وزیر تعلیم غلام شہزاد آغا نے اپنے اعزاز میں عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے میں اپنے نوجوانوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ جواچھے برے وقتوں میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند میرے ساتھ رہے اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ باقی سیاست دانوں کی نسبت مجھے نوجوانوں کی جانب سے بلا مشروط حمایت حاصل رہی جس کے لیے میرے پاس ایسے الفاظ نہیں کہ میں شکریہ ادا کروں ۔ میں بحیثیت وزیر تعلیم معیاری تعلیم کے لیے ہر وہ کام کرنے کو تیار ہوں جو ہمارے نظام تعلیم کو بہتری کی طرف لے جا سکے۔ گلگت بلتستان کے عوام سے وعدہ ہے کہ میرٹ کی بالادستی کے لیے کسی قسم کے دباﺅ یا سفارش کو خاطر میں نہیں لاﺅںگا کیونکہ ہر معاشرے کی تشکیل میںشعور اور آگاہی بنیادی ضرورت ہے اور اس کے لئے معیار تعلیم کو بہتر بنانے اور تمام بچوں کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے بہترین اصلاحات کی ہیں تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے مثبت پالیسیوں کا تسلسل لازمی ہے۔عوام کو دہلیز پر تعلیمی سہولیات پہنچانا ہمارا مشن ہے۔ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت ہنر مند گلگت بلتستان کےلئے کوشاں ہے۔ ہم جانتے ہں کہ نوجوان ملک و ملت کا مستقبل ہوتے ہیں اور کسی بھی قوم میں نوجوانوں کو قوم کا قیمتی سرمایہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ دماغی و جسمانی لحاظ سے باقی عمر کے طبقوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ہمت ،جذبہ، ذہانت، قوت ودیگر صلاحیتیں ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں۔ یہ کٹھن حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی ترقی کی ضمانت نوجوانوں میں مضمر ہے۔ لیکن ان کی ایک بڑی تعداد نوکری اور روزگار سے محروم ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی تمام تر سوچوں کا محور و مرکز معاش کا حصول ہے۔ پورے معاشرے پر روز گار کے مناسب ذرائع مہیا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تا کہ نوجوان نسل کو خود اپنے اور معاشرے کیلئے مفید فرد بنایا جا سکے۔فنی تعلیم کے شعبے کے فروغ اور آگہی کیلئے ایک طویل المدت اور جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ محض ایک بورڈ تشکیل دینے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ جدید دور کے تقاضوں اورمارکیٹ کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے تیزی سے ہنرمند افرادی قوت تیار کرنے کیلئے ٹھوس و جامع اقدامات کرے۔ اس ضمن میں مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ٹیم تشکیل دی جائے جو نجی و سرکاری اداروں کے تعاون سے فنی تعلیم و تربیت کے فروغ کیلئے عملی قدم اٹھائے۔ ہرتربیت کا معیار بلند کرنے اور اسے بین الاقوامی سطح تک لانے کے لیے عالمی سطح کے سیلبس سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔ تربیت کے پرانے اور دقیانوسی طریقے سے ہٹ کر قابلیت پر مبنی تربیت متعارف کروائی جائے۔پیشہ وارانہ تعلیم و تربیت اسی صورت میں ایک مسابقتی افرادی قوت تشکیل دے سکتی ہے جب وہ صنعتی افرادی قوت کی ڈیمانڈ اور ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی محرکات پر بخوبی نظر رکھے۔ قومی سند اس وقت اپنی افادیت کھو دیتی ہے جب اس کا حامل گریجویٹ مطلوبہ ہنرمندی کا معیار نہیں رکھتا۔ پاکستان میں بھی انہیں جدید علوم، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مختلف فنون و شعبہ جات میں تربیت دے کر تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ نوجوان اس ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں وہ بھی ہاتھ سے کام کرنے کو عیب نہ سمجھیں۔ اور ہاتھ سے کام کرنا اللہ تعالی کو اور نبی کریمﷺ کو بہت پسند ہے۔ ملک کی ترقی بہترین فنی تعلیم و تربیت میں پوشیدہ ہے۔ٹیکنیکل ایجوکیشن کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں فنی تعلیم پر توجہ عمومی تعلیم سے کہیں کم ہے، جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں فنی تعلیم کی شرح صرف چارسے چھ فیصد جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح چھےاسٹھ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ہم شاید نہیں جانتے کہ جن ممالک نے فنی تعلیم کو اپنی عمومی تعلیم کا حصہ بناکر اس پر توجہ دی وہاں معاشی ترقی کی رفتار زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں بھی ارباب اقتدار و اختیار اس امر کا اعتراف تو کرتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل فنی تعلیم سے جڑا ہے اور نوجوان نسل کو فنی علوم سے آراستہ کرکے نہ صرف بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر بھی گامزن کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے فروغ کیلئے قابل ذکر پیش رفت نہیں کرپائے۔ دنیا میں انہی قوموں نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں جنہوں نے اپنی نوجوان نسل کو عہدِ حاضر کی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے جدید علوم سے آراستہ کیا ۔