آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ مقامی صنعتوں کے فروغ اور خود انحصاری سے قومی ترقی کا راستہ متعین ہوتا ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق آرمی چیف سید عاصم منیر نے پی او ایف واہ کا دورہ کیا، آرمی چیف کو پی او ایف کی پیداواری صلاحیتوں پر بریفنگ دی گئی، آرمی چیف کو افواج پاکستان کی دفاعی ضروریات پوری کرنے میں ادارے کے تعاون پر بریفنگ دی گئی، پی او ایف سے ہونے والی دفاعی مصنوعات کی برآمدات سے بھی آگاہ کیا گیا۔آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے پی او ایف مصنوعات کے تجربے کی رینج کا بھی دورہ کیا، آرمی چیف نے مختلف ہتھیاروں کے ٹیسٹ ٹرائلز کا مشاہدہ کیا، آرمی چیف نے پی او ایف کے افسروں اور اہلکاروں سے خطاب بھی کیا، آرمی چیف نے بنیادی دفاعی صنعت کے طور پر پی اوایف کے کردار کو سراہا۔آرمی چیف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقامی صنعتوں کے فروغ اور خود انحصاری سے قومی ترقی کا راستہ متعین ہوتا ہے، خود انحصاری اور جدید ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے اقدامات کرتے رہیں گے۔آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان کے دفاع کو مضبوط اور یقینی بنائیں گے۔آرمی چیف کا یہ کہنا درست ہے کسی بھی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے مقامی صنعتوں اور چھوٹے کاروبار کا فروغ ضروری ہوتا ہے، اِس اہم معاشی نکتے پر عمل پیرا ہوکر کوئی بھی ملک اقتصادی میدان میں ترقی کر سکتا ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے فروغ سے معیشت مستحکم اور روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں ۔معاشی خود انحصاری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو قوم اقتصادی لحاظ سے خود کفیل ہے وہ دنیا میں کسی سے کوئی سودا اور لین دین نہیں کرتی۔ آج جو ممالک اقتصادی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں، ان کے پاس طاقت ہے اور بدقسمتی سے عالمی سامراج کا حصہ ہیں اور سامراجی پالسیوں پر عمل پیرا ہیں، جب وہ کسی ملک سے کوئی سودا اور لین دین انجام دینا چاہتے ہیں، تعاون کرتے ہیں تو اس ملک پر کچھ چیزیں مسلط کر دیتے ہیں۔ ملک کی آزاد معیشت سے مراد یہ ہے کہ ملک کو جس چیز کی ضرورت ہے اسے ملک کے اندر ہی تیار کیا جا سکتا ہو۔ ملک کے کارخانے سب کچھ تیار کریں اور ملک کا محنت کش طبقہ اسے اپنا انسانی و دینی فریضہ تصور کرے۔ محنت کش صرف وہ نہیں ہے جو کسی کارخانے میں کام کرتا ہے۔ جو بھی ملک میں کوئی مفید و با مقصد کام انجام دے رہا ہے وہ محنت کش ہے۔ اقتصادی خود انحصاری، سیاسی خود مختاری سے بالاتر ہے۔ ملک کے حکام، پارلیمنٹ کے اراکین اور معاشی شعبے سے جڑے افراد اس بات پر توجہ دیں کہ پیسے، اقتصادی سرگرمیوں اور اقتصادی امور میں دوسروں پر اپنا انحصار ختم کریں۔ملک کے لئے معاشی خود کفائی انتہائی حیاتی ضرورت کا درجہ رکھتی ہے۔ جب کسی ملک کی معیشت اغیار سے وابستہ ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس پیکر کی رگ حیات اور اس کی سانس دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔جب چین میں انقلاب آیا تو دس سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے تک سویت یونین نے جو اس کا بڑا بھائی کہا جاتا تھا اور جو اشتراکی انقلاب میں سب سے آگے تھا، چین کی اقتصادی اور فنی مدد کی اور اس نے اس ملک کے لئے اپنے ماہرین بھیجے۔ دیگر کمیونسٹ ممالک کی بھی یہی صورت حال تھی۔جو ممالک آزاد ہوتے ہیں ان کا سب سے پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ اپنے سیاسی نظام کو خود مختاری دلاتے ہیں۔ یعنی بیرونی طاقتوں کے نفوذ سے آزاد ہوکر حکومت تشکیل دیتے ہیں۔ اس پر بھی وہ اکتفا نہیں کرتے بلکہ معاشی خود انحصاری کی جانب قدم بڑھاتے ہیں۔ معاشی خود انحصاری، سیاسی حود مختاری سے زیادہ مشکل ہے اور اس کے لئے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ بڑی طاقتوں کے اقتصادی تسلط اور نفوذ کو آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی ملک اقتصادی خود کفائی کی منزل پر پہنچنا چاہتا ہے تو اسے ماہر افرادی قوت، آمدنی کے اچھے ذرائع، بے پناہ وسائل، سائنس، مہارت، عالمی سائنسی و فنی تعاون اور دیگر بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔انقلابی ممالک اور وہ مملکتیں جنہوں نے نئی نئی خود مختاری حاصل کی ہے اقتصادی خود کفالت کے ان وسائل اور ذرائع کے حصول میں مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں۔ہمیں چاہئے کہ اپنی ضرورت اور تشخیص کے مطابق اس صنعت، مصنوعات اور سامان کو ملک کے اندر موجود ذخائر اور وسائل کے سہارے تیار کر لیں۔ اپنی خلاقی صلاحیتوں، محنت و مشقت سے، اس پر حکم فرما انتظامی سسٹم اور آزادی و خود مختاری کی راہ میں قائم ہونے والے عوامی اتحاد سے، ساتھ ہی ساتھ دشمن کے تشہیراتی حربوں کی بابت پوری ہوشیاری و دانشمندی کے ذریعے مکمل اقتصادی خود انحصاری و آزادی کی سمت پیش قدمی کریں۔ہر ملک کی افرادی قوت ہی اس کا سب کچھ ہوتی ہے۔ اگر افرادی قوت نہ ہو تو سب کچھ ہیچ ہے۔ اکثر ممالک نے اقتصادی، صنعتی، تکنیکی اور دیگر شعبوں میں کامیابیاں حاصل کیں ان ملکوں نے اوائل میں اپنے تمام منصوبے افرادی قوت کی تربیت کو محور قرار دیکر ترتیب دئے۔ عالم یہ ہے کہ آج بھی ان میں سے بعض ممالک ماہر افرادی قوت برآمد کر رہے ہیں۔ یعنی نہ صرف یہ کہ یہ ممالک بے پناہ افرادی قوت کی وجہ سے خود کفالت کی منزل پر پہنچ گئے بلکہ ان ممالک میں اتنے زیادہ ماہرین کے لئے جگہوں کی کمی ہے اور ان کی معیشت ایسی نہیں ہے کہ یہ تمام ماہرین اس میں کھپ سکیں۔ نتیجتا وہ دوسرے ملکوں کو برآمد کر رہے ہیں۔ اسی افرادی قوت نے انہیں اعلی سطح پر پہنچا دیا ہے جبکہ ان کے پاس تیل جیسے ذخائر بھی نہیں ہیں۔اگر صحیح انداز سے فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے تو اس سے ملکی معیشت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اگر تعلیمی شعبے کے لئے بجٹ اور وسائل کو استعمال کیا جا رہا ہو تو اس سے ملک کو ہرگز نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ اس سے آگے چل کر ملک کے لئے نئے وسائل پیدا ہوں گے۔ملک کی اقتصادی سرگرمیوں اور کام کے شعبے میں خلاقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہئے۔ وہ کارخانے جو حکومت کے پاس ہیں یا وہ کارخانے جو نجی سیکٹر سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی آمدنی کا تھوڑا سا حصہ تحقیق اور اپنی مصنوعات کا معیار بلند کرنے اور کاموں کی پیشرفت کے لئے استعمال کریں۔ ترقی پذیر ممالک اس انتظار میں کیوں بیٹھیں کہ یورپ یا دنیا کے کسی اور گوشے میں کوئی آگے بڑھ کر تحقیق کرے تب یہ اس سے سیکھیں؟