گلگت بلتستان کے معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ نے کہا ہے کہ کلاشنکوف کا دور ختم ہو گیا ہے دنیا کو فتح کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی پہ دسترس حاصل کرنا ہوگی۔علم کے ساتھ تربیت لازمی عنصر ہے تربیت کے بغیر علم بے معنی ہے۔میرٹ صرف سرکاری اداروں میں بھرتیوں میں نہیں زندگی کے ہر شعبے ضروری ہے۔ نیو بیکن پبلک سکول بسین میں سالانہ تقریب تقسیم انعامات میں بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے ایمان شاہ نے کہا کلاشنکوف سے دہشت گردی تو کی جاسکتی ہے لیکن دنیا کو فتح نہیں کیا جاسکتا ہے۔دنیا کو فتح کرنے کے لیے علم و حکمت اور جدید ٹیکنالوجی پہ دسترس حاصل کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم و تربیت گاڑی کے دو پہیے ہیں ہم نے کوالٹی ایجوکیشن پر تو توجہ دی لیکن تربیت کو نظر انداز کردیا جس کی وجہ سے معاشرے میں جرائم بڑھ گئے تربیت کے بغیر علم بے معنی ہے ،صرف علم ہی کافی ہوتا تو ظاہر جعفر اور نور مقدم کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں تھیں ظاہر جعفر نے نور مقدم کو قتل کرکے اسکے سر سے فٹبال کھیلا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ایکٹ کے ذریعے ریگولائز کیا جائے گا جس کے لئے باقاعدہ کےٹیگریز بنائی جائینگی۔جدےد ٹےکنالوجی سے استفادہ وقت کی اہم ضرورت ہے‘ماہرین کے مطابق جدید ٹیکنالوجی سے طلبا میں معلومات کے حصول کیلئے دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں جہاں ٹیکنالوجی انسان کی زندگی کا اہم جز بن چکی ہے اور اب اس ٹیکنالوجی کا استعمال دیگر شعبوں کی طرح تعلیم میں بھی ہو رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے تعلیم پر اثرات کے حوالے سے زیادہ نقطہ نظر یہی دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی دنیا کے اربوں انسانوں کو جدید اور بہتر سہولیات اور رہنمائی فراہم کر رہی ہے۔جدید دور کے تقاضوں کی اہمیت کے پیش نظر تعلیم میں مختلف شعبوں کے مطابق ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی ہے جس کا مقصد خاص طور پر طالبعلموں کی رہنمائی کرنا ہے۔ماہرین تعلیم بھی اب اس بات پر متفق ہیں کہ آج کل کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں تعلیم میں نئی رجحانات اور نئی تکنیکوں کا استعمال وقت کی ضرورت ہے۔اگر ہم پچھلے چند سالوں کے تعلیم میں جدید ٹیکنالوجی کی بات کریں تو ہمیں ایک واضح فرق نظر آئے گا کہ اس دور کی مقابلے میں آج کل کی تعلیم کے طریقہ کار اور معیار میں کتنی تبدیلی آگئی ہے۔جن تکنیکوں سے کبھی ہم آشنا نہیں تھے۔ اب ہماری آنے والی نسل فیضیاب ہورہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال تعلیم میں طلب علموں کی بہترین رہنمائی کے لئے کروائی جائے اور ان کا استعمال تعلیم کے علاوہ نصاب کی تیاری اور والدین کی رہنمائی کے لئے بھی ہو۔پاکستان میں تعلیمی شعبے میں ابھی تک جدید ٹیکنالوجی سے وہ استفادہ نہیں کیا جا سکا جو دیگر ممالک کررہے ہیں۔اسے ہمارا المیہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم مفلوج اور بوسیدہ حال ہے۔ ہم اس نظام تعلیم کے ذریعے آج تک ایسے سائنسدان، انجینئر یا ڈاکٹر پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں جو بہتر طور پر اپنا فریضہ انجام دینے کی قابلیت رکھتے ہوں اور اپنے ہنر میں بھی ماہربھی ہوں۔تعلیمی نظام، سیاست کے شکنجے میں بری طرح سے کچلا جارہا ہے۔ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ ہمارے تعلیمی مقاصد کیا ہوں گے اور نظام تعلیم کن اصولوں پر چلایا جائے گا ۔ غیر مناسب انتظامات اور نااہل افراد کی تعیناتی کی بدولت ہر سال نئی پالیسیاں آزمائی جاتی ہیں اور نتائج کوپس پشت ڈال کر اگلے سال ایک اور پالیسی متعارف کروادی جاتی ہے۔نت نئی بدلتی ہوئی تعلیمی پالیسیاں اساتذہ اور طالب علم کے معاشی اور اخلاقی فرائض پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ ان پالیسیوں کا مثبت فائدہ سیاسی قائدین تواٹھا رہے ہیں اور اساتذہ اور حصول علم کے متلاشیوں کو ایک روشن پاکستان کا خواب دکھا رہے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں تعلیمی مقاصد حاصل کرنے کے لئے ماحول اور حالات کی راہ ہموار ہونا ضروری ہے۔ تعلیم کے فرائض انجام دینے والوں کو اگر تعلیمی پالیسیاں بنانے دی جائیں تو یقینابہتری آئے گی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال لازمی ہو گیا ہے۔ ہمیں جدید طرز تعلیم کو اپنانا ہوگا اور کمپیوٹر، پروجیکٹرز، اور ٹیب کا استعمال لازم کرنا ہوگا۔ طالبہ و طالبات کو انٹرنیٹ اور سیل فونز کے ذریعے روزمرہ معاملات میں رہنمائی مہیا کرنی ہوگی۔ ایک ایسا ورچوئل ایجوکیشن سسٹم بنانا ہوگا جس کے ساتھ طالب علم ہمہ وقت رابطے میں رہیں اورمسلسل رہنمائی حاصل کریں۔ اس سلسلے میں فری انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنا چاہیئے۔ طلبہ کو انوائرنمنٹل سائنسز اور بزنس ایجوکیشن کی تعلیم پر فوکس کرنا ہوگا۔ تعلیم اب صرف پڑھنے لکھنے تک محدود نہیں رہ گئی۔ اب اس کا تقاضا بدل رہا ہے۔ اب اس کا مقصد صحت، تعلیم اور روٹی کا حصول ممکن بنانا ہے جس کا خواب ہمارے سیاسی قائدین ہمیں کسی اور تناظر میں دکھا رہے ہیں۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن کو فروغ دیا جانا چاہیئے تا کہ کارخانے سرگرم عمل ہو سکیں اور خیالات میں مثبت پہلو نمایاں ہوں۔ نان جویں کی فکر انسان کی صلاحیتوں کو ختم کرتی ہے اور اس کا آسان حصول قابلیتوں کو نکھارتا ہے۔ ایجوکیشن سسٹم تعلیم یافتہ افراد کو سونپ کر اسے سیاست سے پاک کر دیا جائے تاکہ تعلیمی انقلاب بپا ہو سکے ۔بلا شبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا بھر میں زندگی کے ہر شعبے میں کارکردگی اور رفتار کو بہتر بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔دنیا بھر میں مالی لین دین ، سپلائی کا پورا جال، ریل گاڑیوں اور جہازوں کا سفر، توانائی کا کنٹرول، دفاعی سامان اور دفاع کا پورا نظام، عدالتی نظام، محکمہ موسمیات کی تمام تر رپورٹس کی تیاری اور سیٹلائیٹ میں ہونی والی سرگرمیاں غرض ہر شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی محتاج ہےں۔تعلیمی ماہرین زیادہ سے زیادہ طالب علموں کی تعلیمی اداروں تک رسائی ممکن بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد حاصل کرنے پرزور دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے بڑھتے ہوئے اخراجات طلبا وطالبات کے لیے بھی اعلی تعلیم تک رسائی کو مشکل بنا رہے ہیں۔