الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے پوسٹل بیلٹ پیپرزکی فراہمی کا عمل شروع کردیا ہے۔پوسٹل بیلٹ پیپر سے اہل افراد بائےس جنوری تک اپنا ووٹ کاسٹ کرنےکا عمل مکمل کریں گے جب کہ پوسٹل بیلٹ کے لیے درخواست فارم الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے ڈان لوڈ کیے جاسکتے ہیں۔پوسٹل بیلٹ حاصل کرنے پر ووٹر اپنے ووٹ کو مقررہ وقت کے مطابق ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسرکوبھجوائے گا۔ملک میں عام انتخابات آئندہ ماہ 8 فروری کو شیڈول ہیں جس کی تیاریاں حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہیں۔گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ عام انتخابات کے لیے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا کام معمول کے مطابق جاری ہے۔اس سے قبل الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ انتخابی نشانات کی تبدیلی کا عمل جاری رہا تو الیکشن میں تاخیرکا خدشہ ہے، بیلٹ پیپر دوبارہ پرنٹ کرانا پڑیں گے جس کے لیے پہلے ہی وقت محدود ہے۔ انتخابات 2024 میں ٹرانسپورٹیشن، سکیورٹی کے فول پروف انتظامات اور دیگر اخراجات کے اضافے سے الیکشن اخراجات کا تخمینہ انچاس ارب سے تجاوز کر گیا ہے۔الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے وفاقی حکومت سے 47 ارب روپے کی ڈیمانڈ کی تھی جو مرحلہ وار الیکشن کمیشن کو فراہم کی جارہی ہے۔ملک میں سےکیورٹی خدشات اور سرحدی صورتحال کے پیش نظر پولیس، رینجرز ، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے سکیورٹی کے لیے الیکشن کمیشن سے مزید ساڑھے 3 ارب روپے کی ڈیمانڈ کردی ہے۔اس حوالے سے صرف پنجاب پولیس نے عام انتخابات کی سکیورٹی کیلئے الیکشن کمیشن سے ایک ارب 19کرو ڑ روپے طلب کرلیے ہیں۔انتخابات کی تےارےوں کے باوجود ابھی بھی ےہ تحفظات موجود ہےں کہ شاےد انتخابات تاخےر کا شکار ہو جائےں۔مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ الیکشن ملتوی کرانے کی کوشش کی گئی تو مزاحمت کریں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں خواتین کی بڑی تعداد جنرل نشستوں پر الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کل 882 خواتین امیدوار جنرل نشستوں پر انتخابی میدان میں اتری ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 312 اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 570 امیدوار میدان میں ہیں۔ سب سے زیادہ 305 خواتین پنجاب اور سب سے کم بلوچستان سے 40 خواتین سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر اور آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ملک بھر میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر 93 خواتین سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر اور 219 آزاد حیثیت سے انتخابی دوڑ میں شامل ہیں۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر 570 خواتین امیدوار الیکشن کا حصہ ہیں۔خیبرپختونخوا سے 69 خواتین جنرل نشستوں پر امیدوار ہیں، جن میں 41 سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ اور 28 آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔پنجاب سے 305 خواتین جنرل نشستوں پر انتخابی دنگل میں شامل ہیں، جن میں 62 سیاسی جماعتوں اور 243 آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔سندھ سے 156 خواتین انتخابی دوڑ میں ہیں جن میں 61 سیاسی وابستگی اور 95 آزاد حیثیت سے انتخابی دوڑ میں شامل ہیں۔ بلوچستان سے 40 خواتین الیکشن میں سامنے آئی ہیں، جن میں 18 سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں اور 22 آزاد حیثیت سے الیکشن میں قسمت آزمائی کررہی ہیں۔الیکشن کمیشن اور پولیس کے درمیان عام انتخابات کے دوران سےکیورٹی کے حوالے سے بھی معاملات طے پا گئے ہےں ، جس کے تحت الیکشن کمیشن نے انتہائی حساس ، حساس اور سی کیٹیگری کے پولنگ اسٹیشنز پر نفری تعیناتی کا نیا فارمولا دے دیا ۔الیکشن کمیشن کے مطابق انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنز پرپانچ ، حساس پولنگ اسٹیشنز پر چار اور سی کیٹیگری کے پولنگ اسٹیشنز پر تےن اہل کار تعینات کیے جائیں گے۔ قبل ازیں الیکشن کمیشن کی جانب سے انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنز پرچھے، حساس اور سی کیٹیگری کے پولنگ اسٹیشنز پر پانچ اور چار اہلکار تعینات کرنے کا فارمولا دیا گیا تھا، جس پر پولیس نے نفری کی کمی کے باعث الیکشن کمیشن کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا ۔ لاہور میں 4300 سے زائد پولنگ اسٹیشنز ہیں جن میں 38 سو سے زائد پولنگ اسٹیشنز انتہائی حساس اور حساس کیٹیگری میں شامل ہیں ۔