وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں دھند کا راج ہے۔ متعدد مقامات پر شاہراہوں کو ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کردیا گیا۔ مختلف شہروں میں شدید دھند کے باعث حدِ نظر انتہائی کم رہ گئی۔ شہریوں کو غیر ضروری سفر سے گریز کی ہدایت کی گئی ہے۔ شدید دھند کے باعث حادثات کا خدشہ ہے جس کے پیشِ نظر حکام نے متعدد مقامات پر شاہراہوں کو بند کردیا۔پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت صوبے کے میدانی علاقوں میں شدید دھند کی وجہ سے معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔لاہور میں شدید دھند کی وجہ سے سنیچر کی رات ہوائی اڈہ کو بھی بند کردیا گیا اور اندرون ملک اور بیرون ملک آنے اور جانے والی پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔محکمہ موسمیات کے مطابق گہری دھند کا یہ سلسلہ آئندہ چند دنوں تک جاری رہے گا۔موٹر وے پولیس کے ترجمان محمد عمران کا کہنا ہے کہ دھند اس قدر گہری ہے کہ موٹر وے پر کچھ دکھائی نہیں دے رہا اور اسی وجہ سے گاڑیوں کو موٹر وے پر جانے سے روک دیا گیا ہے۔ دھند شروع ہونے سے پہلے جو گاڑیاں موٹر وے سفر کر رہی تھی ان کو دھند کے باعث قافلے کی شکل میں واپس لایا جا رہا ہے جبکہ کچھ گاڑیوں کو قریبی انٹر چینج سے جی ٹی روڈ کی طرف موڑ دیا گیا ہے ۔ ریلوے حکام کے مطابق دھند کے باعث ریل گاڑیوں کی آمد روفت کا سلسلہ معطل نہیں ہوا البتہ ریل گاڑیاں کی آمد رفت کا شیڈول متاثر ہوسکتا ہے اور دھند کی وجہ سے ریل گاڑیاں تاخیرکا شکار ہوسکتی ہیں ۔میدانی علاقوں میں دھند کا سلسلہ دسمبر کے آخری ہفتے میں شروع ہوا ہے اور محکمہ موسمیات کے مطابق دھند کا یہ سلسلہ آئندہ چند روز تک جاری رہے گا اس کے باعث کئی حادثات بھی پیش آچکے ہیں۔ صوبے کے بیشتر علاقوں میں نظامِ زندگی بری طرح سے متاثر ہوا، وہیں شہریوں کو بھی سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور بہت سے لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ میدانی علاقوں میں چھائی دھند کی وجہ ہوا کے دباﺅ میں کمی اور فضائی آلودگی ہے ۔اس وقت لاہور اور پنجاب میں ایسا کوئی ایئر ٹیسٹنگ سسٹم موجود نہیں جس سے پتہ لگایا جاسکے کہ موسم میں ہونے والی اس غیر معمولی تبدیلی کی وجہ کیا ہے لیکن کچھ ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن کے مطابق اس موسمیاتی کیفیت کی وجہ لاہور میں ہونے والے تعمیراتی کام اور صنعتوں سے نکلنے والا دھواں ہے جس کے باعث یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔اگر یہ آلودگی بھارت سے پھیل رہی ہے تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے دوسرے شہروں میں پہلے ہی ماحولیاتی آلودگی کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے اور ماضی میں بھی ایسی رپورٹس منظرِعام پر آئی ہیں جن میں اس جانب توجہ مرکوز کروائی گئی تھی۔ بدقسمتی سے پنجاب حکومت کے پاس اب تک کوئی ایسی مشین یا ٹیکنالوجی ہی موجود نہیں جس سے ایئر ٹیسٹ ممکن ہو اور اس کی درست وجہ تک پہنچا جاسکے۔ جس طرح بھارت اور چین میں اس طرح کی صورتحال میں اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، اب ہمیں بھی اس بات کا خیال رکھنا ہوگا تاکہ لوگوں کو اس کے نقصانات سے بچایا جاسکے، ساتھ ہی عوام میں آگاہی بھی پیدا کرنی ہوگی کہ اس قسم کے حالات میں انہیں کون کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ میدانی علاقوں کے بعد اب دھند پوٹھوہار کے علاقے میں بھی چھا گئی ہے۔