پاکستان کی بڑی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ انہیں جدید علوم، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مختلف فنون و شعبہ جات میں تربیت دے کر تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔یہ حقیقت محتاج بیاں نہیں ہے کہ تعلیم انسان کو شعور اور معاشرتی ادب سکھا کر معاشرے میں رہنے کے قابل بناتی ہے جسے حاصل کرنے سے انسان ایک قابل قدر شہری بن جاتا ہے جبکہ فنی تربیت انسان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اسے باعزت روزگار کمانے کے قابل بناتی ہے تاکہ وہ معاشی طور پر خوشحال زندگی بسر کرسکے۔اس شعبہ پر توجہ دینے سے نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں بلکہ اس کے فروغ سے ہم بیش قیمت زرِمبادلہ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ہماری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس میں ترےسٹھ فیصد تعداد نوجوانوں کی ہے جو کسی بھی ملک کے لئے خو ش آئند امر ہے لیکن تعلیم اور ہنر مندی سے محروم یہ نوجوان ملکی معیشت کا سہارا بننے کے بجائے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے بوجھ ثابت ہورہے ہیں۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلبا بھی ڈگری ہونے کے باوجود عملی تربیت اور ہنر نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اگر ان کے نصاب میں کوئی ایک بھی فنی کورس شامل ہوتا تو انہیں مایوسی کا سامنا ہرگز نہ کرنا پڑتا۔ روزگار کے اعداد وشمار سے متعلق ادارے کے مطابق تیس پیشے کامیاب تصور کیے جاتے ہیں جن میں سے نصف کے لیے یونیورسٹی ڈگری کی بجائے عملی تربیت ضروری تصور کی جاتی ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے جن ممالک نے فنی تعلیم کو اپنی بنیادی تعلیم کا حصہ بنایا وہاں معاشی ترقی کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ملک میں سرکاری سطح پر کام کرنے والے کچھ تربیتی مراکز ایسے ہیں، جو چاروں صوبوں میں قائم ہیں۔ لیکن یہ مراکز اتنی استعداد نہیں رکھتے کہ کئی ملین نوجوانوں کی پیشہ وارانہ تربیت کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ اس کے علاوہ شہری آبادی میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور شہری نوجوانوں کو بھی پیشہ وارانہ تربیت کی بہت ضرورت ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پورے ملک میں پیشہ وارانہ تربیت کے مراکز کا ایک پورا جال بچھا دیں۔ یوں شہری اور دیہی علاقوں میں خواندہ، نیم خواندہ حتی کہ ناخواندہ نوجوانوں کو بھی پیشہ وارانہ تربیت دے کر ان کے سماجی اور اقتصادی رویوں پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے ۔پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی وجہ سے نوجوانوں کے لیے بہت زیادہ جاب چانسز نکل سکتے تھے لیکن حکومت نے انٹرنیشنل کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کر لیے کہ وہ اپنی لیبر ساتھ لا سکتی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر افرادی قوت بھی باہر سے آئے گی، تو پھر ہمارے اپنے بے روزگار نوجوان کہاں جائیں گے؟ حکومت کو اس معاملے کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے کیونکہ بیروزگاری ہمارے ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ نوجوان، جن میں ذہانت ہے، قوت ہے، صلاحیتیں ہیں مگروہ نوکری اور روزگارسے محروم ہیں۔انسان کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی آنا چاہئے تاکہ کسی بھی مشکل وقت میں وہ رزق کما سکے۔ موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اس دور کی سب سے بڑی ضرورت فنی مہارت اور صنعتی پیشہ وارانہ تعلیم ہے ۔ ہروہ ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے جس نے فنی مہارت حاصل کی ہے۔ کسی ملک میں فنی ماہرین کی تعداد جس قدر زیادہ ہو وہ اتنی ہی تیزی سے ترقی کرتا ہے۔ پاکستان میں فنی تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ دوسرے ممالک کی نسبت یہاں فنی تعلیم کی طرف کم توجہ دی جاتی ہے۔ٹیکنیکل سکل یعنی ہنر ہی وہ کنجی ہے جو کسی بھی فرد کے لیے امکانات کے لاتعداد دروازے کھول دیتی ہے۔فطری طریقے پر اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کی پرورش کے لئے ضروری ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے اندر پرورش اور ترقی کی ضرورت کو محسوس کرے ۔ یورپی ممالک نے برسوں پہلے یہ حل ڈھونڈ لیا تھا اس لیے وہ معاشی تر قی کی دوڑ میں آگے نکل گئے۔ ہم نے اسے نظر انداز کئے رکھا اس لیے بہت پیچھے رہ گئے۔کئی دہائیوں تک یہ اہم ترین شعبہ حکومتوں اور حکمرانوں کی نظروں سے اوجھل رہا اور غلط ترجیحات کے باعث ملک بیروزگاری اور غربت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ملکی معیشت اتنی توانا نہیں اور نہ ہی اس میں اتنی وسعت ہے کہ کروڑوں بے روزگار نوجوانوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لے اور سب کو روزگار فراہم کر دے۔ بیروز گاری کے مسئلے پر کتنے ہی اجلاس اور سیمینار منعقد کر لئے جائیں اور کتنی ہی تقریریں کر لی جائیں کوئی دوسرا طریقہ نہیں ڈھونڈا جاسکتا۔اس پر قابو پانے کا ایک ہی حل ہے کہ نوجوانوں کو فنی تعلیم و تربیت فراہم کرکے انہیں ہنر مند بنادیا جائے۔فنی تعلیم یافتہ ہنرمند ایک تو کبھی بے روزگار نہیں رہ سکتا اوردوسرا یہ کہ ہنر مندی کی تعلیم سفارت کاری کی دنیا میں ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔اس لےے ہنر مند گلگت بلتستان کی سوچ ےقےنا خوش آئند ہے جس سے بے روز گاری کے تدارک میں مدد مل سکتی ہے۔