خود بڑھ کر تحقیق کرنا چاہئے، نئی ایجاد کرنا چاہئے، پیداوار کو آگے بڑھانا چاہئے، صنعت کو آگے لے جانا چاہئے، پیداوار کو مقدار اور معیار کے لحاظ سے آگے لے جانا چاہئے۔ملک کے علمی شعبے، معیشت کی مدد کے لئے آگے آئیں۔ یونیورسٹیوں کے مفکرین آئیں اور حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔ حکومت ان مفکرین اور ماہرین کا سہارا لے جو یونیورسٹیوں میں علمی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ یہ خیال نہ پیدا ہو کہ اگر کسی یورپی مفکر نے کوئی تحقیق انجام دی ہے اور کوئی بات کہی ہے تو وہ پتھر کی لیکر بن گئی ہے۔ آج کوئی بات انہوں نے کہی، بیس سال بعد، دس سال بعد، پانچ سال بعد کوئی دوسرا محقق آکر اس بات کو غلط ثابت کر دیتا ہے اور نیا نتیجہ پیش کرتا ہے۔ ملک کے ماہرین اقتصادیات کو چاہئے کہ اپنی سرزمین کے حالات، وہاں کے عقائد اور اس مملکت کی خصوصیات نیز اقتصادی مسائل کے مطابق حل تلاش کریں۔سامراجی تسلط کی قربانی بننے والے ملکوں کے پاس کبھی بھی اطمینان بخش معیشت نہیں رہی ہے۔ کبھی کبھار ان کے ہاں ظاہری معاشی رونق نظر آتی تھی جیسا کہ آج بھی تسلط کا شکار بننے والے ملکوں میں ظاہری رونق نظر آتی ہے لیکن اقتصادی ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ یعنی اگر ان کا ایک دروازہ بند کر دیا جائے یا ان کا اقتصادی محاصرہ کر لیا جائے تو سب کچھ شکست و ریخت کا شکار ہو جائے گا، نابود ہو جائے گا۔اگر ہم سیاسی خود مختاری اور ثقافتی تشخص کو دنیا کی سامراجی طاقتوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو اسے اپنی معیشت کی بنیادیں مضبوط کرنا ہوں گی۔ یہ ملک میں خود مختاری کی جڑوں کے مستحکم ہونے کے معنی میں ہے، اس کا دار و مدار پیداروار، کام، روزگار کی صورت حال میں بہتری، مختلف شعبوں میں نئی دریافتوں پر ہے۔ تحقیقاتی مراکز اور تجربہ گاہوں سے لیکر کارخانوں اور زراعت تک ہر جگہ نئی ایجادات ہونا چاہئیں۔ہم جانتے ہیں کہ مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ معاشی خلیج بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ امیر ہمیشہ امیر سے امیر تر اور غریب ہمیشہ غریب ہی کیوں ہوتا نظر آتا ہے؟ جہاں بہت سے معاشی اور اقتصادی عوامل جیسے کہ حکومت کی بدعنوانی، بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر، تیل کی قیمت اور آئی ایم ایف کے قرضے اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں وہیں ہمیں اپنے بل بوتے پر بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔دراصل خودانحصاری ایک عادت ہے جس کے تحت اپنی صلاحیت اور قوت پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ایسی قوموں کا عکس ان کے حکمرانوں میں نظر آتا ہے۔ خودانحصاری کا جذبہ نہ ہو تو قوموں کو بکھرنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی اور جو قومیں قرضے و امداد حاصل کرنے کے منصوبے بناتی رہیں وہ کبھی ترقی کرسکتی ہیں نہ ہی دنیا میں ان کو اہمیت دی جاتی ہے۔ وقار و عظمت اور خودانحصاری لازم و ملزوم ہیں۔ بین الاقوامی برادری میں کسی بھی ملک و قوم کا وقار اسی صورت قائم رہ سکتا ہے جب وہ اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے بیرونی خطرات سے نبٹنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
