خواتین سپورٹس کے فروغ کا عزم



گلگت بلتستان کے معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ نے مورخون گوجال ہنزہ میں ونٹر ائس ہاکی کی تقریب میں بحثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ضلع ہنزہ کے عوام نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے یہاں کے عوام نے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پاکستان کا نام بھی تمام دنیا میں روشن کیا ہے دنیا کی بلند ترین چوٹی کو بھی ضلع ہنزہ کی بیٹی نے سر کیا' کھیل کے میدان میں بھی ڈیانہ بیگ انٹرنیشنل لیول پہ پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں ۔کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ مجھے آج یہ سن کر نہایت خوشی ہورہی ہے مورخون منشیات سے پاک علاقہ ہے یہاں کے عوام نے منشیات سے دوری اختیار کی ہے ۔ یہاں کے عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کے لیے وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان خصوصی توجہ دے رہے ہیں یہاں کا سپسنشن پل کی تعمیر کو ہر صورت یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرونگا ۔آئس ہاکی کا جو گرائونڈ یہاں کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت بنایا ہے وہ قابل داد ہے بچوں کے ساتھ بچیوں کو بھی کھیلوں کے جانب راغب کرنا ہنزہ کی اچھی روایات رہی ہے یہاں پر کھیلوں کے فروغ کے لیے حکومت اپنا اہم کردار ادا کرے گی ۔ ڈپٹی کمشنر ہنزہ غضنفر علی کے مطابق جسطرح لڑکیوں نے کھیل میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا وہ قابل داد ہے میں ان بچیوں  ان کی مائوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنے بچیوں کو مواقع فراہم کیئے ہیں ۔کھیل صحت مند جسم اور دماغ کے لیے نہایت ضروری ہیں اور کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے سے ذہنی صلاحیتیں جلا پاتی ہیں۔ کھیلوں میں خواتین کی دلچسپی خوش آئند ہے۔ آج دنیا میں جن کھیلوں میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی اب ان کھیلوں میں خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ کھیل مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں مفید ہے۔ کھیل منفی مساوات کو فروغ دینے اور خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے لیے سب سے طاقتور پلیٹ فارمز میں سے ایک ہے۔ صنعتی اور طبقاتی تفریق سے بالاتر کھیل کی طاقت لوگوں کو ملانے اور ان پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔معاشرے میں منفی مساوات قائم کرنے میں کھیلوں کا کردار تسلیم شدہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ منفی عدم مساوات کی نوعیت کھیل کے میدان، گھر کے اندر اور کام کاج کی جگہ پر خواہ یورپی ممالک ہوں یا پاکستان میں ایک جیسی ہے۔ کھیل کے میدانوں میں اسپانسر شپ ، انعامی رقوم، سہولتیں اور سامان کی فراہمی جیسے معاملات میں خواتین کھلاڑیوں کو امتیازی رویوں کا سامنا رہا ہے۔ موجودہ دور میں کھیلوں کو بھی بطور کیرئیر اپنایا جا رہا ہے۔ آج کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں کھیلوں کی جانب خواتین کے مثبت رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خواتین کے کھیلوں پر بنیادی سے لے کر پیشہ وارانہ سطح پر سرمایہ کاری کرنا نہ صرف لڑکیوں کے لیے کھیلوں کے مواقع میں اضافہ ہے بلکہ پاکستان اور یورپ کے معاشرے کے لیے وسیع تر فوائد کے حصول کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی خواتین کھلاڑیوں کو منظرعام پر لانے میں زیادہ موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ جسمانی سرگرمیاں ایک انسان کی خواہ وہ مرد ہو یا عورت ذہنی، سماجی اور جسمانی نشوونما کے لیے بہت اہم ہوتی ہیں۔ لیکن تنگ نظری اور دقیانوس تصورات کے مطابق عورتوں کو کمزوراورصنف نازک قراردے کرکھیلوں کی سرگرمیوں سے دوررکھا جاتا ہے اگر کوئی خاتون کھلاڑی ان تمام مشکلات کوعبورکرکے کھیلوں کے میدان میں داخل ہو بھی جاتی ہے تو وہاں بھی انہیں توجہ اہمیت، سہولیات اور پذیرائی نہیں ملتی جو مردوں کو حاصل ہوتی ہے، اسے محض شوق سمجھا جاتا ہے اور پروفیشن کے طور پر اپنانے کے لئے انکی حوصلہ افزا ئی نہیں کی جاتی جس کے باعث اچھی کارکردگی کے باوجود ہماری کھلاڑی انٹرنیشنل لیول پر نتائج حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔مثبت ماحول دینے سے دیگر خواتین بھی کھیلوں کی طرف راغب ہونگی جہاں سازگار بنیادی سہولیات میسر آنے سے نہ صرف وہ اپنی صلاحیتیں بہتر انداز میں پروان چڑھا سکیں گی بلکہ بھرپور انداز میں ان کی حوصلہ افزائی سے عوامی توجہ بھی حاصل کر پائیں گی۔ خواتین کھلاڑی کھیل کے میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں، خواتین کو کھیلوں کا موقع فراہم کرنا، ان میں ایسی صلاحیت پیدا کرنا ہے جس کی بدولت وہ بہت سی اور خواتین، لڑکیوں کو کھیلنے کیلئے قیادت، تربیت اور معاونت فراہم کر سکیں انتہائی ضروری ہے۔خواتین کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ شکر ہے سوشل میڈیا کے آنے سے ہم اپنی کامیابیاں خود فیس بک یا ٹیوٹر پر لگا دیتے ہیں ورنہ تو ہماری ٹیموں کی تو نہ کسی دورے کی خبر ہوتی ہے نہ جیتنے کی۔ لیکن اس سوشل میڈیا سے بہت سی خواتین کھلاڑیوں کو انتہائی نامعقول قسم کے جملے بھی بھیجے جاتے ہیں۔ ان کے خلاف کس قسم کی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ہمارے ہاں خواتین کوسہولیات و وسائل کی کمی ، فیملی کی جانب سے عدم تعاون اورسماجی و مذہبی پابندیوں کے پیش نظرکھیل میں دلچسپی ہونے کے باوجود اس سے دور رہنا پڑتا ہے۔ بچپن ہی سے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ یہ منفی سوچ اورحدود بچیوں کے ذہن پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں اور وہ خود بھی اسے وقت کا ضیاع سمجھ کر اہمیت نہیں دیتیں ۔اگر کوئی خاتون کھلاڑی ان تمام مشکلات کوعبورکرکے کھیل کے میدان میں داخل ہو بھی جاتی ہے تو وہاں بھی مردوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے اسے جنسی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عورتوں کو اسپورٹس میں وہ توجہ اہمیت،سہولیات اور پذیرائی نہیں ملتی جو مردوں کو حاصل ہوتی ہے، اسے محض شوق سمجھا جاتا ہے اور وہ اسے پروفیشن کے طور پر نہیں اپنا پاتیں۔عدم توجہ اورمساوی اہمیت نہ ملنے پرمقابلوں میں اچھی کارکردگی کے باوجود ہماری کھلاڑی انٹرنیشنل لیول پر نتائج حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔نچلی سطح پر ان کھلاڑیوں کو معاشی مسائل، ٹریننگ کے لیے کورٹ ، کوچز، سہولیات کی عدم دستیابی کا سامنا رہتا ہے۔کرپشن اوروسائل کی کمی کا بہانہ بنا کر پاکستان اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن پورا سال ان کھلاڑیوں کے لیے مقابلوں کا انعقاد نہیں کرواتی،جس سے ان کی ٹریننگ پراثر پڑتا ہے ۔ کوئی مربوط نظام اورمناسب حکمت عملی آج تک قائم نہ ہوسکی جس سے ان کھلاڑیوں کو فائدہ ہوتا۔اس کے علاوہ کھیلوں کی بہت سی فیڈریشنز سیاسی روابط کے ذریعے بنائی جاتی ہیں جو پہلے ہی سے مردوں کے زیر تسلط ہیں ، اس کا بنیادی نقصان یہ ہے کہ کھیلوں میں خواتین کو اچھی نمائندگی نہیں ملتی۔اگر ہمارا کلچر لڑکیوں کو کھیلنے کودنے اور دوڑنے سے روکے گاتو وہ اپنے اندر کی صلاحیت کو کیسے پہچانیں گی؟ کیسے جانیں گی کہ وہ کن حیرت انگیز صلاحیتوں کی حامل ہیں؟ ہمیں نوجوان لڑکیوں کو لڑکوں کی طرح مضبوط اور پراعتماد بنانے کے لیے آزادی اور اوزاردینے کی ضرورت ہے، یہ سب اقدامات ہی آنے والے کل میں خواتین کے لیے نئی راہیں ہموارکرسکتے ہیں۔پاکستان ویمن ٹیم کی فاسٹ بولر ڈیانا بیگ کے مطابق ان کو دیکھ کر گلگت بلتستان میں دیگر لڑکیوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا شروع کی اور اب وہاں کی لڑکیاں انہیں رول ماڈل سمجھتی ہیں۔فٹبال اور کرکٹ دونوں ہی میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی ڈیانا بیگ نے کہا کہ کوشش ہوتی ہے دونوں کھیلوں کو یکساں وقت دیں لیکن ترجیح ان کی ہمیشہ کرکٹ ہی رہتی ہے۔ پاکستان میں ویمن کرکٹ کافی بہتر ہوچکی ہے اور اب لڑکیوں کا پول کافی بہتر ہوچکا ہے، گلگت ہو یا بلوچستان، ٹیلنٹ ہر جگہ ہے، سہولیات ہوں تو بہت سی خواتین کرکٹرز سامنے آئیں گی۔ وادی گلگت سے تعلق رکھنے والی اس فاسٹ بولر کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کی لڑکیاں کھیل کے میدان میں کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتی ہیں اور ان کو دیکھ کر مزید لڑکیاں کرکٹ میں دلچسپی لے رہی ہیں۔کراچی کے مشہور علاقے لیاری میں شاہین باکسنگ کلب شہر کی نوجوان لڑکیوں کو باکسنگ کی تربیت دے رہا ہے۔ خواتین کم تعداد میں سہی لیکن اس کھیل میں تربیت حاصل کر رہی ہیں، گزشتہ برس پاکستان کی چند خواتین باکسرز نے جنوبی ایشیائی کھیلوں میں بھی حصہ لیا تھا۔ مردوں اور خواتین باکسرز کے لیے اس کھیل میں سہولیات اور ضروری سازوسامان کے فقدان کے باعث یہ کھیل ترقی نہیں کرسکا لیکن اب حالات میں بہتری آرہی ہے۔پاکستان ایک قدامت پسند ملک ہے، جہاں خواتین اور لڑکیوں کو آگے بڑھنے کے لیے کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں جبکہ اس ملک میں ہر سال غیرت کے نام پر قتل کیے جانے کے بھی کئی واقعات منظر عام پر آتے ہیں۔گلگت بلتستان کے خواتین میں کھیلوں کا شوق خوش آئند ہے یہاں کی خواتین مختلف میدانوں میں اپنی کارکردگی کا لوہا منوا چکی ہیں اگر انہیں سہولیات فراہم کی جائیں اور سرکاری سطح پر سرپرستی کی جائے تو وہ ملک کے لیے بہت سے کارنامے انجام دے سکتی ہیں۔