ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فضائی آلودگی میں اضافے سے شہریوں کی اوسط عمر چارسال کم ہورہی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاہور، شیخوپورہ، قصور اور پشاور جیسے شہروں میں رہنے والے لوگوں کی عمر چار سال کم ہوسکتی ہے۔انڈیکس کے مطابق فضائی آلودگی پاکستان میں صحت کے لیے دوسرا سب سے اہم خطرہ ہے، تاہم بنیادی طور پر دل کی بیماریاں سب سے زیادہ خطرے کی علامت ہیں۔رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ آلودگی میں اضافے سے دماغی صحت کے کئی امراض بھی لاحق ہوسکتے ہیں جن میں انزائٹی اور ڈپریشن شامل ہیں۔عالمی سطح پر جنوبی ایشیا کو سب سے زیادہ سنگین نتائج کا سامنا ہے، بنگلادیش، بھارت، نیپال، اور پاکستان جو دنیا کی تقریبا 25 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں میں سب سے زیادہ آلودگی پائی جاتی ہے۔پاکستان کی پوری 22 کروڑ آبادی ان خطوں میں مقیم ہے جہاں فضائی آلودگی کی سالانہ اوسط عالمی ادارہ صحت کی مقرر کردہ حد سے زیادہ ہے۔یہ معیار تجویز کرتے ہیں کہ پارٹیکیولیٹ میٹر کی سالانہ اوسط سطح پانچ مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سے کم رہنی چاہیے، اس کے علاوہ 24 گھنٹے کی اوسط نمائش 15 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ملک کی تقریبا 98.3 فیصد آبادی ان علاقوں میں مقیم ہے جہاں سالانہ اوسطا فضائی آلودگی پاکستان کے قومی فضائی معیار اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے طے کردہ فضائی آلودگی کی گائیڈلائنز سے زیادہ ہے۔اگر آلودگی کی موجودہ سطح اسی طرح برقرار رہی تو پنجاب، اسلام آباد اور خیبرپختونخوا میں رہنے والے افراد کی اوسط عمر میں تقریبا 3.7 سے 4.6 سال کی کمی واقع ہونے کا امکان ہے۔اس کے علاوہ 1998 سے 2021 تک پاکستان میں سالانہ اوسط ذرات کی آلودگی میں 49.9 فیصد اضافہ ہوا ہے، اس اضافے کے نتیجے میں شہریوں کی اوسط عمر میں 1.5 سال کی کمی واقع ہوئی ہے۔اگر پاکستان نے ڈبلیو ایچ او کی طرف سے مقرر کردہ سفارشات پر عمل کیا تو ممکنہ طور پرکراچی کے شہریوں کی متوقع عمر میں 3 سال کا اضافہ ہوسکتا ہے، اسی طرح لاہور کے رہائشی افراد کی عمر میں 8 سال کا اضافہ ممکن ہے، اور اسلام آباد میں رہنے والے افراد کی متوقع عمر میں تقریبا 5 سال تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ایک نئی تحقیق کے مطابق کرہ ارض پر ایک شخص کی صحت کے لیے فضائی آلودگی، سگریٹ نوشی یا شراب نوشی سے زیادہ خطرناک ہے اور اس حوالے سے چین میں نمایاں بہتری کے باوجود جنوبی ایشیا میں خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کی سالانہ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ گاڑیوں اور صنعت کے دھویں کے اخراج سے ہونے والی فضائی آلودگی، جنگل کی آگ اور آلودگی کے دیگر ذرائع باریک ذرات عوامی صحت کے لیے سب سے بڑا بیرونی خطرہ ہیں۔اگر دنیا عالمی ادارہ صحت کے رہنما اصولوں کی حد کو پورا کرنے کے لیے ان آلودگیوں کو مستقل طور پر کم کرے تو اعداد و شمار کے مطابق اوسطا ہر فرد کی متوقع عمر میں 2.3 سال کا اضافہ ہو گا۔باریک ذرات کا تعلق پھیپھڑوں کی بیماری، دل کی بیماری، فالج اور کینسر سے ہے، تمباکو کا استعمال، اس کے مقابلے میں عالمی متوقع عمر میں 2.2 سال تک کمی لاتا ہے جبکہ بچے اور زچگی کی غذائی قلت 1.6 سال کی کمی کے لیے ذمہ دار ہے۔