میدانی علاقوں میں درج حرارت کم ہے جب کہ شمالی علاقہ جات میں پہاڑوں پر برف باری کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید سرد موسم میں درجہ حرارت میں کمی سے دھند کی شدت میں اضافہ ہو گا۔پاکستان میں عموما موسمِ سرما میں پہلی بارش دسمبر کے آخری پندرہ دنوں میں ہوتی ہے لیکن سال 2023 میں دسمبر کے مہینے میں ملک بھر کے اکثر علاقوں میں بارش نہیں ہوئی اور اب محکمہ موسمیات کے مطابق جنوری کے پہلے ہفتے میں بھی بارش کا امکان نہیں ہے۔گزشتہ چند برسوں سے دسمبر کے مہینے میں سردی کی شدت کم ہوئی اور اب دسمبر اور جنوری کے مقابلے میں جنوری اور فروری میں سردی کی شدت زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔ آئندہ چند دنوں میں سردی کی شدت میں مزید اضافہ متوقع ہے اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں فوگ شیٹ کی وجہ سے سورج نہ نکلنے کے سبب درج حرارت مزید کم ہوگا۔گزشتہ دنوں میں ملک میں کوئی خاص برف باری بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی آنے والے دنوں میں زیادہ برف باری کا امکان ہے۔ تاہم اسکردو، گلگت اور چترال میں چند مقامات پر برف باری ہو سکتی ہے۔ ایک ہی طرح کے موسم کی وجہ سے فوگ شیٹ بن چکی ہے جس کا پھیلاﺅ بڑھ رہا ہے ‘ کھل کر بارش نہ ہونے کے باعث یہ فوگ شیٹ جنوری میں بھی برقرار رہنے کا امکان ہے۔موسم کے دورانیے میں تبدیلی اور بارشوں میں تاخیر سے زراعت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ پاکستان میں گندم کی فصل ستمبر میں کاشت کی جاتی ہے اور مارچ میں فصل کی کٹائی ہوتی ہے۔بارشیں بارانی علاقوں کے لیے ضروری ہوتی ہیں اور تقریبا دو ماہ سے گندم کی بوائی ہو چکی ہے لیکن ملک میں جاری خشک موسم سے گندم کی فصل بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ملک میں جاری حالیہ ویدر پیٹرن کا اگرچہ کوئی نام نہیں ہے۔ تاہم اسے ایک طویل خشک دورانیہ کہا جا سکتا ہے۔خشک اور شدید موسم کے سبب مختلف علاقوں میں وبائی امراض میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اسپتال آنے والے تقریبا اسّی فی صد مریضوں کو نزلہ، زکام، بخار، کھانسی، سر درد اور سانس لینے میں دشواری کی شکایات ہیں۔پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے ویدر پیٹرنزیعنی موسموں کے آنے جانے کی ترتیب میں تبدیلی آئی ہے جس کی وجہ سے خشک سالی، شدید بارشیں اور ہیٹ ویوز جیسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔لاہور اور بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی ان دنوں شدید دھند کی لپیٹ میں ہیں اور فضائی معیار یعنی ایئر کوالٹی انڈیکس خطرناک حد تک پہنچ گیا ہے۔لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے جہاں اس کا اے کیو آئی 387 ہے جب کہ نئی دہلی 345 اے کیو آئی کے ساتھ دوسرا نمبر ہے۔ دھند کے سبب نئی دہلی میں 100 سے زائد پروازیں منسوخ کر دی گئیں جب کہ لاہور میں بھی فلائٹ شیڈول متاثر ہوا ہے ٹرینوں کی آمد و رفت بھی تاخیر کا شکار ہے۔ یاد رہے کہ صفر سے پچاس تک اے کیو آئی صحت کے لیے اچھا سمجھا جاتا ہے۔سڑکوں پردھند کے باعث حد نگاہ کم ہونے کی وجہ سے ٹرےفک کو احتےاط کی ضرورت ہے ۔ گاڑیوں کے درمیان محفوظ فاصلہ رکھنے میں ناکامی کی وجہ سے حادثات پیش آسکتے ہیں جن کے نتیجہ میں جانی و مالی نقصان ہو سکتا ہے۔دبئی پولیس نے بھی دھند میں گاڑی چلاتے وقت حفاظتی اقدامات کی ہدایت کی ہے جن میں گاڑیوں کی رفتار کم رکھنے، لائٹس کا استعمال کرنے، اوورٹیک سے گریزکرنے، صرف اشد ضرورت پر لین تبدیل کرنے ، ہائی بیم استعمال نہ کرنے ، دوران ڈرائیونگ سڑک پر توجہ مرکوز رکھنے اور معمولی حادثات کی صورت میں ٹریفک بلاک نہ کرنے کی ہدایات شامل ہیں۔ہم جانتے ہےں کہ ٹھنڈی ہوا زیادہ درجہ حرارت رکھنے والی زمین یا پانی سے ٹکراتی ہے تو دھند پیدا ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین اور ہوا میں درجہ حرارت کا فرق ہوتا ہے۔ عام طور پر دھند سردیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ ہوا میں نمی زیادہ ہو اور گرم پانی سے اٹھنے والے بخارات کی تعداد زیادہ ہو تو دھند پیدا ہوتی ہے۔ بادل تب بنتے ہیں جب پانی کے بخارات بہت اوپر ٹھنڈی ہوا تک پہنچتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ گرم ہو کر ہوا پھیل جائے اور بلندی پر پہنچ کر پانی کے قطروں میں تبدیل ہوجائے۔ بادل ٹھنڈی اور گرم ہوا کے ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے بنتے ہیں۔ بادل سمندر کی سطح سے کئی کلومیٹر اوپر بنتے ہیں۔ دھند کو بھی ایک طرح کا بادل ہی سمجھنا چاہئے مگر یہ بالکل زمین کے برابر ہوتی ہے۔ دھند کی بہت سی قسمیں ہیں۔ ایک برفانی دھند بھی ہوتی ہے۔ یہ ان علاقوں میں پائی جاتی ہے جہاں ٹھنڈی ہوا اتنا نیچے آجاتی ہے کہ پانی کے بخارات برف کی سوئیاں بن جاتی ہیں۔ بادلوں میں بارش کا امکان ہوتا ہے اور بادل ہماری نظر کی حد کو متاثر نہیں کرتے۔ جہاں دھند ہوتی ہے وہاں بارش کی بجائے نظر دھندلا جاتی ہے۔ حادثے جنم لیتے ہیں۔ ہمیں کچھ نظر نہیں آتا اور ہم ایک دوسرے کے راستے کاٹتے ہیں۔ نہ ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، نہ ہم پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔بادل سے ہریالی پیدا ہوتی ہے۔ ہریالی میں زندگی ہے۔ ہوا میں نمی کا تناسب اگر زےادہ ہو تودھند کی تشکیل کے لیے کافی ہے درجہ حرارت اور نقطہ شبنم میں بہت کم فرق رہ جائے تو دھند پڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ہوا میں نمی کا تناسب مختلف وجوہات کی بنا پر بڑھ سکتا ہے نم آلود ہواﺅں کی مسلسل آمد گیلی زمین پر صاف دھوپ سے عمل تبخیر وغیرہ۔اسی طرح درجہ حرارت کم ہونے کی بھی مختلف وجوہ ہو سکتی ہیں جن میں ہوا کا شدید سرد سطح زمین سے ٹکرانا، صاف مطلع میں حرارت کا اخراج وغیرہ۔دھند کو ہم روزمرہ مشاہدات میں بھی دیکھ سکتے ہیں جب ٹیوب ویل یا نلکے کے نسبتا گرم پانی سے یخ بستہ سرد ہوائیں ٹکراتی ہیں تو دھند کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔موسم برسات میں جب نمی ہوا میں بہت زیادہ ہوتی ہے جب ہم ریفریجریٹر یا فریج کا دروازہ کھولتے ہیں تو یکایک دھند نمودار ہوتی ہے کیونکہ نم آلود ہوا فورا سرد ہونے سے دھند بن جاتی ہے۔ دھند کے ختم ہونے کے لیے یا تو درجہ حرارت بڑھانا ہوگا یا نمی کا تناسب کم کرنا ہوگا جونہی یہ دو شرائط یا ان میں سے ایک پوری ہوتی ہے دھند ختم ہو جاتی ہے۔
