سیاحت کی معیشت

وزیراعلی گلگت بلتستان گلبر خان نے کہا ہے گلگت بلتستان کا قدرتی حسن بے مثال ہے،گلگت بلتستان کو سیاحت کا حب بنایا جائے گا اور سیاحوں کو ہرممکن سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے،وزیراعلی گلبر خان کی گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری سے ملاقات میں ملک میں سیاحت کے فروغ، سندھ اور گلگت بلتستان کے مابین تعاون میں اضافہ، مختلف شعبوں میں وفود کے تبادلوں اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ گورنر سندھ نے کہا کہ گلگت بلتستان کی جنت نظیر وادیاں سیاحوں کے لئے بے پناہ کشش رکھتی ہیں، گلگت بلتستان کے عوام کی عاجزی ، مہمان نوازی بے مثال ہے۔گلبر خان نے کہا کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں،سیاحت کے فروغ سے علاقے کی معیشت کو بھی استحکام حاصل ہوگا انہوں نے گورنر سندھ کو آگاہ کیاکہ حکومت کی کوشش ہے کہ علاقے میںآنے والے سیاحوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ سیاح خوشگوار یادیں لیکر واپس جائیں۔وزیراعلی نے گورنر سندھ سے کہا کہ سندھ کے تعلیمی اداروں میں گلگت بلتستان کے طلباکے کوٹے میں اضافہ کیا جائے اور دیگرانفراسٹرکچر کے شعبے میں بھی سندھ حکومت تعاون کرے،گورنر سندھ نے وزیراعلی کو یقین دلایا کہ جی بی کے طلباکیلئے کوٹہ بڑھانے میں وہ اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے جبکہ دیگرشعبوں میں بھی جی بی حکومت سے تعاون میںاضافہ کیاجائے گا۔ہم جانتے ہں کہ سیاحت کے شعبے کو اگر فروغ دیا جائے تو یہ ملک کی معیشت کو بہت زیادہ نفع پہنچاتا ہے اور ملکی معیشت کو مضبوط کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کی معیشتیں فقط سیاحت پر چل رہی ہیں اور وہ اچھے خاصے خوشحال ہیں۔پاکستان کو قدرت نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ خاص طور پر سیاحتی شعبے میں ترقی کےلئے پاکستان کے پاس بہت سے مواقع اور وسائل موجود ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں تمام تر قدرتی مناظر، جو دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ہیں، وہ سب تنہا پاکستان کے پاس ہیں۔ یعنی پاکستان میں خوبصورت اور دنیا کے بلند ترین پہاڑ، لہلہاتے کھیتوں پر محیط وسیع و عریض رقبہ اور سرسبز باغات، دلکش ساحل سمندر، صحرا، جنگل، غرض پاکستان کے پاس تمام تر وہ وسائل موجود ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک کو بہت کم میسر ہیں۔ اسی طرح تاریخی وسائل پر بات کی جائے تو پاکستان کے تقریبا تمام شہروں میں چھوٹے بڑے تاریخی مقامات موجود ہیں۔ ہر شہر میں کوئی باغ، تاریخی عمارت، تاریخی مسجد ، قدیم قلعے وغیرہ موجود ہیں۔خوش قسمتی سے پاکستان میں دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے آثار بھی موجود ہیں، جو دنیا کے چند ایک ممالک کو میسر ہیں۔ یہاں گندھارا، موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی قدیم ترین تہذیبوں کے آثار موجود ہیں، جو ہزاروں سال قدیم انسان کے رہن سہن کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک سے سیاح انہیں دیکھنے کےلئے ذوق و شوق سے آتے ہیں۔ اسی طرح دنیا کے آثار قدیمہ کے محققین بھی ان تہذیبوں میں نہایت دلچسپی رکھتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو پاکستان میں موجود ہے اور اس کے علاوہ بھی بلند ترین چوٹیاں پاکستان کو اللہ تعالی نے عطا کر رکھی ہیں۔