پاک اےران کشےدگی:فرےقےن تحمل سے کام لےں


پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی میں کمی کے آثار نظر آنے لگے ہیں جب کہ دونوں ممالک کے درمیان سرکاری سطح پر مثبت پیغامات کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ ایرانی سفارتکار سید رسول موسوی نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ دونوں ممالک کے رہنما اور اعلی حکام جانتے ہیں کہ حالیہ تناﺅ کا فائدہ ہمارے دشمنوں اور دہشت گردوں کو ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ مسلم دنیا کا اہم مسئلہ غزہ میں صہیونیوں کے جرائم بند کرنا ہے۔ایرانی عہدیدار کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹری رحیم حیات قریشی نے کہا کہ آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوںانہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور ایران مثبت بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے، دہشت گردی سمیت ہمارے مشترکہ چیلنجز کے لیے مربوط کارروائی کی ضرورت ہے۔ترجمان دفترخارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے بھی پاکستان اور ایران کے درمیان رابطوں کی تصدیق کی۔دوسری طرف پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر نے دونوں ممالک کو برادرہمسایہ اور دوست ملک قرار دیا۔اپنے پیغام میں ایرانی سفیر رضا امیری مقدم نے واضح کیا کہ ایران اور پاکستان نے مختلف میدانوں اور مشکل اوقات میں ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ایرانی سفیر نے کہا کہ دونوں ممالک کو ایک جیسے خطرات کا سامنا ہے۔منگل کی شب پاکستان کے اندر ایک ہدف پر ایران کا میزائل اور ڈرون حملہ اس خطے اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں بے چینی کا باعث بنا پاکستان میں کی گئی کارروائی زیادہ اہمیت حاصل کر رہی ہے حتی کہ ایران نے اس سے قبل عراق کے کردستان علاقے میں اربیل اور شام کے شہر ادلب میں بھی اہداف پر میزائل داغے تھے۔جہاں ایک طرف پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اسے اشتعال انگیز کارروائی قرار دیا جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو نقصان پہنچایا وہیں ان کے ایرانی منصب حسین امیر عبد اللہیان نے واضح کیا کہ ہم آپ کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتے ہیں تاہم ہم اپنی قومی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ایرانی وزیر خارجہ کے مطابق ایران نے پاکستان میں ایرانی دہشتگرد گروہ جیش العدل کو نشانہ بنایا جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا کہ اس سرحد پار کارروائی میں دو معصوم بچوں کی ہلاکت ہوئی۔پاکستان نے سرحدی خلاف ورزی پر ایران سے اپنے سفیر کو بھی واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ایران کی طرف سے عراقی سرزمین پر، خاص کر کردستان علاقے میں، اہداف کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ایران کے مطابق وہاں ایران مخالف گروہوں نے پناہ لے رکھی ہے تاہم عراقی حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔ماضی میں اسی شدت سے ان حملوں میں ڈرون، توپ خانے اور راکٹ استعمال کیے جاچکے ہیں۔ایران نے شام کے اندر بھی بعض اہداف پر میزائل حملے کیے جس کی شدت بظاہر عراق میں کیے گئے حملوں کے مقابلے میں کم ہے تاہم ادلب میں کیے گئے حملے ایرانی میزائلوں کی قوت اور رینج کے اعتبار سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔یہ کم ہی دیکھا گیا ہے کہ ایران پاکستانی حدود میں کسی ہدف پر اس طرح کا حملہ کرے، خاص کر اگر اس کی ٹائمنگ کو مدنظر رکھا جائے۔مقامی حکام کے مطابق ایرانی میزائل اور ڈرون حملہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر پنجگور کے قریبی علاقے سبز کوہ میں کیا گیا جو ایک دشوار گزار جگہ ہے۔ ایران نے ماضی میں پنجگور اور کیچ کے مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا لیکن انداز، شدت اور وقت بالکل مختلف تھے۔ بعض صورتوں میں تو میڈیا کو اس کی اطلاع بھی نہیں دی گئی۔ایران پاکستان تعلقات میں ہمیشہ اتار چڑھاﺅ آتا رہا ہے۔ اگرچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ 2021 سے یہ تعلقات اپنی بہترین سطح پر ہیں۔سیستان اور بلوچستان میں ایران مخالف گروہوں کے حملوں میں ایرانی فورسز کو بہت نقصان پہنچا جن میں بڑی تعداد میں ایرانی فوجی جاں بحق یا زخمی ہوئے۔2008 کے دوران سیستان اور بلوچستان کے جنوب میں انہی حملوں میں سے ایک میں ایران کے طاقتور فوجی دستے پاسدارانِ انقلاب کے ایک سینیئر کمانڈر جاں بحق ہوئے جس کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم جند اللہ نے قبول کی۔آئی آر جی سی کی زمینی افواج کے ڈپٹی کمانڈر اور قدس بیس کے کمانڈر نور علی شوشتری اور صوبہ سیستان و بلوچستان کے کمانڈر رجب علی محمد زادہ اس حملے کے متاثرین میں شامل تھے۔ اس خودکش حملے میں ہلاک ہونے والوں میں ایرانشہر کور کے کمانڈر، سپاہی کور کے کمانڈر اور امیر المومنین بریگیڈ کے کمانڈر کو بھی ہلاک کیا گیا ہے۔جون 2007 میں صوبہ سیستان اور بلوچستان میں ایران پاکستان سرحد پر واقع سراوان پولیس سٹیشن میں متعدد ایرانی فوجیوں کو یرغمال بنایا گیا۔ ایرانی حکام نے پاکستان سے تعاون کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس کے مخالف گروہوں کی قیادت کو حوالے کیا جائے جنہوں نے اس کے بقول پاکستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ یرغمال بنائے گئے ایرانی فوجیوں کے بارے میں بعد میں یہ اطلاع سامنے آئی تھی کہ انہیں مار دیا گیا۔ایرانی حکام نے بعض معاملات میں کھل کر کہا کہ اگر پاکستان ایسی کارروائی کی صلاحیت نہیں رکھتا تو ایران خود ان کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔پاکستان نے اپنی سرزمین میں ایرانی حکومت کے مخالفین کے لیے کسی پناہ گاہ کی موجودگی سے انکار کیا ہے اور اسے جھوٹا دعوی قرار دیتا ہے۔مگر ایسے تمام بڑے واقعات کے بعد بھی ایران کی جانب سے منگل کی شب جیسا ردعمل نہیں آیا۔ان تمام معاملات میں دونوں ممالک نے مشترکہ سرحدی کمیٹیوں کے قیام کی بات کی لیکن ان کی تفصیلات یا ان کی سرگرمیوں کے بارے میں کبھی کوئی سرکاری رپورٹ شائع نہیں کی گئی۔ان مسائل کے باوجود ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ ان میں بعض باتوں پر اختلاف رائے موجود ہے۔ مثلا کابل یا اسلام آباد کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات جس کے باعث ایران سے پاکستان گیس کی فراہمی کے لیے امن پائپ لائن تعطل کا شکار رہی۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ حملہ برادرانہ سمجھے جانے والے باہمی تعلقات کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔سیستان و بلوچستان خطے میں تناﺅ کے باوجود بظاہر دونوں ملکوں کی زیادہ تر توجہ اپنی دوسری سرحدوں کی طرف رہی ہے لہذا انھوں نے ایک اور سرحد پر کشیدگی سے گریز کیا اور اِن مسائل کی اہمیت کے باوجود انھیں حل کرنے کی باہمی کوشش کی۔ شاید اسی لیے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دونوں کے درمیان سرحدی کشیدگی اس نہج پر جا پہنچے جو اب دیکھی جا رہی ہے۔ یہ اس لیے بھی بڑی بات تھی کیونکہ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب دونوں ملکوں کے حکام پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان ڈیوس میں ورلڈ اکنامک سمٹ کے دوران ملاقات کر رہے تھے۔ وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان اور ایران خطے میں ایک ہی چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے دہشتگردی کے خطرے کو محدود کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں اور تعاون پر زور دیا۔ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حملے کی واضح وجوہات کو سمجھنا مشکل ہے مگر یہ واضح ہے کہ اس نے سفارتی تناﺅ کو جنم دیا ہے۔منگل کے روز پاکستانی سرزمین پر تہران کے حملے کے بعد پاکستان نے ایران میں مبینہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر جوابی کارروائی کی ۔ایران کے وزیر داخلہ کے مطابق پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے حملے میں خواتین اور بچوں سمیت نو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق جمعرات کی صبح پاکستان نے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے مخصوس ٹھکانوں کے خلاف انتہائی مربوط فوجی حملوں کا آغاز کیا۔ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر مبنی اس آپریشن کے دوران متعدد دہشتگرد مارے گئے ہیں۔ یہ کارروائی ایران کی جانب سے حملے کے چھتےس گھنٹوں کے اندر کی گئی ۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ، آئی ایس پی آر، کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 18 جنوری کو علی الصبح ایران کے اندر کارروائی کرتے ہوئے بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور اس حملے کا ہدف وہ عناصر تھے جو پاکستان کے اندر دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث تھے۔شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق اس کارروائی کو آپریشن مرگ بر سرمچار کا کوڈ نام دیا گیا ہے اور انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی گئی ہے۔اس کارروائی میں خودکش ڈرون، راکٹ، میزائل اور گولہ بارود استعمال کیے گئے جبکہ کولیٹرل ڈیمج سے بچنے کے انتہائی احتیاط برتی گئی۔ایران میں نشانہ بنائے جانے والے ٹھکانے بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی تنظیموں سے منسلک دوستا عرف چیئرمین، بجر عرف سوغات، ساہل عرف شفق، اصغر عرف بشام اور وزیر عرف وزی اور دیگر دہشتگردوں کے زیر استعمال تھے۔پاکستان کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کے خلاف تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کی فوج ہمہ وقت تیار ہے۔ ہم سمجھتے ہےں کہ اےک اےسے وقت میں جب دنےا کی صورتحال انتہائی خراب ہے غزہ پر اسرائےلی بربرےت جاری ہے ہونا تو ےہ چاہےے کہ مسلمان ممالک مل کر اپنے فلسطےنی بھائےوں کی مدد کرےں وہ آپس میں دست و گرےباں ہو کر اپنی طاقت کو تباہ کرنے کے درپے ہےں‘اس لےے ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور اےران حالات کی نزاکت کو سمجھےں اےک دوسرے کی آزادی و خود مختاری کو پامال کرنے کی بجائے باہمی گفت و شنےد سے مسائل کا حل نکالےں کےونکہ ےہ خطہ کسی جنگ کا متحمل نہےں ہو سکتا۔