جس کی وجہ سے ماہرین اب بنیادی تعلیمی ڈھانچے میں جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلی کی بات کر رہے ہیں۔اس لئے موجودہ دور میں روایتی تعلیمی طریقہ کار کے مقابلے میں ٹیکنالوجی کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔اگرچہ ہمارے تعلیمی اداروں میں کسی حد تک نئی ٹیکنالوجی کا استعمال پہلے ہی موجود ہے اور بڑھ رہا ہے لیکن ہمیں اس سلسلے میں ان مقاصد کی نشاندہی کرنی ہے جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔جن میں زیادہ سے زیادہ طلبہ کا گریجویشن تک پہنچنا ، غیر متعلقہ نصاب کا خاتمہ، اعلی تعلیم تک رسائی کو آسان بنانا اور ایک بزنس ماڈل کی طرز پر تعلیمی اداروں کا چلانا اہم ہے جہاں صرف منافع ہی حاصل کرنا مقصود نہ ہو۔ اگر اعلی یونیورسٹیوں کی بات کی جائے تو وہاں صرف امرا ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ غریب طلبہ کی ایک بڑی تعداد ان میں جانے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ جب تعلیم ہی آن لائن ہو تو سب کے لیے اس کی رسائی اور قیمت ایک جیسی ہوگی۔ملک بھر کے تعلیمی ادارے جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اپنے طلبا کو تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ اساتذہ طلبا اور ان کے والدین کو ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے تربیت بھی فراہم کی جارہی ہے۔ بڑے تعلیمی ادارے خاص طور پر اپنے اساتذہ کو ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت فراہم کر رہے ہیں جس کی بدولت وہ اپنی درس و تدریس میں نمایاں بہتری لا سکتے ہیں۔ وہ اس جدید طریقہ تعلیم کے ذریعے نہ صرف اپنا علم اپنے طلبا و طالبات تک منتقل کر سکتے ہیں بلکہ انہیں بہت سے دوسرے معاون ذرائع سے بھی تعلیم فراہم کر سکتے ہیں۔ مثلا جس موضوع پر وہ طلبا کو اپنا لیکچر دے رہے ہیں۔ اسی موضوع پر دنیا کے نامور ماہرین اور اساتذہ نے کیا کہا ہے اورکیا لکھا ہے یہ بھی بتا سکتے ہیں۔ یو ٹیوب نے بہت سی مشکلات کو مزید آسان بنا دیا ہے۔ دنیا کے ہر موضوع پر بے شمار لیکچر اور معلوماتی ویڈیوز موجود ہیں طلبا ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ دنیا کی نمایا ں ترین یونیورسٹی کے نمایاں ترین اساتذہ اور پروفیسرز کے لیکچر یوٹیوب پر موجود ہیں جنہیں کسی بھی وقت ڈاﺅن لوڈ کر کے سنا اور دیکھا جا سکتا ہے۔ آج کے دور کی ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اس کی بدولت موجودہ مشکل ترین دور میں بھی طلباءو طالبات اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔ ایسے بہت سے سافٹ وئیر معرض وجود میں آ چکے ہیں جن کی بدولت ہم براہ راست بہت سے لوگوں سے بات کر سکتے ہیں۔ ویڈیو اور آڈیو لنک کی سہولت نے جغرافیائی فاصلے بے معنی کر دئیے ہیں۔ اب یہ ممکن ہی نہیں بلکہ بہت آسان ہے کہ ایک ویڈیو لنک کے ذریعے ایک استاد اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے بہت سے طلبا و طالبات کو پڑھا سکتا ہے اور ان کے سوالوں کے جوابات بھی دے سکتا ہے۔ اگرچہ ایسے بہت سے سا فٹ وئیر موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھانا بہت ضروری ہے۔