اگر سیاحتی شعبے کی طرف حکومت توجہ دیتی تو شاید پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سیاحتی ملک ہوتا۔ پاکستان کے تمام شہروں میں کسی نہ کسی درجے میں سیاحتی مقامات موجود ہیں۔ کہیں خوبصورت پارک، کہیں خوبصورت مساجد، کہیں قدیم ترین عمارتیں اور قلعے ہیں۔ ان تمام عمارتوں کی تزئین و آرائش کرکے انہیں سیاحت کے قابل بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کے اردگرد گنجائش کے مطابق چھوٹے بڑے پارک بناکر سیاحوں کےلئے مزید پرکشش بنایا جاسکتا ہے۔ تمام اضلاع کی حکومتوں کی یہ ذمے داری لگانی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے ضلع میں موجود اس قسم کے سیاحتی و تاریخی مقامات کی فہرستیں تیار کریں اور پلاننگ کریں کہ انہیں کس طرح مزید دلچسپی کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ شمالی علاقہ جات اور ساحلی علاقوں میں بالخصوص سیاحوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں۔ ان کےلئے بہترین اور سستی ٹرانسپورٹ کا انتظام ہو۔ وہاں رہائش اور کھانے پینے کےلئے بین الاقوامی معیار کے ہوٹل ہوں، تمام سیاحتی مقامات تک پختہ اور خوبصورت سڑکیں اور جہاں سڑکیں نہیں بنائی جاسکتیں وہاں پیدل چلنے کےلیے خوبصورت اور معیاری راستے بنائے جائیں۔ غیر ملکی سیاحوں کےلیے سیکیورٹی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ یہ وہ تمام تر سہولیات ہیں جن پر نہایت کم لاگت آتی ہے لیکن یہ ملک میں سیاحت کے فروغ میں بہترین کردار ادا کرتی ہیں۔ ان سہولیات کی وجہ سے وہ تمام تر وسائل جو پہلے سے کسی ملک میں موجود ہوتے ہیں، وہ دنیا کے سامنے آشکار ہونے لگتے ہیں، یوں سیاح جوق در جوق چلے آتے ہیں اور ملک کی معیشت بہتر ہونے لگتی ہے۔ عوام کو روزگار کے بے شمار مواقع میسر آتے ہیں اور ان کا معیار زندگی بلند ہوجاتا ہے۔حکومت کو سیاحت کے شعبے کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے اور اس شعبے کی ترقی کےلئے تمام تر ریاستی وسائل و ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے جلد از جلد اس پر کام شروع کردینا چاہیے۔ یہ کام تو کئی دہائیاں پہلے ہونا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے اب تک اس شعبے کی طرف خاص توجہ نہیں دی، جس کی وجہ سے ہم قدرت کی عطا کردہ نعمتوں سے کماحقہ فائدہ اٹھانے سے محروم رہے۔ بہرحال اب بھی اگر اس کی طرف توجہ دی جائے تو یہ بھی ہمارے لیے بڑی خوش قسمتی ہو گی۔ پاکستان میں مذہبی مقامات کی بھی کوئی کمی نہیں۔ بدھ مت اور سکھ مت کے ماننے والوں کیلئے پاکستان بہت اہمیت رکھتا ہے اور ہر سال ہزاروں بدھ مت اور سکھ مت یاتری اپنی مذہبی عبادات کیلئے پاکستان آنے کی خواہش رکھتے ہیں جس سے فائدہ اٹھاکر سیاحت کی مد میں اربوں ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں ٹورازم میں بھارت کا شیئر ستر فیصد جبکہ پاکستان کا شیئر صرف 0.2 فیصد ہے حالانکہ پاکستان میں دنیا کی چھے بڑی چوٹیاں موجود ہیں لیکن ہم انہیں پروموٹ کرنے میں ناکام رہے جبکہ نیپال صرف ماﺅنٹ ایورسٹ کی وجہ سے اربوں ڈالر کمارہا ہے۔ اسی طرح بھارت میں سالانہ پانچ کروڑ سیاح صرف تاج محل دیکھنے آتے ہیں جس سے بھارت کو گزشتہ سال 28 ارب ڈالر سے زائد کی آمدنی ہوئی۔