سوشل میڈیا کے استعمال کا خطرناک رحجان

ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تقریبا پچاس فیصد نوجوانوں سمجھتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کی لت میں مبتلا ہیں۔یونیورسٹی آف کیمبرج میں کی جانے والی تحقیق کے ابتدائی نتائج میں محققین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے ساتھ کچھ لوگوں کا تعلق رویے کی لت کے جیسا ہو سکتا ہے۔تحقیق میں کیمبرج یونیورسٹی کی ٹیم میلینیئم کوہورٹ اسٹڈی سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا تجزیہ کر رہی ہے۔ یہ مطالعہ یونیورسٹی آف لندن میں سینٹر فار لونگیٹیوڈنل اسٹڈیز کی جانب سے کیا گیا ہے۔اس مطالعے میں 2000 سے 2001 کے درمیان برطانیہ میں پیدا ہونے والے اٹھارہ ہزار سے زائد بچوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا تاکہ 21 ویں صدی کے ابتدا میں پیدا ہونے والے بچوں کے پس منظر کو ریکارڈ کیا جاسکے۔کیمبرج محققین نے جائزے میں دیکھا کہ سروے کیے گئے 7022 افراد کے 48 فی صد حصے نے میرا خیال ہے میں سوشل میڈیا کی لت میں مبتلا ہوں کے جملے سے اتفاق یا قطعی اتفاق کیا۔یہ ڈیٹا جنوری 2018 سے مارچ 2019 کے درمیان اکٹھا کیا گیا، جس وقت ان شرکا کی عمر 17 برس تھی۔سروے میں شریک وہ تمام افراد جن کو یہ لگتا تھا کہ وہ اس لت میں مبتلا ہیں۔یونیورسٹی آف کیمبرج کی گریجویٹ طالبہ اور تحقیق کی سربراہ جورجیا ٹرنر کا کہنا تھا کہ محققین یہ نہیں کہہ رہے کہ جن لوگوں لگتا ہے وہ لت میں مبتلا ہیں، وہ مبتلا ہیں۔ لیکن اس بات کا احساس اچھا نہیں ہے کہ ان کو محسوس ہوتا ہو کہ ان کے اپنے رویے پر کوئی قابو نہیں، لہذا یہ کافی حیرت انگیز چیز ہے کہ کئی لوگ ایسا محسوس کرتے ہیں۔جورجیا ٹرنر نے مزید کہا کہ تحقیق بتاتی ہے کہ سوشل میڈیا کی لت منشیات کی لت طرز پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔سوشل میڈیا کے بہت زیادہ فوائد ہیں اس کے ساتھ ساتھ اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان نسل میں سوشل میڈیا کا مثبت کے ساتھ ساتھ منفی استعمال بھی بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ وہ اپنا بہت سارا قیمتی وقت سوشل میڈیا پہ ضائع کر دیتے ہیں۔سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ ہے جو لوگوں کو اظہارِ رائے، تبادلہ خیال، تصویر اور ویڈیوز شیئر کرنے کی اجازت دیتا ہے جس کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔سوشل میڈیا کی بدولت پوری دنیا ایک گاﺅں میں تبدیل ہو گئی ہے، سوشل ویب سائٹس میں سے زیادہ تر لوگ فیس بک، ٹوئیٹر، یوٹیوب، گوگل پلس اور انسٹاگرام وغیرہ استعمال کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ اگر ایک چیز کے فوائد ہیں تو اس کے نقصانات بھی موجود ہیں۔اس حوالے سے امریکی محققین نے بتایا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بہت زیادہ وقت گزارنے سے کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔امریکی ٹیکساس یونیورسٹی کی نئی تحقیق نے سب کو حیران و پریشان کردیا ہے جس میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو اس کے استعمال میں بہت احتیاط برتنے کی ہدایت دی گئی ہے۔