صحافیوں کی فلاح وبہبود کیلئے مثبت پیشرفت

گلگت بلتستان میں صحافیوں کے حقوق کے تحفظ اور میڈیا انڈسٹری کے مسائل کے حل کیلئے وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کی خصوصی ہدایت پر قائم کمیٹی کے پہلے اجلاس میں میڈیا کے حوالے سے قانون سازی، صحافیوں کی فلاح و بہبود اور استعداد کار میں اضافے کیلئے شرکاءکو مجوزہ سفارشات پر بریفنگ دی گئی۔ معاون خصوصی گلگت بلتستان ایمان شاہ نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار میڈیا انڈسٹری کے مسائل کے صحافیوں اور حقوق کے تحفظ کیلئے جامع پالیسی اور قانون سازی کیلئے اعلی سطحی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے سفارشات کابینہ میں پیش کریگی تاکہ عامل صحافیوں کے حل طلب مسائل، پریس کلبز کی تعمیر اور گرانٹس اور صحافیوں کی استعداد کار کیلئے جامع حکمت عملی وضع کی جا سکے۔ سیکرٹری خوراک و اطلاعات عثمان احمد اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کے صحافیوں کی مشکلات اور مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات بروئے کار لانے تمام اسٹیک ہولڈرز کے نمائندوں پر مشتمل ورکنگ گروپ تشکیل دیا جا رہا ہے تاکہ دیگر صوبوں میں میڈیا انڈسٹری اور صحافیوں کے حقوق کیلئے ہونیوالی قانون سازی کا جائزہ لیکر گلگت بلتستان کے صحافیوں کی فلاح و بہبود اور صحافت کے فروغ کیلئے جامع سفارشات مرتب کی جا سکیں۔ صحافےوں کی فلاح و بہبود کے لےے پےشرفت خوش آئند ہے۔صحافت حقیقی معنوں میں اہم قومی ستون ہے ،حکومت کو میڈیا انڈسٹری کو درپیش موجودہ بحران سے آگاہ ہونا چاہےے ۔ملک کی میڈیا انڈسٹری تاریخ کے سب سے بڑے بحران سے گزر رہی ہے۔حکومتےں میڈیا کے مسائل سے قطعی بے توجہی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کا دور لوٹ مار کا دور تھا لیکن میڈیا کرائسس سے بچا ہوا تھا۔ دنیا کے ہر جمہوری ملک میں میڈیا کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ پاکستان کی میڈیا انڈسٹری بھی یہی توقع کر رہی تھی کہ حکومتےں میڈیا کی ترقی کے لیے خصوصی توجہ دےں گی۔رائے عامہ کی تبدیلی میں میڈیا انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے وہ اہل قلم جو برسہا برس سے عوام کو سسکتے دیکھ رہے تھے وہ امید کر رہے تھے کہ اب غریب عوام کی زندگی میں کچھ بہتری آئے گی وہ حیران ہیں کہ اور زیادہ سنگین مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی کام بغیر معاوضہ نہیں کیا جاتا لیکن میڈیا کے وہ لوگ جو اشرافیہ کے چنگل میں پھنسے ہوئے بائیس کروڑ عوام کو اس عذاب سے نکالنا چاہتے تھے۔ وہ حکومت سے توقع رکھ رہے تھے کہ شاید اب ان کے مسئلے حل ہوں گے اسی طرح میڈیا انڈسٹری بھی توقع کر رہی تھی کہ میڈیا کو بھی اس کے پیروں پر کھڑا رہنے کی سبیل کی جائے گی لیکن یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ میڈیا کی حالت بہتر ہونے کے بجائے بد تر ہو رہی ہے۔صحافی کوئی سرمایہ دار نہیں ہوتا بلکہ قلمی مزدور ہوتا ہے ترقی یافتہ ملکوں میں صحافی اپنی محنت کا مناسب معاوضہ لیتا ہے۔ ایک آسودہ زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بچوں کو اعلی اسکولوں میں پڑھاتا بھی ہے لیکن پاکستان میں میڈیا انڈسٹری میں کام کرنے والے انتہائی نامناسب معاشی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ صحافی برادری سخت معاشی مشکلات کا شکار ہے ۔ صحافیوں کی انجمنیں فعال ہیں ان کی ذمے داری ہے کہ وہ میڈیا کی مالی مشکلات کا اپنی اولین فرصت میں حل بگوش کرنے کی کوششیں کریں لےکن اےسا نہےں ہوتا۔عوام کے مسائل کے حل کےلئے میڈیا انڈسٹری کی ایک اپنی اہمیت ہوتی ہے جس کی وجہ ہر جمہوری ملک میں اس کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔پاکستانی معاشرے کی تربیت میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فوجی آمروں کے دور میں صحافیوں نے بہت مشکلات کا مقابلہ کیا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر شعبہ زندگی میں دولت اہم کردار ادا کرتی ہے اس پس منظر میں حکومت کی اولین ترجیح عوام کے روز مرہ کے مسائل حل کرنا ہونا چاہیے، عوام کے مسائل حل ہوںگے تو میڈیا انہیں ہائی لائٹ کرے گا اور اگر عوام کے مسائل حل نہ ہوںگے تو عوام میں مایوسی پیدا ہوگی۔آج ہم تیزی سے بدلتی ہوئی ڈیجیٹل دنیا میں رہ رہے ہیں، جہاں میڈیا اداروں اور ان کے ملازمین کے لئے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ میڈیا کے منظر نامے میں اپنی موجودگی کو بڑھانے میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ فراہم کردہ متبادلات کے ساتھ ہم آہنگ رہیں۔