اس حوالے سے سب زیادہ بوجھ ایشیا اور افریقہ اٹھاتے ہیں لیکن شہریوں کو بروقت، درست ڈیٹا فراہم کرنے کے لیے کچھ کمزور ترین انفراسٹرکچر موجود ہیں جنہیں پہلے ہی فلاحی کاموں کی انتہائی کم امداد میں سے کافی کم حصہ ملتا ہے۔مثال کے طور پر افریقہ کے پورے براعظم کو فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے تےن لاکھ ڈالر سے بھی کم رقم ملتی ہے۔شکاگو یونیورسٹی کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایئر کوالٹی پروگراموں کی ڈائریکٹر کرسٹا ہیسن کوف کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے درست معلومات دستیاب نہیں کہ فضائی آلودگی سب سے زیادہ کہاں خراب ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کہاں اور کس جگہ وسائل استعمال کیے جانے چاہئیں۔اگرچہ گلوبل فنڈ کے نام سے ایک بین الاقوامی مالیاتی اشتراک ہے جو ایچ آئی وی ایڈز، ملیریا اور تپ دق کے امراض سے نمٹنے کے لیے سالانہ چار ارب ڈالر تقسیم کرتی ہے لیکن فضائی آلودگی کے لیے اس طرح کی رقم مختص نہیں کی گئی۔ابھی تک فضائی آلودگی، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو اور کیمرون میں ایچ آئی وی ایڈز، ملیریا کے مقابلے میں اوسطا ایک شخص کی زندگی سے ایک سال زیادہ کم کر دیتی ہے۔عالمی سطح پر جنوبی ایشیا سب سے زیادہ متاثر خطہ ہے۔ بنگلہ دیش، بھارت، نیپال اور پاکستان آلودہ ممالک کی فہرست میں سب سے آگے ہیں۔بنگلہ دیش کے رہائشی جہاں پی ایم 2.5 کی اوسط سطح 74 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر تھی، اگر اسے عالمی ادارہ صحت کے 5 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر کے رہنما اصولوں پر لایا جائے تو وہ 6.8 سال کی زیادہ زندگی حاصل کر سکیں گے۔اس دوران بھارت کا دارالحکومت دہلی 126.5 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سالانہ اوسط ذرات کی آلودگی کے ساتھ دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر ہے۔چین نے فضائی آلودگی کے خلاف جنگ میں قابل ذکر پیش رفت کی ہے جہاں اس حوالے سے اقدامات 2014 میں شروع کیے گئے تھے۔2013 اور 2021 کے درمیان چین کی فضائی آلودگی میں 42.3 فیصد کمی آئی، اگر بہتری کا یہ عمل برقرار رہتا ہے تو اوسط چینی شہری 2.2 سال زیادہ زندہ رہ سکے گا۔امریکا کلین ایئر ایکٹ جیسی قانون سازی نے 1970 سے آلودگی کو 64.9 فیصد تک کم کرنے میں مدد کی جس سے امریکیوں کو متوقع طور پر 1.4 سال زیادہ عمر کے حصول میں مدد ملتی ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھتے درجہ حرارت کے سبب جنگل کی آگ کا بڑھتا ہوا خطرہ امریکا سے لے کر لاطینی امریکا اور جنوب مشرقی ایشیا تک آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔2021 کے سیزن میں کیلیفورنیا کے جنگل میں آگ لگنے کی وجہ سے پلوماس کانٹی کو عالمی ادارہ صحت کے رہنما خطوط کے مقابلے میں پانچ گنا سے زیادہ باریک ذرات موصول ہوئے تھے۔شمالی امریکا میں حالیہ دہائیوں میں فضائی آلودگی کی کہانی یورپ سے مماثلت رکھتی ہے لیکن مغربی اور مشرقی یورپ کے درمیان واضح فرق موجود ہے جہاں بوسنیا براعظم یورپ کا سب سے آلودہ ملک ہے۔