کیا کرونا وائرس پھر پھیل رہا ہے؟

آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کی لیبارٹری نے کہا کہ کراچی کے کل پندرہ نمونوں میں سے چھ میں کووڈ انےس کے ویریئنٹ جے این ون کی تشخیص ہوئی ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے جے این ون کو کووڈ کے ویریئنٹ اومیکرون کی ہی ایک قسم قررا دیا گیا ہے اور یہ اس وقت امریکا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جے این ون ویریئنٹ کی منتقلی کی شرح بہت زیادہ ہے عام زکام اس کی بنیادی علامات ہیں۔ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دو مسافروں میں کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد پانچ دنوں کے اندر انفیکشن کے حامل مسافروں کی کل تعداد چھ ہو گئی ہے کیونکہ بدھ کو بھی چھ مسافروں میں سے دو میں کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی۔ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں متعدی امراض کی تحقیقی لیبارٹری کے تفتیشی امور کے سربراہ ڈاکٹر عمران نثار نے کہا کہ ملک واپس آنے والے افراد کا ہوائی اڈوں پر ٹیسٹ کیا گیا اور ان میں سے کچھ کا کووِڈ انےس کا ٹیسٹ مثبت آیا۔ان کے نمونے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ، ڈا یونیورسٹی کی لیبارٹریز اور اے کے یو ایچ کی کلینیکل لیبز کو بھیجے گئے تھے۔ آغاز خان یونیورسٹی ہسپتال میں متعدی امراض کی لیبارٹری میں تقریبا پندرہ نمونوں کے ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے چھ نئے نمونوں کے نتائج مثبت آئے۔ نیا ویرینٹ پچھلی قسم کے مقابلے میں زیادہ شدت کا حامل نہیں لیکن اس حوالے سے تحفظات ہیں کہ یہ انسانی مدافعتی نظام کو کس حد تک متاثر کرے گا کیونکہ کا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جو ویکسین پہلے لگائی گئی تھیں وہ نئے ویرینٹ کے خلاف اتنی موثر نہیں ہوں گی۔ اس نئے ویرینٹ میں دوسروں کے مقابلے میں منتقلی کی شرح تھوڑی زیادہ ہے۔دنیا بھر میں کورونا وائرس کا نیا ویریئنٹ جے این ون بہت تیزی سے پھیل رہا ہے جبکہ پاکستان میں بھی اس حوالے سے کافی احتیاطی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔امریکا سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں کووڈ کی یہ نئی قسم سب سے زیادہ کیسز کا باعث بن رہی ہے۔اومیکرون ویریئنٹس کی یہ ذیلی قسم زیادہ تر کیسز میں سنگین حد تک بیمار کرنے کا باعث نہیں بنتی مگر پھر بھی اس سے اسپتال پہنچنے یا موت کا خطرہ موجود ہے۔طبی ماہرین کے مطابق زیادہ تر افراد میں ویکسینیشن یا کووڈ سے متاثر ہونے کے باعث وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہوچکی ہے۔دنیا بھر میں کووڈ کے نئے کیسز کی تعداد میں باون فیصد اضافہ ہوا ہے۔کووڈ کی اس نئی قسم کی علامات اومیکرون کی دیگر اقسام سے ملتی جلتی ہیں۔گلے میں خراش، ناک بند ہونا، ناک بہنا، کھانسی، تھکاوٹ، سردرد، مسلز میں تکلیف، بخار یا ٹھنڈ لگنا، سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محروم ہونا، سانس لینے میں مشکلات، قے یا متلی، غنودگی طاری رہنے کا احساس اور ہیضہ اس نئی قسم کی عام علامات ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق عموما مریضوں میں بالائی نظام تنفس کی علامات جیسے گلے میں خراش، ناک بند ہونا یا کھانسی زیادہ عام ہوتی ہیں۔