سیاحت کے لحاظ سے اگر دنیا کے دس بہترین ممالک کا موازنہ پاکستان سے کیا جائے تو ان ممالک کی سیاحت سے حاصل کی گئی کل آمدنی اور پاکستان کی سیاحتی آمدنی کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ ہمارا ملک سیاحتی مقامات اور موسموں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا مگر ہم سے سیاحت کے ہر پیرائے میں پیچھے ممالک اپنے اس سیکٹر کی ترقی سے بہت آمدن حاصل کررہے ہیں۔پاکستان سیاحتی صنعت کی ترقی سے ایک دہائی میں چالےس ارب ڈالر کما سکتا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ سیاح برطانیہ سے آتے ہیں، دوسرے نمبر پر امریکہ سے، تیسرے نمبر پر چین، پھر تھائی لینڈ اور جاپان سے آتے ہیں۔ہمارے ہاں سیاحت کو مختلف اقسام میں ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ یوں سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ کس ضمن میں کیا تبدیلیاں ضروری ہیں۔پہلی قسم تو ان کی ہے کہ جو لوگ باہر رہتے ہیں مگر پاکستان ہی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اپنے خاندان سے ملنے ملک واپس آتے ہیں۔ ان میں سے عموما گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیوں میں پاکستان آتے ہیں اور اپنی فیملی کے ہمراہ شمالی علاقہ جات سمیت ملک کے مختلف حصوں کا رخ کرتے ہیں۔دوسری قسم مذہبی سیاحت کی ہے۔ پاکستان میں ہندوں کے تاریخی مندر، سکھوں کے مذہبی مقامات، ٹیکسلا اور گندھارا میں بدھ مت کی تاریخی جگہیں، آثارِ قدیمہ ہیں اور علاوہ اِس کے صوفی ازم سے شغف رکھنے والوں کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔تیسری قسم میں غیر ملکی افراد شامل ہیں جو خوبصورت مناظر، تاریخی مقامات اور ثقافتی ورثے کو دیکھنے کے لیے پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ یہ عموما شنگریلا، وادی ہنزہ، سوات، کاغان، ناران اور گلیات کا رخ کرتے ہیں۔ لہذا ہمےں سیاحتی مقامات پر خصوصا توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی آنے والے کو کسی قسم کی کوئی شکایت نہ ہو نا ہی کسی ضمن میں دشواری اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔تمام مقامات کی صفائی، ستھرائی، بحالی اور درستگی پر دھیان دینا چاہیے۔ بعد از بحالی ان کی سوشل میڈیا پر تشہیر کی جانی چاہیے اور انٹرنیشنل ٹریول کمپنیز سے رابطے کر کے ان سے مشہور سیاحوں کی توجہ حاصل کرنی چاہیے۔سیاحت پر ملکی تعلیم میں خصوصا توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تمام تاریخی مقامات، قدرتی خوبصورتی کی جگہوں پر اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے بچوں کو بھیجنا چاہیے تاکہ بچوں کو اپنی تعلیمی زندگی کے دوران ہی ملک کی خوبصورتی، تاریخ، ورثے اور ثقافت کے بارے میں معلوم ہو۔یوں وہ دنیا بھر میں پاکستان کے مثبت امیج کی بہتر انداز میں تشہیر کر سکیں گے اور دنیا کی توجہ اپنی جانب مائل بھی کر سکیں گے۔حکومت کو ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے ضمن میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے لیے ٹرینوں، خصوصی پروازوں اور لگژری بسوں کا انتظام کرنا چاہیے۔اس کے ساتھ ہی تمام تاریخی جگہےں جن وجوہات کے باعث مشہور ہےں، ان وجوہات کی ڈیویلپمنٹ پر توجہ دی جائے ۔