چین اور بھارت کے ساتھ پاکستان فضائی آلودگی کے باعث سب سے زیادہ اموات کا شکار ہونے والا ملک ہے جب کہ ملک بھر میں لاکھوں لوگ ایسی ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں جس میں آلودگی اور خطرناک ذرات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔این جی او نے عوام میں فضائی آلودگی سے متعلق شعور و آگاہی بڑھانے اور ملک میں ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے آن لائن ایک مہم بھی شروع کی۔پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں کاروباری ماڈل کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کاروباری آپریشنز ذمہ داری کو بروئے کار لاتے ہوئے صفر کاربن فوٹ پرنٹس کو یقینی بنانے، انسانی زندگی اور کرہ ارض کی ماحولیات کی حفاظت کے لیے یقینی بنایا جا سکے۔ عالمی سطح پر منائے جانے والے کلین ایئر ڈے کا مقصد صحت، انسانی معیشتوں کے لیے صاف ہوا کی اہمیت کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔ورلڈ ایئر کوالٹی انڈیکس 2021 میں پاکستان کو دنیا کا تیسرا آلودہ ترین ملک قرار دیا گیا ہے جب کہ اس کے بڑے شہر خاص طور پر لاہور باقاعدگی سے دنیا کے زہریلے ترین شہروں میں شامل ہیں۔ فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کا آپس میں گہرا تعلق ہے جب کہ آلودگی کے تمام بڑے عوامل آب و ہوا پر اثرانداز ہوتے ہیں، ماحولیاتی بحران کے فرنٹ لائن پر موجود ممالک میں سے ایک ملک کے طور پر پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں ناکامی کے سنگین نتائج کا سامنا ہے، ان خطرناک نتائج کے باعث ملک میں درجہ حرارت میں شدت، خشک سالی اور سیلاب جیسے متواتر منفی موسمی حالات درپیش ہو رہے ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں اور فضائی آلودگی سے متعلق شعور اجاگر کرنے والی ٹوئٹر مہم پالیسی حلقوں، تجارتی بینکوں، کاروباری اداروں اور سول سوسائٹی سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ملک میں ذمہ دارانہ سرمایہ کاری کو فروغ دیں، پائیدار ٹرانسپورٹ کو فروغ دیں، قابل تجدید توانائی، فصلوں اور فضلہ کے انتظام کی جانب متوجہ اور منتقل ہوں، فضائی آلودگی پر نظر رکھیں، متعلقہ قوانین پر عمل درآمد کریں اور گاڑیوں، پاور پلانٹس، تعمیرات اور صنعتوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کم کرنے کے لیے قابل اعتماد منصوبے فراہم کریں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا کی ننانوے فیصد آبادی آلودہ ہوا میں سانس لے رہی ہے۔فضائی آلودگی کی وجہ سے ہر سال ستر لاکھ افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں جن میں سے نوے فیصد وہ لوگ ہیں جو کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں۔ فضائی آلودگی اور شدید گرمی کا شکار ہونے لوگوں میں موت کا خطرہ بےس فیصد زیادہ بڑھ جاتا ہے۔شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ گندی، آلودہ ہوا غریبوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے، اس کے مہلک اثرات خاص طور پر خواتین، بچے اور بوڑھے شہریوں کو سب سے متاثر کرتے ہیں، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق غیر محفوظ فضائی آلودگی کا شکار ہر دس میں سے ایک شخص انتہائی غربت میں زندگی گزارتا ہے۔فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے جبکہ تمباکو نوشی اور غیر صحت بخش کھانے کی وجہ سے مسائل میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔نئی گائیڈ لائنز میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار کو ہوا میں کم کرنے پر زور دیا گیا۔