اس کے مقابلے میں سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی یا ہیضہ جیسی علامات کا سامنا بہت کم افراد کو ہوتا ہے۔ دسمبر 2023 میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ بےس نومبر سے سترہ دسمبر کے دوران دنیا بھر میں آٹھ لاکھ پچاس ہزار کیسز سامنے آئے، جو گزشتہ اٹھائےس دنوں کے مقابلے میں باون فیصد زیادہ تھے۔اس عرصے میں نئے کیسز کی تعداد میں تو اضافہ ہوا مگر اموات کی تعداد آٹھ فیصد کمی سے تےن ہزار رہی۔عالمی ادارے نے اٹھارہ دسمبر کو اومیکرون کی ذیلی قسم جے این ون کو ویریئنٹ آف انٹرسٹ قرار دیا تھا جو حالیہ ہفتوں کے دوران دنیا بھر میں بہت تیزی سے پھیلی ہے۔اب تک کے شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کی یہ نئی قسم بہت زیادہ متعدی ہے اور متعدد ممالک میں بہت زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے، مگر دیگر اقسام سے زیادہ خطرناک نہیں۔اس وقت دستیاب ویکسینز سے جے این ون اور کووڈ کی دیگر اقسام سے بہت زیادہ بیمار ہونے یا موت سے تحفظ ملتا ہے۔کورونا کے نئے ویریئنٹ کےکیسز میں اضافے پر محکمہ صحت سندھ نے ہدایت نامہ جاری کردیا۔ترجمان محکمہ صحت سندھ کے مطابق سندھ کے تمام ڈی ایچ اوز اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹس کو اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ کورونا کے متاثرین کے ساتھ منسلک افراد کی نشاندہی کرکے قرنطینہ کیا جائے۔ہدایت نامے میں کہا گیا ہےکہ مریضوں سے منسلک افراد ٹیسٹ کرائیں اور سیلف آئیسولیشن اختیار کریں، تمام ڈی ایچ کیوز اور ٹی ایچ کیوز میں کورونا وارڈ قائم کیے جائیں۔ ڈی جی ہیلتھ سندھ نے ہدایت کی ہے کہ شدید علامات والے افرادکو مناسب علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جائے، تمام اسپتالوں میں بیڈز و طبی سہولیات اور وسائل کو یقینی بنایا جائے، بالخصوص متاثرہ علاقوں میں ویکسینیشن کا عمل بھی تیز کیا جائے۔محکمہ صحت سندھ نے کہا ہے کہ کورونا سے متعلق جھوٹی خبروں کے بجائے قابل بھروسہ ذرائع استعمال کیے جائیں، نئے کیسوں کی تشخیص کو مضبوط سرویلیئنس سسٹم کے تحت مانیٹرکیا جائے، عوام احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے فیس ماسک استعمال کریں، علامات والے افراد سے ملتے وقت فاصلہ رکھیں اور ہاتھ اچھی طرح دھوئیں۔کہا جا رہا ہے کہ نئے کووڈ ویریئنٹ کے نتیجے میں ملکی اسپتالوں کی او پی ڈیز اور وارڈز پر دباﺅ بڑھ سکتا ہے۔ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ جے این ون ویریئنٹ دنیا میں نہایت تیزی سے دوسرے کووڈ ویریئنٹس کی جگہ لے رہا ہے، فی الحال پاکستان میں نئے ویریئنٹ جے این ون کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ایڈوائزری کے مطابق کورونا سے بچا کی تدابیر میں صابن سے ہاتھ دھونا اور سینیٹائزر کا استعمال شامل ہے،کورونا اور دیگر ریسپائریٹری وائرس سے بچنے کے لیے پرہجوم جگہوں پر جانے سے گریز کریں، ویکسین ابھی بھی کورونا سے بچاﺅ کا سب سے بہترین طریقہ کار ہے۔ پاکستان کی نوے فیصد آبادی کو کورونا ویکسین لگ چکی ہے، لوگ محفوظ ہیں،کورونا وائرس کے نئے سب ویریئنٹ اور دیگر سے کوئی بڑی لہر نہیں آئےگی، نئے ویریئنٹ سے متاثرہ افراد سے متعلق ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز، آکسیجن سپلائی اور اینٹی وائرل ادویات کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ کورونا وائرس کے نئے ویریئنٹس کی نگرانی کے لیے ائیر پورٹس اور ملکی انٹری پوائنٹس پر نگرانی بڑھا دی گئی ہے۔کورونا وائرس کے اومیکرون کی ایک ذیلی قسم کو عالمی ادارہ صحت نے اس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے پھیلاﺅ کی وجہ سے اس کی درجہ بندی ایک پراسرار قسم کے طور پر کی ہے۔ صوبہ پنجاب کے ایک سرکاری مراسلے میں سےکرٹری برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ پنجاب نے صوبے میں کورونا وائرس کی نئی قسم کے پھیلاﺅ کے بارے میں جاننے کے لیے اس بات پر زور دیا کہ کورونا کی ٹیسٹنگ ایک بار پھر تیزی سے کرنا ہو گی تاکہ اس وائرس کی نئی قسم کی شدت کا اندازہ لگانے اور اس کی منتقلی کو روکنے میں مدد مل سکے۔یہ مراسلہ اس وقت جاری کیا گیا جب ایک بار پھر کووڈ کیسز میں اضافے کے خدشے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ یہ فیصلہ خطے کے مختلف حصوں میں ممکنہ وبا کی نشاندہی اور ان پر قابو پانے کے لیے ایک احتیاطی اقدام کے طور پر سامنے آیا ہے تاہم ڈاکٹرز کے مشاہدے اور تجربے کے مطابق اس وقت پاکستان بالخصوص صوبہ پنجاب میں صورتحال خاصی عجیب ہے۔ کورونا، انفلوئنزا اور آر ایس وی وائس میں پائی جانے والے علامات کو ٹریپل ڈیکر جبکہ کورونا اور انفلوئنزا وائرس سے متاثر ہونے والے مریضوں میں پائی جانے والی علامات کو ڈبل ڈیکر وائرس کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت کورونا کے نئے وائرس کو ٹیسٹ کرنے والے کٹس موجود نہیں۔اس وائرس کی موجودگی کا پتا لگانے کے لیے انتہائی حساس کٹ چاہیے ہوتی ہیں جو اس وقت ہمارے پاس بڑے پیمانے پر موجود نہیں۔ ایسے مریضوں میں گذشتہ تین ہفتوں سے خاصہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ڈاکٹر زیادہ تر مریضوں کی علامات کو دیکھتے ہیں تو ٹیسٹ، ایکسرے یا سکین کرواتے ہیں جس سے کسی حد تک یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ مریض کورونا وائرس کا شکار ہے یا نہیں۔ زیادہ تر مریضوں کو چیک کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ کورونا کی یہ نئی قسم میوٹیٹ ہو کر یہاں پھیل رہی ہے کیونکہ ہمارے ہاں سموگ اور فضا میں اتنے زہریلے کیمیکل پائے جاتے ہیں کہ لوگ وائرس سے متاثر بھی زیادہ دیر کے لیے ہو رہے ہیں۔ابھی تک ہمارے پاس نہ تو ایسی کٹس موجود ہیں جو کورونا کی نئی قسم کی موجودگی کا پتا لگا سکیں اور نہ ہی ویکسین موجود ہیں، جس بڑی تعداد سے لوگ متاثر ہو کر آ رہے ہیں حکومت کو چاہیے کہ سنجیدگی سے اس مسئلے کو دیکھے۔تاکہ اس حوالے سے کسی بڑی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے حکومت کو چاہےے کہ وہ فوری طور پر بڑی مقدار میں نئے وائرس کو چےک کرنے والی کٹس منگوائے اور انہےں ملک کے تمام ہسپتالوں کو فراہم کےا جائے۔