیا صارفین کی تعداد سات کروڑ ہے تاہم فیس بک، یوٹیوب، ٹک ٹاک اور انسٹا گرام پر مردوں اور عورتوں کے درمیان 47 سے 78 فیصد فرق پایا جاتا ہے۔ عورتوں کے موبائل فون اور انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے، تاہم چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں یہ رجحان آج بھی انتہائی کم ہے۔ اس وقت پاکستان میں 5 کروڑ 20 لاکھ موبائل سمز خواتین کے بائیو میٹرک کی تصدیق کے ساتھ حاصل کی گئی ہیں۔ جن میں سے 50 فیصد یعنی دو کروڑ 60 لاکھ تھری جی یا فور جی انٹرنیٹ بھی استعمال کر رہی ہیں۔اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں مردوں اور عورتوں کے درمیان موبائل انٹرنیٹ کے استعمال کا فرق 16 فیصد تک ہے۔ یعنی انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں عورتوں کے مقابلے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے مردوں کی تعداد 16 فیصد زائد ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 38 فیصد ہے۔پاکستان میں چار بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ سے زائد بنتی ہے تاہم ایک صارف بیک وقت دو سے تین پلیٹ فارمز پر بھی موجود ہے۔ یوٹیوب کے سب سے زیادہ صارفین ہیں جن کی تعداد 7 کروڑ 17 لاکھ ہے۔ جن میں سے 72 فیصد مرد جبکہ 28 فیصد خواتین ہیں۔ یہ فرق 61 فیصد بنتا ہے۔ فیس بک کے صارفین کی تعداد پانچ کروڑ 71 لاکھ ہے جن میں سے 77 فیصد مرد اور جبکہ 23 فیصد خواتین ہیں۔ یہ فرق 70 فیصد تک بتایا جاتا ہے۔ بہرحال ضروری ہے کہ خواتےن کے لےے روز گار کا اہتمام ہر سطح پر کےا جائے اور حکومتےں اس حوالے سے ان کی معاونت کرےں۔