بری خبروں کو سرچ یا اسکرول کرکے تلاش کرنے والے افراد کے لیے ڈوم اسکرول کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔کورونا وائرس کی وبا کے بعد سے اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے، جرنل ہیلتھ میں شائع تحقیق میں 11 سو افراد کو ایک سروے کا حصہ بنایا گیا تھا۔سروے کے نتائج میں دریافت ہوا کہ 16.5 فیصد افراد بری خبروں کو تلاش کرنا پسند کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ بہت زیادہ تناﺅ اور انزائٹی کے شکار ہوگئے۔امریکا کی ٹیکساس ٹیک یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ 24 گھنٹے خبروں تک رسائی کے نتیجے میں کچھ افراد کو یہ دنیا تاریک اور خطرناک مقام نظر آتی ہے۔محققین کے مطابق ایسے افراد میں خبروں کو پڑھنے کا جنون پیدا ہوجاتا ہے تاکہ ذہنی دباﺅ کو کم کرسکیں مگر اس سے کوئی مدد نہیں ملتی۔سروے میں شامل 27.3 فیصد میں خبروں کو پڑھنے کا رجحان معتدل حد تک نقصان دہ تھا جبکہ 27.5 فیصد معمولی حد تک متاثر ہوئے تھے۔تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بہت زیادہ سرفنگ اور اسکرولنگ کرنے والے افراد میں ذہنی اور جسمانی صحت کے مسائل کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔درحقیقت محققین نے دریافت کیا کہ 74 فیصد نے ذہنی صحت جبکہ 61 فیصد نے جسمانی صحت کے مسائل کو رپورٹ کیا۔ درحقیقت یہ شرح توقعات سے زیادہ ہے اور یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ متعدد افراد سوشل میڈیا اور ویب سائٹس پر بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں اور خبروں کو بھی پڑھتے ہیں۔دنیا کی تمام چیزوں میں شر و خیر کا پہلو چھپا ہوتا ہے۔ اب یہ ہماری استعداد پر منحصر ہے کہ ہم کون سا پہلو اختیار کرتے ہیں۔ اگر کسی چیز کا استعمال صحیح اور جائز کاموں کے لئے کیا جائے جس سے دنیائے انسانیت فیض یاب ہوتی ہوتو ظاہر سی بات ہے کہ اس کے فیوض و برکات اور ثمرات بہت فائدے مند ہوں گے۔ یہی حال سوشل میڈیا کے استعمال کا بھی ہے۔ حالانکہ سوشل میڈیا کے موضوعات پر پہلے بھی میں نے بہت کچھ لکھا ہے۔سوشل میڈیا ایک ایسی ایجاد ہے جس کی افادیت و نقصانات دونوں ہیں، یہ دو دھاری تلوار ہے۔ حقیقتا اگر دیکھا جائے تو اس کے نقصانات اس کی افادیت سے زیادہ ہیں، چاہے وہ مذہبی ہوں، جسمانی ہوں یا معاشرتی و سماجی۔ اب یہ استفادہ کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کیسے مستفیض ہوتے ہیں؟ جب کہ حالات و واقعات شاہد ہیں کہ سوشل میڈیا کا جائز استعمال کرنے والے بھی ناجائز چیزوں سے اپنی حفاظت نہیں کرپاتے۔آج سوسائٹی کا کوئی بھی فرد والدین ہو، اولاد ہو، گھر کے بڑے بزرگ ہوں سوشل میڈیا کے اثرات سے بالاتر نہیں۔ اسی کے نتیجے میں خاموشی سے ان کا استحصال شدت سے ہوتا ہے۔جدید نیٹ ورک ٹیکلنالوجی اور سوشل میڈیا جیسے آزاد پلیٹ فارمز بڑی آسانی سے مہیا ہوجاتے ہیں۔ فی زمانہ سوشل میڈیا ایک ایسی لت بن چکا ہے، جس میں بچوں سے لے کر بوڑھوں اور عورتوں تک سب گرفتار ہیں۔ ماہرین کے نزدیک لت کی تعریف یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا عمل، جس کو کرنے سے آپ کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور آپ یہ بات جاننے کے باوجود اس عادت کو ترک کرنے سے قاصر ہوں۔ سماجی رابطے کے تمام ذرائع کا استعمال کرنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد کے لیے ان تمام ذرائع کا استعمال ایک نشہ بن چکا ہے، چاہے وہ مرد ہو یا زن ۔ اس میں ناجائز امور کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے بلاضرورت اس کے استعمال سے بچنا ہی بہتر ہے اور خواتین کے لیے بھی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے سوشل میڈیا کا استعمال ہو۔ چونکہ خواتین زیادہ تر سادہ مزاج کی ہوتی ہیں اور شاطر لوگوں کے بہکاوے میں جلدی آجاتی ہیں اس لیے خواتین بلا ضرورت محض وقت گزاری اور تفریح کی خاطر سوشل میڈیا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔البتہ بوقت ضرورت تعلیمی مقاصد یا رشتہ داروں سے رابطہ کے لیے استعمال کرسکتی ہیں لیکن ناجائز اور فحش کاموں سے بچنا بہر حال لازم ہے۔سوشل میڈیا جہاں اپنے آپ میں مفید ہے وہیں حد درجہ مضر و خطرناک بھی ہے۔زندگی میں جو کام سوشل میڈیا سے باہر کرنا مرد و زن پر حرام و ناجائز ہے وہ سوشل میڈیا پر کرنا بھی حرام و ناجائز ہی ہیں اور جو کام جائز ہیں وہ سوشل میڈیا پر بھی جائز ہو جاتا ہے۔ چونکہ سوشل میڈیا کی اس لہر سے بچنا آج کل کے دور میں انتہائی مشکل ہے۔ تو ایسے حالات اس فتنہ سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں اور اگر بہت زیادہ ضرورت ہوتو سوشل میڈیا کے منفی استعمال سے گریز، اس کے مثبت استعمال کی طرف رہنمائی اور اصلاحی امور کی انجام دہی کے لیے اس کا استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ موجودہ دور میں اصلاحی کوششوں کی شدید ضرورت ہے۔سوشل میڈیا نے جہاں مردوں کو اپنا گرویدہ بنایا ہے وہیں خواتین بھی اس سے پوری طرح مستفید ہو رہی ہیں، ایک وقت تھا جب صرف مرد حضرات انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال کرتے نظر آتے تھے، مگر آج یہ صورتحال ہے کہ خواتین بھی اس دوڑ میں پوری طرح شامل ہو چکی ہیں۔آج کے دور میں ہر کوئی اس کی لپیٹ میں آرہا ہے۔صورتحال یہ ہے کہ آج 80 فیصد فیصد گھروں کے ٹوٹنے میں سب سے اہم کردار اس سوشل میڈیا کا ہے جس نے میاں بیوی کے درمیان دوریاں پیدا کردی ہیں اور جس کی وجہ سے خاندان کے خاندان تباہ ہو رہے ہیں اور خانگی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے ۔ان ساری فتنہ انگیزیوں کے پیچھے جو آلہ کار ہے وہ بھی سوشل میڈیا ہی ہے۔ ایک حالیہ تحقیق میں دنیا کے بےس سے زیادہ ممالک میں لڑکیوں اور خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے آن لائن تشدد کے چونکانے والے اکاﺅنٹس کا انکشاف ہوا ہے جس میں واضح رپورٹنگ ، فحش نگاری ، سائبر ہراساں کرنا اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی دیگر اقسام شامل ہیں۔ خواتین کو اکثر و بیشتر سوشل میڈیا پر کبھی نہ کبھی گالم گلوچ، نازیبا الفاظ اور ٹرولنگ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ فیس بک کے ذریعے دوستی اور جنسی تشدد کا تناسب دنیا میں 39 فیصد ،انسٹاگرام23 فیصد، واٹس ایپ 14 فیصد، جیسے دیگر ٹولز، انسانی مواصلات کے لئے غیر معمولی چیزیں بن گئیں ہیں، ان کو مثبت مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ سنگین خطرات کا اصل ذریعہ ہیں جو بعد میں دوسری خطرناک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں