اے نئے سال بتا تجھ میں نےا پن کےا ہے؟

اےک اور سال گزر گےا‘ نئی امےدےں‘نئی توقعات لےے نےا سال شروع ہو چکا ہے‘ وقت تےزی سے گزر رہا ہے ‘نیا سال ہمارے لیے مستقبل کی نیک خواہشات اور خوش آئند امیدوں کے ساتھ ہماری زندگی میں قدم رکھ رہا ہے۔انسان کی زندگی بڑی ناقابل یقین ہے۔ وہ تمام عمر اس ناقابل زندگی کو قابل بنانے میں لگا رہتا ہے اور پھر بھی اپنی زندگی کو اس قابل نہیں بنا پاتا جس زندگی سے وہ سکون اور اطمینان حاصل کرسکے۔ ساری زندگی ایک بھاگ دوڑ میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے جانے کا وقت ہوجاتا ہے اور زندگی برسوں کے فاصلے طے کرتے کرتے اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔اچھا برا وقت ہر انسان کی زندگی میں آتا ہے۔ کبھی حالات اسے زندگی میں اس دوراہے پر لے آتے ہیں جہاں زندگی کے سارے راستے بند نظر آتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیے پانی کو بھی بہنے اور اپنا راستہ بنانے کےلیے پتھروں سے ٹکرانا پڑتا ہے۔ اللہ کبھی بھی دوسرا راستہ کھولے بغیر پہلا راستہ بند نہیں کرتا۔ اس لیے انسان کی زندگی میں بہت سارے موڑ ایسے آتے ہیں جہاں اسے صبر، ہمت، توکل اور استقامت کے ساتھ ساتھ شکر گزاری کو بھی اپنانا پڑتا ہے۔ دکھ سکھ زندگی کا حصہ ہیں۔ دکھ میں صبر کرنا اور سکھ میں اللہ کا شکر ادا کرنا مومن ہونے کی نشانی ہے۔ اللہ نے جتنی نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں ہم سارا دن بھی ان کا شمار کرکے اس پاک ذات کا شکر ادا کرتے رہیں تو بھی کم ہے۔جو نعمتیں آپ کو صحت و تندرستی کی شکل میں دستیاب ہیں اس پر اپنے رب کے شکر گزار بنیں۔ جو نعمتیں آپ کو اچھے دوستوں کی شکل میں میسر ہیں ان پر احسان مند ہوں۔ وہ خواہشیں اور مرادیں جو اللہ نے آپ کی گزشتہ سال پوری کی ہیں اس پر اس رب اللعالمین کے آگے سر بسجود ہوں اور آنے والے نئے سال کےلئے پرامید ہوں۔گزرے ہوئے سال میں وہ تمام نعمتیں جو آپ نے حاصل کیں ان کا شمار کیجئے اور اپنے اللہ کے شکرگزار ہوں۔ کل نعمتوں کی کثرت اسی صورت میں ہوگی جب آپ پہلے حاصل شدہ نعمتوں کا شکر ادا کریں گے۔ نئے سال میں نئی کامیابیاں، نئے خواب اور نئے مقاصد اور نئی بلندیاں ہیں، ان تک کامیابی سے پہنچنے کا راز یہی ہے کہ شکر گزاری کو پورے دل و جان کے ساتھ اپنی شخصیت یا ذات کا حصہ بنایا جائے۔ یہ جذبہ آپ کے لیے آنے والی بے انتہا کامیابیوں اور کامرانیوں کے دروازے کھول دے گا۔ اپنی حقیقت تو ہم ہی جانتے ہیں۔ جو ہم نے سال کے شروع میں کرنے کا سوچا تھا، وہ سال کے شروع میں ہی کہیں رہ چکا ہوتا ہے۔ سال کے آخر میں وہی ہم ہوتے ہیں، وہی ہماری تھکن اور سستی ہوتی ہے۔ہماری نظریں اور دل پھر سے ایک نئی امید کے ساتھ نئے سال کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اس سال ہماری زندگی تبدیل ہوگی، لیکن ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ہم اپنے لیے حقیقی اہداف مقرر نہیں کرتے۔ہم جانتے ہیں کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے۔ پھر اس کے مطابق منصوبہ بندی کیوں نہیں کرتے؟آپ جو کر سکتے ہیں وہ آپ جانتے ہیں۔ اس کے مطابق ہی اپنے لیے اہداف بنائیں۔ ایسے اہداف جنہیں آپ حاصل کرسکتے ہوں اور جن کے حصول کے لیے آپ کو روزانہ جتنا کام درکار ہو آپ وہ کر سکتے ہوں۔ورنہ اگلے سال کے اختتام پر بھی آپ کا حال ویسا ہی ہوگا جیسا اس سال کے اختتام پر ہے۔دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تیوہار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہر ایک تیوہار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تیوہار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے، جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے؛ لیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی خرافات بھی شامل کردی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تیوہار وضع کیے انھیں میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے ۔در اصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کاایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے۔نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے‘ ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیو ائیر کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھے جاتے ہےں، جس میں شراب و شباب اور ڈانس کا بھر پور انتظام رہتا ہے اب مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور سال ختم ہونے کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے، ان مسلمانوں نے اپنی اقدارو روایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے۔ مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے یہی اسلامی کیلینڈر ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہوپاتا۔آج مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے ، زندگی اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یاکم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا؛ بل کہ افسوس کیا جاتاہے۔گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے، سال ختم ہوتاہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔حضرت علیؑ فرماتے ہیں کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔یہ مختلف طر ح کے جشن یہود و نصاری اور دوسری قوموں میں منائے جاتے ہیں؛ جیسے مدرز ڈے، فادرز ڈے، ویلنٹائن ڈے، چلڈرنز ڈے اور ٹیچرز ڈے وغیرہ؛ اس لیے کہ ان کے یہاں رشتوں میں دکھاوا ہوتا ہے۔ ماں باپ کو الگ رکھا جاتا ہے، اولاد کو بالغ ہوتے ہی گھر سے نکال دیا جاتاہے اور کوئی خاندانی نظام نہیں ہوتا؛ اس لیے انہوں نے ان سب کے لیے الگ الگ دن متعین کر رکھے ہیں جن میں ان تمام رشتوں کا دکھلاوا ہوسکے مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے اسلام نے سب کے حقوق مقرر کردیے ہیں اور پورا ایک خاندانی نظام موجود ہے اس لیے نہ ہمیں ان دکھلاوے کی ضرورت ہے اور نہ مختلف طرح طے ڈے منانے کی۔ بل کہ مسلمانوں کو اس سے بچنے کی سخت ضرورت ہے۔نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے۔ کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ہمیں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں قاس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتااس لیے ہم سب کو ایمان داری سے اپنا اپنا مواخذہ اور محاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے اس سے پہلے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے ۔اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی ، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے ۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بل کہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتاہے۔ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں بل کہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحاتِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قمری اور ہجری سال کی حفاظت کریں اور اپنے امور اسی تاریخ سے انجام دیں اس لیے کہ ہماری تاریخ یہی ہے ۔نئے سال کی تاریخ میں 2023 کی جگہ 2024 ہو گےا ہے۔ نئے سال میں کیلنڈر کا پیج بدل جاتا ہے۔ نئے سال میں آپ کی عمر کا ایک سال کم ہو جاتا ہے۔اس نئے سال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ آنے والی زندگی کی مہلت کو غنےمت سمجھ کر اپنے حقےقی مقصد کو سامنے رکھےں اور اس مقصد کے حصول کے لےے دن رات اےک کر دےں ےہی نئے سال کا پےغام ہے۔