اس ڈیجیٹل دور میں میڈیا کے گہرے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے ڈیجیٹل میڈیا کے ابھرنے پر زور دیا، جس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور تکنیکی ٹولز کا غلبہ ہے، اور مصنوعی ذہانت پروگرام جو روایتی میڈیا اداروں اور سرکاری ذرائع سے آزادانہ طور پر خبروں کی تشہیر اور گردش پر نمایاں طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔میڈیا کے منظر نامے میں ثقافت کو اپنانا ضروری ہو گیا ہے۔ اس طرح، ثقافت اور نوجوانوں کی وزارت میڈیا کے پیشے میں ثقافت کے کردار کی وضاحت کرنے میں اس اہم تقریب کی حمایت کرتی ہے۔اخبارات کو مالی مشکلات، معلومات تک محدود رسائی، سیاسی مداخلت، سےکیورٹی خدشات اور پیشہ وارانہ مہارت کے فقدان سمیت اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بہت ضروری ہے کہ اپنے قارئین کو درست، بروقت اور متعلقہ خبریں فراہم کرتے رہیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے حالیہ برسوں میں نجی ٹیلی ویژن چینلز اور ڈیجیٹل میڈیا کے عروج کے ساتھ نمایاں ترقی کی ہے۔ تاہم، صنعت کو اہم چیلنجوں کا بھی سامنا ہے جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کو بھی نمایاں مالی مشکلات کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے صنعت اشتہارات کی آمدنی پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کے عروج کی وجہ سے یہ آمدنی گزشتہ برسوں سے کم ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دونوں کے لیے مالیاتی بحران کا سامنا ہے۔ جس کے لیے کسی ایک خاص وجہ کو مورد الزام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ڈیجیٹل میڈیا کے عروج نے الیکٹرانک میڈیا کی صنعت میں مسابقت میں اضافہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ڈیجیٹل نیوز آﺅٹ لیٹس نے لوگوں کے لیے خبروں اور معلومات تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے، جس سے روایتی میڈیا آٹ لیٹس پر انحصار کم ہو گیا ہے۔پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی صنعت کو مالی مشکلات، معلومات تک محدود رسائی، ریگولیشن، سےکیورٹی خدشات اور ڈیجیٹل میڈیا سے مسابقت سمیت اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کو درپیش چیلنجز پاکستان میں اخباری صنعت کو درپیش چیلنجز سے ملتے جلتے ہیں، ان چیلنجز سے نمٹنے کے ذریعے پاکستان میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی صنعتیں متعلقہ رہ سکتی ہیں اور اپنے ناظرین کی ضروریات کو پورا کر سکتی ہیں۔ پچھلے چند سال سے صحافت کو بہت زیادہ دباﺅ کا سامنا ہے۔ صحافیوں اور صحافتی اداروں کی آزادی سلب ہو کر رہ گئی ہے۔ بہت سے نامور صحافیوں کی بے روزگاری کے پیچھے مالی بحران کار فرما نہیں۔ ان کا اصل جرم سچ بولنا ہے۔میڈیا کے زوال میں خود میڈیا بھی ذمہ دار ہے۔ جھوٹ، سنسنی خیزی، بہتان تراشی، جیسے عوامل نے صحافتی اداروں، پروگرام اینکروں، تجزیہ کاروں اور صحافیوں کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ عمومی طور پر صحافت کی تعلیم اور صنعت کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اچھی صحافت کے فروغ میں جامعات کا کردار نہایت اہم ہے۔ دوران تعلیم اگر صحافت کے طالب علموں کو صحافتی اخلاقیات اور نظریاتی صحافت کی طرف راغب کر دیا جائے تو پروفیشنل فیلڈ میں ان کا کردار مختلف ہو سکتا ہے۔ اس پہلو پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ تدریسی اور صحافتی اداروں کے مابین روابط قائم ہونے چاہئیں تاکہ ایک دوسرے کے مسائل و مشکلات کو سمجھا جا سکے۔صحافیوں کے لیے ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ جن میں حکومتی موقف کی حمایت اور طاقت ور حلقوں کے مفاد تحفظ میں صحافیوں اور صحافتی اداروں کو مختلف ترغیبات یا آسانیاں دستیاب ہیں تو دوسری جانب غیر جانبدارانہ اور معروضی حقائق پر مبنی صحافت کرنے والے افراد اور اداروں کے لیے برداشت اور کام کرنے کی گنجائش میں مسلسل کمی آرہی ہے ۔وہ لوگ جو عملی بنیادوں پر میڈیا کو ریاست کے مکمل کنٹرول میں لانا چاہتے ہیں اور اس پر مکمل قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں وہ اس حقیقت کو نظر انداز کررہے ہیں کہ میڈیا بنیادی طور پر ایک سروس انڈسٹری ہے جس کا کام سچائی کی تلاش ہے ۔صحافی کمزور اور تقسیم نظر آتے ہیں اور لڑانے والے پہلے سے زیادہ متحد اور مضبوط ہوچکے ہیں۔ہر چند سال بعد ایک نیا قانون متعارف کرواکر میڈیا کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔آج پاکستان میں صحافت خود سے نبردآزما ہے ‘آزادی اظہار کی لڑائی بھی زوروں پر ہے ۔ ان حالات میں اگر گلگت بلتستان کی حکومت صحافےوں کی فلاح و بہبود کےلئے کوششےں کر رہی ہے تو ےقےنا ےہ اقدام قابل تحسےن ہے اور امےد کی جا سکتی ہے کہ اس طرح گلگت بلتستان کے صحافےوں کو درپےش مشکلات سے نجات ملے گی۔