وزیر سیاحت گلگت بلتستان غلام محمد نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان سیاحوں کیلئے پرکشش علاقہ ہے،سالہا سال گلگت بلتستان میں ایونٹس ہوتے رہتے ہیں،سرفہ رنگا جیپ ریلی اور ونٹر سپورٹس فیسٹول سال کے دو بڑے میگا ایونٹس ہیں،گلگت بلتستان چاروں صوبوں کے بہ نسبت سیاحت پر زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے،گلگت بلتستان حکومت علاقے میں سیاحت کے فروغ کیلئے موثر اقدامات کررہی ہیں۔سات روزہ ونٹرسپورٹس فیسٹول کی افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ وزیر سیاحت گلگت بلتستان نے کہا کہ گلگت بلتستان کے تمام دس اضلاع میں آئس ہاکی سمیت دیگر مقامی کھیلوں کا انعقاد کیا جارہا ہے،گلگت بلتستان میں گرمیوں میں سیاحوں کی ایک بڑی تعداد یہاں کا رخ کرتی ہے اور ہم ونٹر اسپورٹس ایونٹس کے ذریعے سردیوں میں بھی سیاحوں کو علاقے کی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں۔سیکرٹری سیاحت و سپورٹس گلگت بلتستان آصف اللہ خان نے کہا کہ گلگت بلتستان کو گزشتہ سال 400ملین غیر ملکی سیاحوں سے ریونیو حاصل ہوا،غیر ملکی کوہ پیماﺅں کیلئے ایڈونچر سپورٹس کیلئے پرمٹ بھی انتہائی مناسب ہے،ماﺅنٹ ایورسٹ پر مہم جوئی کیلئے پرمٹ اس کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ونٹر فیسٹول کے انعقاد کے ذریعے موسم سرما میں گلگت بلتستان کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا ترجیح ہے، سات روزہ ایونٹس کے دوران روایتی کھیلوں کے ساتھ ساتھ آئس ہاکی اور سکئی کے مقابلے ہونگے۔ان ایونٹس کے ذریعے بڑے پیمانے پر لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے آگاہی بھی دی جائے گی۔وزیر منصوبہ بندی و ترقی گلگت بلتستان راجہ ناصر علی خان نے کہا کہ حکومت محدود وسائل میں ایونٹس کی کامیابی کیلئے اقدامات کررہی ہے،سیاحت کوفروغ دینے کیلئے ونٹر سپورٹس کا کلیدی کردار ہے،معاشی مسائل کے باوجود نوجوانوں کیلئے صحت مند سرگرمیوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے، ہر پاکستانی کو صحت مبد سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہئے۔گلگت بلتستان کے وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی راجہ ناصر علی خان کے مطابق گلگت بلتستان میں 15 سے 25 جنوری تک سات روزہ ونٹر اسپورٹس فیسٹیول کی میزبانی کرے گا جس میں لاکھوں مقامی لوگ اور غیر ملکی سیاح جہاں 12 خواتین کھلاڑیوں سمیت 52سے زائد ٹیمیں ایونٹ میں شرکت کریں گی۔اس ایونٹ کا مقصد خطے کی خوبصورتی کو اجاگر کرنا اور دنیا بھر میں پاکستان کے مثبت تشخص کو اجاگر کرنا ہے۔ گلگت بلتستان ایشین گیمز اور 2026 کے اولمپکس سمیت بڑے بین الاقوامی مقابلوں کی میزبانی کرے گی، جس سے عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر ہوگا۔ یہ سرمائی کھیل تاریخی طور پر پورے جی بی میں مقبول رہے ہیں، جیسے آئس سکیٹنگ اورسکیئنگ وغیرہ شامل ہیں ۔سات روزہ ایونٹ میں مختلف دس اضلاع سے سینکڑوں کھلاڑی سکیٹنگ، آئس ہاکی اور آئس کرلنگ کے مقابلوں میں حصہ لیں گے۔ موسم سرما کے کھیلوں سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو فروغ ملے گا، جبکہ مقامی کمیونٹی کو بھی متعدد طریقوں سے فائدہ پہنچے گا۔ مقامی ثقافت اور کاروباری افراد کو فروغ دینے کے لیے اس میلے میں روایتی ملبوسات، کھانے پینے اور دستکاری کے کئی سٹالز بھی شامل ہیں جو سیاحوں کے لیے ایک اضافی کشش اور مقامی لوگوں کے لیے ایک فائدہ ہے۔ شمالی علاقہ جات جسامت کے لحاظ سے سوئٹزرلینڈ سے دوگنا ہےں اور دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ہیں جو سرمائی کھیلوں کے لیے موزوں ہیں لیکن ہمارے سرمائی کھیلوں کا کوئی خاص نام نہیں ہے۔ گلگت بلتستان کے ایک گاﺅں نلتر سے تعلق رکھنے والے پاکستانی کھلاڑی محمد کریم بیجنگ سرمائی اولمپکس میں شرکت کرنے والے واحد سکیئر ہیں اور وہ واحد پاکستانی سکیئر بھی ہیں جنہوں نے سوچی، روس اور پیونگ چانگ، جنوبی کوریا میں ہونے والے دو سرمائی اولمپکس میں شرکت کی۔ نیشنل اسٹیڈیم بیجنگ کو برڈز نیسٹ بھی کہا جاتا ہے، دنیا کا واحد مقام ہے جہاں سرمائی اور سمر اولمپکس دونوں کی میزبانی ہوتی ہے۔ 2008 کے سمر اولمپکس یہاں اسی مقام پر منعقد ہوئے تھے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گلگت بلتستان سرمائی کھیلوں کا حب بن سکتا ہے یہاں پہلے بھی سرمائی کھیلوں میں سکیئنگ کے علاوہ فگر سکیٹنگ، سنو بورڈنگ، آئس سکینگ اور آئس ہاکی مقابلے ہوتے رہے ہےں۔گلگت بلتستان کی وادی نلتر سردیوں میں اسکی کے حوالے سے مشہور مقام شمار کیا جاتا ہے جہاں بیرون ملک سے ٹیمیں بھی آتی ہیں، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کھیلے گئے آئس ہاکی میچ کی میزبانی کا اعزاز بھی نلتر کو حاصل ہوا ہے ۔نلتر میں منعقدہ آئس ہاکی میچ کے بعد پاکستان میں جاری سرمائی کھیلوں کو ایک نئے باب کا اضافہ قرار دیا جاتا رہا ہے ۔پی اے ایف ریزورٹ نلتر میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا آئس ہاکی میچ جی بی اسکاﺅٹس اور پاکستان ایئر فورس کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا تھا۔ ونٹر اسپورٹس فیڈریشن آف پاکستان نے گلگت بلتستان کے ضلع استور میں نوتعمیر شدہ رٹوا اے سکی ریزورٹ میں دو مقابلے رکھے تھے۔سرمائی مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے دنیا بھر سے ممتاز بین الاقوامی اسکئیرز مختلف کیٹیگریز میں حصہ لینے کے لیے پاکستان پہنچے ۔مالم جبہ کے علاوہ نلتر کو پاکستان کا مشہور اسکی ریزورٹ کا درجہ حاصل ہے جہاں ماضی میں قومی اور بین الاقوامی مقابلے منعقد کیے جاچکے ہیں۔نلتر گلگت بلتستان کا سیاحتی مقام ہے جہاں سردیوں میں برف پڑتی ہے اور گرمیوں میں موسم انتہائی خوش گوار ہوتا ہے، اسی لیے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد چاروں موسموں سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں آتی ہے۔نلتر پہاڑوں اور قدرتی جنگلات سے بھرا ہوا مقام ہے جہاں گرمیوں میں ہر طرف سبزہ اور سردیوں میں برف کی سفیدی چھائی ہوتی ہے، جبکہ یہاں پر خوب صورت جھیلیں بھی موجود ہیں۔سطح سمندر سے دوہزار950 میٹر بلند وادی نلتر اسکی مقابلوں کے لیے مشہور ہے جہاں قراقرم الپائن اسکی کپ منعقد ہوچکا ہے ۔گلگت بلتستان میں سرمائی کھیلوں بالخصوص آئس ہاکی کو تیزی سے فروغ مل رہا ہے۔سکردو میں آئس ہاکی کا ایک خوبصورت میدان ہلمہ رنگا ڈسٹرکٹ پارک میں تیار کیا گیا تھا،موسم سرما کے سب سے بڑے تہوار مے پھنگ کی مشعل بردار رسم کا شاندار مظاہرہ بھی کیا گیا جبکہ شائقین کے لیے برف کے اس خوبصورت گراﺅنڈ میں مقامی کھانوں کے سٹالز لگائے گئے۔ ٹورنامنٹ میں چار ٹیموں نے حصہ لیا جن کے نام مشہور گلیشیئرز سیاچن، بیافو، بلتورو اور چوغو لونگما پر رکھے گئے تھے۔ ضلع غذر کی منجمد خلتی جھیل پر سپورٹس میلے کا کامیاب انعقاد ہو چکا ہے جس سے ثابت ہو تا ہے کہ یہ خطہ سرمائی سیاحت کے حوالے سے بھی زرخیز ہے۔خلتی جھیل ضلع غذر کی تحصیل گوپس سے چند کلومیٹر کی مسافت پر گلگت چترال روڈ پر واقع ہے۔ خلتی جھیل سطح سمندر سے 7273فٹ بلندی پر واقع ہے اور اس کی گہرائی اندازہ اسی فٹ ہے۔ یہاں سردیوں میں درجہ حرارت منفی پندرہ درجے تک گر جاتا ہے۔ اس قدر شدید سردی کے باعث دسمبر کے آغاز سے جھیل یخ بستہ ہو جاتی ہے۔ برف سردی کی شدت اضافے کے ساتھ ساتھ سخت اور مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ مقامی لوگ منجمد جھیل کی مضبوطی کا اندازہ لگاتے ہی اسے کھیل کے میدان میں بدل دیتے ہیں۔ پہلے پہل اس جھیل پر منعقدہ کھیلوں سے مقامی لوگ ہی مستفید ہوتے تھے، مگر سوشل میڈیا کی ترقی کے ساتھ منجمد جھیل پر میلہ دیکھنے آس پاس کے علاقوں سے بھی لوگوں نے خلتی گاﺅں کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہاں باقاعدہ سرمائی کھیلوں کا میلہ منعقد کیا جا چکا ہے۔خلتی جھیل پر منعقدہ یہ سہ روزہ میلہ دیکھنے گلگت بلتستان کے علاوہ پاکستان کے کئی شہروں سے بھی شائقین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔خلتی جھیل سردیوں کے علاوہ گرمیوں کے موسم میں بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ گرمیوں میں جھیل ٹراﺅٹ مچھلی کا مسکن ہوتی ہے۔ جہاں پر مچھلیوں کے شکار اور سیر و تفریح کے لیے سیاحوں کی خاصی تعداد موجود ہوتی ہے۔خلتی جھیل ضلع غذر کی تفریحی مقامات کی محض ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ پھنڈر، گوپس، یاسین، پونیال اور اشکومن میں کئی ایسے مقامات ہیں جن پر تھوڑی سی توجہ مرکوز کرنے سے یہ ضلع سیاحتی اعتبار سے خوب ترقی کر سکتا ہے۔دنیا کا بلند ترین پولوگراﺅنڈ شندور بھی اسی ضلع کے حدود میں واقع ہونے کے باوجود یہ علاقہ سیاحت کے حوالے سے وہ مقام حاصل نہیں کر سکا جو ہنزہ، استور یا بلتستان ڈویژن کو حاصل ہے۔ اس علاقے کے سیاحت کے میدان میں پیچھے رہ جانے کی وجوہات میں گلگت سے غذر کے مابین مرکزی شاہراہ کی خستہ حالی، مقامی سطح پر قیام و طعام کے انتظامات کا فقدان، سیاحتی مقامات کی عدم تشہیر اور سیاحتی مقامات و تاریخی ورثے کی تزئین و آرائش کے لیے وسائل کی عدم فراہمی شامل ہیں۔گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت غذر سمیت گلگت بلتستان کے تمام سیاحتی مقامات کی قومی و بین الاقوامی سطح پر تشہیر کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر ہوٹل انڈسٹری، کمیونیکیشن اور انفراسٹرکچر کی ترقی کیلئے مقامی لوگوں کی مشاورت اور مفاد عامہ کے منصوبوں کے اجرا کے لیے اقدامات کرے، تاکہ اس سے علاقے میں سیاحتی شعبے کو فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ غربت و بیروزگاری کے خاتمے میں بھی مدد مل سکے۔یہاں آئس ہاکی چیمپئن شپ، آئس کلائمبنگ، سکیٹنگ، آئس سوئمنگ اور مونٹین سائیکلنگ کے مقابلے ہوچکے ہیں ان کھیلوں کو دیکھنے کے لیے نہ صرف مقامی بلکہ پورے ملک سے تعلق رکھنے والے سیاح بھی بڑی تعداد شریک ہوئے۔ گلگت بلتستان سرمائی کھیلوں کیلئے انتہائی اہم خطہ ہے، حکومت کو چاہئے کہ نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی سطح پر سرمائی کھیلوں کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔
