صحت سہولت کارڈ بحالی کی کوششیں

گورنرگلگت بلتستان سید مہدی شاہ‘ وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبرخان ،وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری ، سیکرٹری کشمیر افیئرز و گلگت بلتستان اورگلگت بلتستان کونسل کی جانب سے پیش کی گئی سفارشات اور کاوشوں کی روشنی میں قوی امکان ہے کہ وفاقی حکومت رواں ہفتے گلگت بلتستان کے عوام کے لئے بذریعہ صحت سہولت کارڈ علاج معالجے کی سہولت جون 2024 تک کے لئے مشروط طورپربحال کردے اس ضمن میں وزیر اعظم سیکرٹریٹ کی جانب سے مثبت جواب سامنے آیا ہے ، یاد رہے کہ وفاقی حکومت صحت سہولت کارڈ کے ضمن میں گلگت بلتستان‘ آزاد کشمیر اوراسلام آباد کے رہائشیوں کے لئے سو فیصد رقم فراہم کر رہی تھی جبکہ دیگر صوبوں کو اس ضمن میں کل رقم کا تیس فیصد دیا جاتا تھا،بعد ازاں ملکی معاشی صورت حال کے پیش نظر گلگت بلتستان آزاد کشمیر اور اسلام آباد کے عوام کو ملنے والی یہ سہولت معطل کر دی گئی ۔ صحت کارڈ کی سہولت کی فراہمی خوش کن ہے۔صحت کی سہولیات کی فراہمی ہرانسان کا بنیادی حق ہے۔ایک صحت مندانسان ہی صحت مند زندگی گزارسکتاہے۔حکومتوں کو عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے دعوے نہیں حقیقی معنوں میں یقینی بناناہوگا۔عوام کو آبادی کے لحاظ سے صحت کی بہترسہولیات فراہم کرنی ہوں گی۔عوام کو صحت کی بہترسہولیات فراہم کرنے کیلئے ہمیں اپنے انفراسٹرکچرکوبہترکرناہوگا۔ہمیں صحت مند معاشرہ کی بنیاد رکھنے کیلئے صحت مندلائف سٹائل اپناناہوگا۔بنیادی صحت کی سہولیات عام آدمی کی دہلیز تک پہنچانا ضروری ہےں‘ دور دراز علاقوں میں مقیم لوگوں تک بنیادی صحت کی سہولیات پہنچانے کیلئے موبائل ہیلتھ یونٹس کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ بنیادی صحت کی سہولیات ہرشہری کا حق ہے لہذا حکومت عام آدمی کی ان تک رسائی یقینی بنائے ۔حکومتی اعداد وشمار کے مطابق ایشیا میں بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ پاکستان میں ہے۔ جوکہ نوزائےدہ بچوں میں فی ہزار پر پینسٹھ اور پانچ برس سے کم عمر والے بچوں میں شرح فی ہزار پر پچانوے بنتی ہے۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سن دو ہزار سے اب تک ہر سال مجموعی ملکی پیداوار یا جی ڈی پی کے اعتبار سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے صحت کے اخراجات میں کمی ہو رہی ہے۔صحت کے کل اخراجات جو سنہ دو ہزار میں جی ڈی پی کا صفر اعشاریہ سات فیصد تھے وہ اب صفر اعشاریہ پانچ چار فیصد ہوچکے ہیں۔ ہمےں صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کا نظام آزادی کے وقت برطانوی عہد سے ملا تھا۔یہ نظام صحتِ عامہ کی خدمات اور کچھ علاج معالجہ کی شکل میں تھا ۔ پاکستان میں صحت کی پالیسیاں بنانے اور منصوبہ بندی کا معاملہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی لیکن آئین میں کچھ ترامیم ہوئیں جس کے تحت اب صوبے بھی صحت عامہ کے معاملات کو خود دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم وفاقی حکومت کی طرف سے جو پالیسیاں بنائی جاتی ہیں صوبائی حکومتوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان پالیسیوں کے نفاذ کو یقینی بنائیں ۔ سب سے بڑا مسئلہ جو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں پبلک ہیلتھ سکولوں اور ٹیکنیشین ٹریننگ اداروں کو متعارف کروا کر میڈیکل پروفیشنلز کو تربیت دے کر صحت کی دیکھ بھال کے معیار کو بہتر بنانے میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ترقی میں اپنے محدود وسائل خرچ کر رہی ہیں۔آئینِ پاکستان کے مطابق سوائے وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں کے ، صحت کی دیکھ بھال بنیادی طور پر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ کورونا، ایڈز ، پولیو اور کچھ دیگر توسیعی پروگراموں کے نفاذ کی اور حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام کی ذمہ داری بڑی حد تک وفاقی وزارتِ صحت پر ہے ۔ہمارے نظامِ صحت کی حالت یہ ہے کہ پرائیوےٹ شعبہ ، آبادی کے تقریبا ستر فیصد حصے کو سہولیات فراہم کر رہا ہے ۔ نجی شعبہ جو سہولیا ت لوگوں کو فراہم کر رہا ہے وہ اس کے لیے اپنی فیس وصول کرتا ہے اور یہ فیس ایک متوسط فرد یا غریب فرد ادا نہیں کر سکتا۔ صحت کا نظام اس قدر خراب ہے کہ نہ تو نجی اور نہ ہی سرکاری شعبے ریگولیٹری فریم ورک کے اندر کام کرتے ہیں ۔ خواتین کی صحت کے حوالے سے اقدامات کیے تو جار ہے ہیں لیکن اس کے کوئی دور رس نتائج نہیں آرہے۔ خواتین کے لیے صحت کے معاملات میں سب سے اہم زچگی اور زچگی کے دوران لاحق ہونے والے پچیدہ امراض ہیں۔ جس کی وجہ سے زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات بہت زیاد ہ ہے۔ پاکستان میں تےس فیصد سے بھی کم آبادی کو پرائمری ہیلتھ کیئر سینٹرز کی سہولیات تک رسائی حاصل ہے ۔ اوسط ہر فرد ایک سال میں ایک سال سے بھی کم ہیلتھ کیئر سینٹرز تک جاتا ہے ۔ ہیلتھ کیئرسینٹرز میں جانے میں عدم دلچسپی کی وجہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد اور خاص طور پر وہاں خواتین کی کمی ، غیر حاضری کی اعلی شرح ، سہولیات کا ناقص معیار اور ادویات کی عدم دستیابی شامل ہے ۔ جبکہ دوسری طرف پاک فوج ، پاکستان ریلوے ، اٹامک انرجی اور بہت سے دیگر ادارے ایسے بھی ہیں جو اپنے ملازمین کو بہترین صحت کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔صحت کی بہترین سہولیات عوام کو فراہم کرنا حکومتوں کی اولین ترجیح ہو نی چاہیے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ مل بیٹھ کر عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے لیے واضح اور جامع پالیسی مرتب کریں ۔ نئے جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل ہسپتال بنائے جائیں ۔نئے ڈاکٹرز اور لیڈی ڈاکٹرز کو ملازمتیں دی جائیں ۔ پیشہ ور نرسز کو تعینات کیا جائے ۔ ہسپتالوں میں دوائی کی فراہمی اور دستیابی کو یقینی بنایا جائے تاکہ غریب عوام کو بہتر اور مفت صحت کی سہولیات میسر آ سکیں اور انکا معیارِ زندگی بہتر ہو سکے ۔ پاکستان میں اب تک حکومت کے ترجیحی ایجنڈا میں صحت کہیں نظر نہیں آتی، حالانکہ دنیا بھر کے کئی ترقی پذیر ممالک میں حکومتوں نے صحت کے شعبے میں اصلاحات کے ذریعے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کر کے اس کا سیاسی فائدہ بھی اٹھایا ہے۔انسانی حقوق کے عالمی اعلانیے مجریہ 1948 میں کہا گیا ہے: ہر فرد اور اس کے خاندان کو صحت کی مناسب سہولیات کا حق حاصل ہے۔ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ صحت کے آئین میں درج ہے: صحت کے بلند ترین معیار سے استفادہ کرنا ہر فرد کا بنیادی انسانی حق ہے۔ ہمارے ملک میں عام لوگ پرائیویٹ علاج کرواتے ہیں، حالانکہ عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا سرکار کا کام ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر صحت کے پروگراموں کی منصوبہ بندی کرے، لیکن یہ منصوبہ بندی صرف اسی وقت ہو سکتی ہے جب حکومت کے پاس سیاسی عزم موجود ہو۔ہمارے ہاں صحت پر اٹھنے والے کل خرچ کا تہتر فی صد حصہ لوگ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں، جب کہ بقیہ ستائےس فیصد میں فلاحی ادارے اور پرائیویٹ ادارے بھی شامل ہیں اور حکومت کا حصہ انتہائی کم ہے۔ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نظام صحت دوہرے راستے پر گامزن ہے ایک نظام فنڈ سے چلنے والا اور دوسرا نظام پرائیویٹ سیکٹر کا۔ ذاتی مفادات کو فنڈ سسٹم پر فوقیت دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معیار صحت روز بروز روبہ تنزل ہو گیا۔غریب طبقہ کسی وجہ سے پرائیویٹ علاج کی طرف آمادہ ہو بھی تو علاج کے اخراجات اس کی قوت سے باہر ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہےے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو گورنمنٹ ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے کہ وہ غریب اور مستحق مریضوں سے منافع نہ لیں بلکہ مفت طبی سہولیات فراہم کرے۔ صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لئے لوگوں کو تعلیم دی جائے اور گھریلو صفائی ستھرائی کے حوالے سے شعور فراہم کرنے کے لئے آگاہی مہم چلائی جائے۔ ایسا سسٹم بنایا جائے کہ وہ لوگوں کی بیماریوں تک پہنچے۔ اس ضمن میں سماجی مسائل کو صرف اجاگر کرنے سے کام نہیں بن سکتا بلکہ اس کے لئے پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد بھی لازمی امر ہے۔ہر انسان کو صحت کی سہولیات مفت اور عزت نفس کے ساتھ مہیا ہونی چاہئیں یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔صحت سہولت کارڈ پاکستانی عوام کی ان مشکلات کے خاتمے کے لیئے ایک نوید ہے جو بیمار پڑنے کے بعد علاج کی سہولیات کے حصول کے لیئے پریشان ہوتے ہیں پبلک سیکڑ میں علاج کی مہنگی اور غیر معیاری سہولیات نے عوام کے مسائل میں گزشتہ کئی دہائیوں سے مسائل پیدا کر رکھے ہیںغریب عوام پرائیویٹ ہسپتالوں کے اخراجات برداشت نہ کر سکنے کے سبب سرکاری ہسپتالوں میں جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جہاں صحت کی ناکافی سہولیات کے سبب جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے حکومتوں نے اسی وجہ سے عوام کے لیئے صحت سہولت کارڈ کا اجرا کیا جس کا مقصد غریب اور پسماندہ علاقے کی عوام کو صحت کی بہترین ترین اور معیاری سہولیات فراہم کرنا تھا اس سے لاکھوں لوگوں نے فائدہ اٹھاےا۔اس لےے ضرورت اس بات کی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کے لےے ےہ صحت کی سہولت فوری بحال کی جائے کےونکہ ےہاں پہلے ہی علاج معالجے کی سہولےات ناکافی ہےں۔