سی سی پی او نے الیکشن ڈیوٹی کے لیے سی آئی اے اور انویسٹی گیشن ونگ کو بھی ڈیوٹی پر تعینات کرنے کے احکامات دے دیے ہیں، جس کے بعد سی آئی اے اور انویسٹی گیشن ونگ سے اضافی نفری الیکشن ڈیوٹی پر فرائض سرانجام دے گی۔درےں اثناء وزیراعظم نے عام انتخابات 2024 کے انعقاد کے لئے وزیرمواصلات میری ٹائم افیئرز کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دیدی ہے ۔کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیاہے۔ چھ رکنی کمیٹی میں سیکرٹری داخلہ اور چاروں صوبائی چیف سیکریٹریز شامل ہیں۔کمیٹی عام انتخابات سے متعلق سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لے گی ۔ عام انتخابات کے پرامن انعقاد کے لئے انتظامی امور سمیت متعلقہ امور کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔کمیٹی امن وامان کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اضافی سیکیورٹی سے متعلق معاملات کو بھی دیکھے گی اور عام انتخابات کے پرامن انعقاد کے لئے الیکشن کمیشن کے احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ نوے فیصد فوجی پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے جنرل باجوہ نے مجھ سے کہا ساری فوج تمہارے ساتھ ہے، باجوہ کے فیصلوں نے پاکستان کا بیڑا غرق کیا لیکن فوج کا اس میں قصور نہیں۔اڈیالہ جیل میں میڈیا سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ نواز شریف انتخابی مہم چلانے کے لیے نکلا ہے بتائیں سولہ ماہ تک کن ریلو کٹوں کی حکومت تھی؟ سولہ ماہ میں معیشت کا بیڑا غرق کر دیا گیا، پندرہ لاکھ پروفیشنل ملک چھوڑ کر چلے گئے، ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بیرونی خسارہ تھا جو یہ چھوڑ کر گئے۔ ہماری حکومت نے گروتھ ریٹ 6 اعشاریہ 7 فیصد پر چھوڑا جو انہوں نے صفر کر دیا، ہمارے دور میں مہنگائی 12 اعشاریہ چار فیصد تک گئی جو یہ 38 فیصد تک لے گئے، ہمارے دور میں دہشت گردی نیچے آئی ، افغان صدر اشرف غنی کی حکومت سے ہمارے اچھے تعلقات تھے لیکن نون لیگ حکومت نے آکر افغانستان سے بھی تعلقات تباہ کر دیے ان کی فارن پالیسی کی وجہ سے پاکستان تنہا ہو گیا۔عمران خان نے کہا کہ ایران نے پاکستان میں حملہ کرکے غلط کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ایران کا دشمن اسرائیل کوشش کرے گا کہ ہمارے تعلقات خراب ہوں پاکستان کی معیشت اس وقت بیٹھی ہوئی ہے ان حالات میں ہمیں تنازعات میں نہیں پڑنا چاہیے ہمسایوں کو بدل نہیں سکتے، ہم نے ہندوستان سے بھی دوستی کی پوری کوشش کی تھی افغانیوں کو نکال کر ہم نے نفرت کو بڑھایا۔بندوقوں سے مسائل حل نہیں ہوتے سیاسی حکومت سیاسی حل ڈھونڈتی ہے اور تمام مسائل کا حل صاف اور شفاف انتخابات ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 80 ہزار لوگ شہید کروائے ہمیں لانے سے پہلے کمزور کیا گیا تاکہ کنٹرول کیا جا سکے۔ فری اینڈ فیئر الیکشن کے علاوہ کوئی حل نہیں ۔میں نے حکومت بناکر غلطی کی مجھے دوبارہ الیکشن میں جانا چاہیے تھا میں جنرل قمر باجوہ کی میٹھی باتوں میں آگیا تھا جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع دینا میری دوسری غلطی تھی۔اتحادی حکومت سے بہتر ہوگا کہ ہم اپوزیشن میں بیٹھ جائیں گندے الیکشن سے ملک میں مزید عدم استحکام پیدا ہوگا اقتصادی خسارے کی کمی اور قانون کی بالادستی کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سائفر دفتر خارجہ میں موجود رہتا ہے صرف اس کا مفہوم دیا جاتا ہے اور نو اپریل کی کابینہ میٹنگ میں سائفر کو ڈی کلاسیفائی کردیا گیا تھا۔ پاکستان کی فوج ہماری فوج ہے نوے فیصد فوجی پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے، باجوہ نے ایوان صدر ملاقات میں کہا کہ ساری فوج تمہارے ساتھ ہے باجوہ کے فیصلوں نے پاکستان کا بیڑا غرق کیا لیکن فوج کا اس میں قصور نہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ سیاسی آدمی ہمیشہ بات چیت کے لیے تیار ہوتا ہے پی ڈی ایم سے بھی ہماری کمیٹی نے انتخابات کے حوالے سے بات چیت کی تھی پی ڈی ایم نے کہا تھا کہ جسٹس بندیال کے ہوتے ہوئے الیکشن نہیں کروائے جا سکتے کسی کو اندازہ نہیں کہ آٹھ فروری کو کیا ہونے والا ہے۔میں کسی مارشل لا کی نرسری میں نہیں پلا، ملک میں غیر یقینی صورتحال ہے ہر روز عوام کا غصہ بڑھتا جا رہا ہے آٹھ فروری کو لوگ اپنا غصہ نکالیں گے اور ان کو بڑا دھچکا لگے گا، جج ہمایوں دلاور کا میچ فکس تھا اس کا دیا گیا فیصلہ معطل ہوگیا پھر بھی مجھے نااہل کر دیا گیا۔سےاستدانوں کے بےانات اور الےکشن مہم میں تےزی ظاہر کرتی ہے کہ اب انتخابات کا التوا ناممکن ہے‘ہمارے نزدےک جمہورےت کا سفر انتخابات کے تسلسل سے ہی جاری رہ سکتا ہے اس لےے انتخابات میں تاخےر ےا التوا کی سوچ کو چھوڑ کر انتخابات کے انعقاد پر توجہ دی جائے۔
