وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے نگران وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکےورٹی اینڈ ریسرچ ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک سے ملاقات کی۔ اس موقع پر گلگت بلتستان کیلئے گندم سبسڈی سمیت خطے کو زرعی اجناس میں خودکفیل بنانے کیلئے مختلف تجاویز پر غورو خوض کیا گیا اور خطے کو درپیش گندم ایشو کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے مربوط اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان نے اس موقع پر گلگت بلتستان کیلئے سالانہ سولہ لاکھ بوری سبسڈائزڈ گندم فراہم کرنے کا مطالبہ کیا اور خطے کو زرعی شعبے میں خودکفیل بنانے اور غذائی اجناس کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کیلئے ایگریکلچر سپورٹ فنڈ کی مد میں اضافی گرانٹ فراہم کرنے کا بھی مطالبہ پیش کیا۔ نگران وفاقی وزیر نے اس موقع پر کہا کہ گلگت بلتستان کو سالانہ 16لاکھ بوری سبسڈائزڈ گندم کی فراہمی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائینگے اور زرعی اجناس میں خودکفیل بنانے کیلئے وفاقی حکومت بھر پور تعاون فراہم کریگی اور اس حوالے سے فنڈز کی فراہمی کے علاوہ صوبے کی زرعی شعبے میں پیداواری صلاحیت بڑھانے کیلئے پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کو سفارشات پیش کرنے کے احکامات دئیے جائینگے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہاکہ گلگت بلتستان کے عوام کو 100 فیصد مقامی سطح پر پیدا ہونیوالی گندم فراہم کی جائے کیونکہ درآمدی گندم نہ صرف مہنگی پڑتی ہے بلکہ اس کے معیار کے حوالے سے بھی عوامی سطح پر تحفظات پائے جاتے ہیں۔غدائی اجناس میں خود کفالت انتہائی ضروری ہے پاکستان کے اےک زرعی ملک ہے‘ بدقسمتی سے پاکستان سے غذائی اشیا کی برآمدات میں نہ صرف کمی واقع ہو رہی ہے بلکہ زرعی ملک ہونے کے باوجود اس کی اس شعبے میں درآمدات بڑھ رہی ہےں جو واقعتا خطرے کی بات ہے۔غذائی اشیا کی قیمتیں گزشتہ عرصے کے دوران تیزی سے بڑھی ہیں جس سے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آٹا، چینی، گھی، تیل، مرغی کا گوشت، دودھ اور خشک میوہ جات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ حتی کہ مسالہ جات، انڈوں، پھل اور دالوں کی قیمت میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔عوام غذائی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے اثرات محسوس کر رہی ہے بلکہ پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس بارہ سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ افراطِ زر یعنی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جس میں سب سے زیادہ غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح رواں برس کے پہلے دو ماہ میں بھی ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی شرح بڑھی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود آخر کیا وجہ ہے کہ ملک میں انہی غذائی اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جو یہاں پیدا ہوتی ہیں اور محض چند برس قبل تک پاکستان گندم اور گنے جیسی اجناس تو برآمد کر رہا تھا۔اب بھی دالوں میں خود کفیل اور دودھ پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ مگر اس کے باوجود اب ان میں سے بہت سی اشیا بیرونِ ملک سے درآمد کر کے ان پر بھاری زرِ مبادلہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ ان میں دودھ سے بنی اشیا گندم، خشک میوے، چائے، مسالہ جات، سویا بین تیل، پام آئل، چینی، دالیں اور دوسری غذائی اشیا شامل ہیں۔ پاکستان سے غذائی اشیا کی برآمدات میں نہ صرف کمی واقع ہو رہی ہے۔ بلکہ زرعی ملک ہونے کے باوجود اس کی اس شعبے میں درآمدات بڑھ رہی ہے جو واقعتا خطرے کی بات ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو دنیا بھر میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جب کہ دوسری جانب خام تیل کی قیمتوں میں بھی بتدریج اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ان دونوں عوامل نے مل کر ملک میں افراطِ زر کو بڑھایا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود زراعت میں ریسرچ کے کام پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جو ایک المیہ ہے۔ اس مقصد کے لیے ادارے تو بنائے گئے مگر ان میں اس قدر زیادہ بھرتیاں کر دی گئیں کہ ان اداروں کو ملنے والے فنڈز ایسے اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں میں کھپ جاتے ہیں۔ ایسے میں تحقیق کہاں سے ہو؟جب مقامی سطح پر بیج پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی تو دوسرے ممالک سے ان کے ماحول کے مطابق ہونے والی ریسرچ کے تحت بنائے گئے بیج یہاں کم ہی فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گندم کی پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے۔ ملک میں اس وقت پیدا ہونے والے گنے میں سکروز کی مقدار زیادہ سے زیادہ 12 فی صد تک آتی ہے جس کی وجہ سے گنے کی پراسسنگ کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور پھر چینی کی قیمت بھی بڑھتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ نہ صرف گندم بلکہ کپاس میں بھی تحقیقات نہ ہونے کی بنا پر اسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ پالیسیوں میں خامیوں کے ساتھ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے میدان میں کوئی کام نہ ہونے پر کپاس بھی درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ماہرین کے خیال میں اس وقت کاشت کاروں کو زراعت میں جدید طریقہ کار اپنانے کی ترغیب اور اس شعبے میں جدید ترین تحقیق کے ذریعے فی ایکڑ پیداوار بڑھانے میں مدد کی ضرورت ہے۔ تبھی اس پیداوار کو بڑھا کر قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کو بھی روکا جا سکے گا اور پھر درآمدات بھی کم کرنی پڑیں گی۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ہمارے قابلِ کاشت رقبے میں اضافہ نہیں ہوا۔ جب کہ گندم، گنا، کپاس اور دیگر اجناس کی فی ایکڑ پیداوار عالمی معیار سے کہیں کم ہے۔ہم اچھے بیج استعمال نہیں کر رہے۔ زراعت کے جدید طریقہ کار کا استعمال نہیں کیا جا رہا اور ہمارا کسان آج بھی پانچ ہزار برس پرانا طریقہ کار ہی استعمال کر رہا ہے۔ اسی طرح زمین کی لیزر لیولنگ نہیں کی جاتی۔ ملک میں ترقی پسند کسانوں کی تعداد بے حد کم ہے۔ اس طرح روایتی طریقہ کار اپنانے سے کسانوں کی پیداوار کم ہے۔ ماہرین کے مطابق جب عالمی منڈیوں میں دالوں اور چنے کا بحران آیا تو پاکستان اور بھارت سمیت کئی ممالک نے ان کی برآمد پر پابندی عائد کر دی اور یہ صرف مقامی منڈیوں میں فروخت ہونے لگے۔اس کا اثر یہ ہوا کہ بارانی علاقوں میں پیداوار بڑھنے کے بجائے کم ہو گئی اور پھر حکومت نے اس کی پیداوار بڑھانے کے لیے کسانوں کو کوئی ترغیب یا مراعات نہیں دیں۔ اس طرح اب یہ بھی باہر سے منگوانا پڑ رہی ہیں۔ حکومت گندم، گنا اور کپاس خود باہر سے منگوانے کے بجائے اسے پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرے اور خود یہ دیکھے کہ باہر سے منگوائی گئی اشیا کی کیا مناسب قیمت رکھی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قیمتوں کے تعین کے نظام کو مزید بہتر بنانے اور پھر اس پر سختی سے عمل درآمد کی بھی ضرورت ہے۔ شدید بارشوں اور سیلاب سے بھی پاکستان میں فصلیں بے حد متاثر ہوئی ہیں۔ پاکستان ایک عرصے سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے شدید متاثر ہونے والے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ اس بار گندم کی پیداوار کم ہونے کے پیچھے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی ہیں۔نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے مطابق ملک میں خوراک کے طور پر استعمال ہونے والے اناج اور زراعت کو ترقی دینے کے لیے جامع فوڈ سیکیورٹی پالیسی پر کام جاری ہے۔ اس پالیسی کا مقصد غربت، بھوک اور غذائیت کی کمی کا خاتمہ ہے۔ اس کے علاوہ پائیدار غذائی نظام کے فروغ کے لیے فصلوں، مویشیوں اور ماہی گیری کی صنعتوں میں اوسطا چار فی صد کی شرح نمو حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔وزارت کی فوڈ سیکیورٹی پالیسی کا تیسرا مقصد زراعت میں زیادہ پیداوار، منافع بخش اور آب و ہوا کے مطابق مسابقت کا ماحول پیدا کرنا بتایا جاتا ہے جس کے لیے مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے۔ یہ خدشات بھی درپیش ہیں کہ اگر طلب و رسد میں فرق، ذخیرہ اندوزی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بڑھے اور قیمتیں مزید اوپر گئیں تو ان کے باقی اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔زراعت میں ترقی اور زرعی اجناس میں خود کفیل ہو کر پاکستان خود کفیل ہوسکتا ہے۔ وہ غریب ممالک جن کی آبادی بھی زیادہ ہے یہاں خوراک ہی وجہ خانہ جنگی ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے مخصوص حالات میں یہ خطرہ کچھ عرصہ سے بڑھتا چل جا رہا ہے ۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ کی وجہ سے فقطہ گندم کی کھپت اور پیداوار میں پانچ کروڑ میٹرک ٹن کا فرق ہے۔ یعنی گندم کی کھپت تیس کروڑ میٹرک ٹن جبکہ پیداوار فقط25 کروڑ میٹرک ٹن ہے۔ گندم کی کاشت کے اہم ترین عناصر کھاد اور بیع ہو ہیں لیکن وفاقی سطح پر کھاد کی قیمتوں پر بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے کھاد کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کی ستر فیصد آبادی دیہاتوں میں آباد ہے جن میں اکثریت کا کام کھیتی باڑی ہے اور ان علاقوں میں بسنے والے لوگ زراعت سے منسلک کام کام کرتے ہیں مال مویشی پالنا، زرعی مزدوی‘مرغی خانہ، آبپاشی کے نظام میں ملازمت وغیرہ وغیرہ پاکستان میں زرعی تحقیق کی ہیں لیکن یہ تو بھی اور بجٹ کی کمی وجہ سے ان کی کارکردگی اور نتائج غیر تسلی بخش ہیں۔ پاکستان کی موجودہ گندم کی کھپت اور ضروریا ت تےس کروڑ میٹرک ٹن ہے۔ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی اور عالمی ضروریات کے مدنظر پاکستان کو پچاس کروڑ ٹن کی گندم کا پیداواری ہدف بنانا چاہئے جس پر ان تمام تحقیقی اداروں کو یکجا کرکے مختلف زرعی تعلیمی اداروں سے ذہین طلبا اور طالبات کے تعاون سے بہترین بیج اور کھاد بنا کر پاکستان میں زرعی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ گلگت بلتستان میں بھی اس حوالے سے تےزی سے پےشرفت کی ضرورت ہے تاکہ گندم کی قلت کا تدارک ممکن بناےا جا سکے۔
