نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے نئے سال کی آمد پر ہر قسم کی تقریب پر پابندی کا اعلان کردیا۔قوم کو پیغام میں انوار الحق کا کڑ کا کہنا ہے کہ قابض اسرائیلی فورسز فلسطین میں تباہی مچا رہی ہے، پوری پاکستانی قوم اور امت مسلمہ بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام خاص طورپر بچوں کے قتل پرگہرے دکھ میں ہے۔پاکستان نے فلسطین کے مظلوم عوام کیلئے تمام بین الاقوامی فورمز پرآواز اٹھائی ہے اور مستقبل میں بھی ایسا کرتا رہے گا۔ پاکستان نے اپنے فلسطینی بہنوں اوربھائیوں کی مدد کیلئے دو امدادی کھیپ بھیجی ہیں اور اب تیسری کھیپ جلد روانہ کی جائے گی۔ پاکستان فلسطینی بھائیوں کی بروقت مدد یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے انخلا اور غزہ کے زخمیوں کے علاج معالجے کیلئے مصر اور اردن سے مسلسل رابطے میں ہے۔ فلسطینیوں سے اظہاریکجہتی کیلئے سال نوپرتقریبات نہیں ہوں گی اور پوری قوم فلسطینیوں کےساتھ یکجہتی کیلئے کھڑی ہے۔انوار الحق کاکڑ نے عوام سے اپیل کی کہ غزہ کے مظلوم لوگوں کے ساتھ یکجہتی کااظہار کرتے ہوئے نئے سال کی آمد کوسادگی سے منائیں۔ےہ درست ہے کہ ہم میں اےک دوسرے کا احساس ختم ہو چکا ہے‘حتی کہ ہمارا اےک بھائی مشکل میں ہو تو دوسرا خوشےاں منا رہا ہوتا ہے۔ہم جانتے ہےں کہوقت تےزی سے گزر رہا ہے اےک کے بعد دوسرے سال کی آمد ہوتی ہے اور پھر نئے سال کا انتظار کےا جاتا ہے معلوم نہےں ےہ خوشی کا موقع ہوتا ہے ےا افسوس کا لےکن عمومی طور پر بے درےغ خوشی منانے والے پےش پےش دکھائی دےتے ہےں‘ےہ حقےقت ہے کہ حالات نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشکلات میں اضافہ کرنا ہے مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ برسوں گزرنے پر بھی بحےثےت قوم جمود کا شکار ہےں اجتماعی سوچ ختم اور انفرادی فائدے غالب ہوتے جا رہے ہےں ۔اگر نئے سال کو قوت گویائی مل جائے تو یقینا نئے سال کا جواب ہوگا کہ سال کی تبدیلی توفقط ہندسوں کے بدل جانے کا نام ہے اےک کا ہندسہ گیا دو کا ہندسہ آگیا۔ نیا ہو بھی کیسے سکتا ہے وقت کا گھوڑا تو اپنی رفتار سے دوڑ رہا ہے۔ سال تو وقت کی ایک اکائی ہے۔ اکائی کی تبدیلی کا حالات کے بدلنے سے کیا کام۔ البتہ ہندسے کی تبدیلی اس لیے اہم ہے کہ یہ ایک سنگ میل ضرورہوتا ہے۔ ہاں اگرکوئی حالات میں تبدیلی کی خواہش رکھتا ہے تو سب سے پہلے خود کو بدلے آس پاس خود بخود بدل جائے گا ۔جب اہل دانش سے سوال کیا گیا کہ نئے سال میں نیا کیا ہوتا ہے تو بڑا پیاراجواب ملا کہ نیا سال تین سو پینسٹھ نئے مواقع فراہم کرتا ہے کہ کچھ نیا کرلو۔ےہ شکوہ بھی ہوتا ہے کہ اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے۔ سال کی تبدیلی کے عمل کوموثراوریادگار بنانے کا اکسیر نسخہ ایک عرصہ سے اہل حکمت ودانش کے ہاتھ لگ چکا ہے اور اس کے استعمال سے عمدہ نتائج حاصل کررہے ہیں۔ کرہ ارض پر جب ایک گروہ جشن منانے میں اپنا وقت ضائع کررہا ہوتا ہے تودانشمند سال نومیں کامیابیاں سمیٹنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوتے ہیں۔ اس پلاننگ کا نام انہوں نے نئے سال کی قرار داد یعنی نیو ائیر ریزولیوشن رکھا۔ نئے سال کی یہ قرارداد کا مطلب کیا ہے، اس کو کیسے تیار کیا جاتا ہے ،اس پر عمل درآمد کیسے یقینی بنایا جاتا ہے، فرد کی کامیابیوں میں کیا کردار ادا کرتی ہے اورعملی زندگی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وقت بتاتا ہے ۔اس سارے عمل کے لیے جن بنیادی اجزا کی ضرورت ہے وہ نیت ، یقین محکم اور خود احتسابی ہے۔ خود احتسابی کردارسازی، شخصیت سازی اور کامیاب زندگی گزارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کائنات کے معلم اعظم ﷺ نے اس حوالے سے جو روشن اور عملی رہنمائی فرمائی وہ بڑی کمال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو روزانہ کی بنیاد پراحتساب کی نصیحت فرمائی۔ فرمان عالی شان ہے ہلاک ہوا وہ شخص جس کا آج اس کے کل سے بہترنہ ہوا ۔دیگرمذاہب کے نئے سال پر رقص وسرور کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں،چہارجانب شراب کے جام چھلکائے جاتے ہیں،نوجوانوںکوشباب میں مدہوش کیاجاتا ہے،موسیقی کے سراورتال پرخواتین کے تھرکتے ہوئے جسموں کی نمائش کی جاتی ہے،دنیاکاایک بڑاطبقہ نئے سال کے جشن میں ناچ،گانے،شراب و شباب،فحاشی،عریانیت اور جنسیت میں ڈوب جاتاہے۔اس دن شیطانیت اپنے عروج کے نقطہ انتہا پرہوتی ہے،عصمت دری اور عصمت فروش ایک نیاباب رقم کرتے ہیں،عورتوں اور مردوں کااختلاط ہوتاہے،یہ کیسا شیطانی جشن ہے دیگر مذاہب کاجہاں انسانیت دم توڑرہی ہو ؟جشن کایہ طریقہ یہودونصاری کاتوہوسکتاہے مگر اہل اسلام کانہیںکیونکہ اسلام تو اختتامی سال کے آخری اور نئے سال کے پہلے ہی دن سے قربانی وایثار کادرس دیتاہے۔اسلامی نیاسال توصالح انقلاب کا نقیب ہوتاہے اور اہل اسلام مغربی تہذےب کے دلدادہ نہیںبلکہ پروردہ آغوش غیرت ہوتے ہیں،عصمت فروش نہیں بلکہ عفت وعصمت کے محافظ ہوتے ہیں،تہذیب وتمدن کے نام پرانسانیت کی دھجیاں نہیں اڑاتے بلکہ اخلاق کی اعلی قدروں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔کاش جواسلامی تعلیمات کتابوں میں گم ہوکررہ گئی وہ ہماری زندگی میں بھی نظرآجائیں۔اسی لئے شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے کہاتھا :گفتار کے غازی بن تو گئے کردار کے غازی بن نہ سکے:آج جتنا نقصان اسلام کو اسلام کے ماننے والوں سے ہورہاہے شایدہی کسی اور سے ہو،آج قوم مسلم عیش وعشرت اور مغرب کی رسیا بن چکی ہے۔وہ طبقہ جو عصری علوم حاصل کررہاہے یاکرچکا ہے ان میں سے اکثر دین سے دور اور بیزار نظرآتے ہے۔آج ہم عیش کدوں میں بیٹھ کراسلام کی اشاعت کرناچاہتے ہےں۔کوئی بھی نظام ایثار وقربانی کے بغیرقائم نہیں ہو سکاہے ۔جب باطل نظریات ونظام کے ماننے والوں نے قربانیاں پیش کیں ، مصائب وآلام کی پرپیچ راہوں سے گزریں توہم کیوں صف آخر میں نظرآتے ہیں؟اسلام ایثارکی تعلیم دیتاہے۔ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو کچھ مجبوریوں کے تحت اور کئی ایسے ہیں جو کچھ مالی اور تجارتی لالچ کے تحت اور کئی ایسے ہیں جو محض دیکھا دیکھی اور دنیاوی رسم و رِواج کے لیے اپنے اِسلامی نظام تاریخ کو چھوڑ کر غیروں کے بنائے اور اپنائے ہوئے نظام تاریخ کے مطابق اپنے دِن، مہینے اور سال چلاتے ہیں اور مناتے ہیں۔مسلمانوں کے نظام تاریخ کے حساب سے سالِ نو ہو یا کِسی اور کے نظام تاریخ کے حساب سے، یا کسی جگہ رہنے والے لوگوں کے کسی اور نظام تاریخ کے حساب سے،ختم ہونے والے سالوں کو رخصت کرنے اور آنے والے یا شروع ہو چکے نئے سالوں کو خوش آمدید کہنے کے سلسلے میں ہم لوگ جو کچھ کرتے ہیں کیا اس کا کوئی مثبت نتیجہ بھی ہے؟ہماری زندگیوں کے وقت میں سے وقت کی ایک بہت بڑی اکائی گزر جانے کے بعد اور ویسی ہی ایک آنے والی نئی اکائی کی آمد کے بارے میں ہم کیا سوچتے ہیں، ہماری زندگیوں میں عملی طور پر ان کی کیا قدر و قیمت تھی ‘ ہے اور ہو گی؟ہم نے کبھی ان لوگوں کی عادات میں سے کسی اچھی بات کی طرف بھی توجہ دی ہے کہ وہ لوگ اپنے گزرے ہوئے وقت میں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا خوب اچھی طرح محاسبہ کرتے ہیں اور آنے والے وقت میں ان غلطیوں اور کوتاہیوں کو درست کرنے کی کوشش کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، قطع نظر اِس کے کہ ان کے ہاں اعمال کی درستگی یا نا درستگی کا معیار ہمارے اِسلام میں کیا حیثیت رکھتا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم صرف انہی کاموں اور حرکات کو کیوں اپناتے ہیں جن میں ہمارے دِین، دنیا اور آخرت کی ناکامی اور رسوائی ہی ہوتی ہے۔چند لوگوں نے جشن منانے کے علاوہ حقائق پر کڑی نظر کی اور گزرے ہوئے وقت میں اپنی غلطیوں اور اپنے نقصانات کا خوب اچھی طرح سے اندازہ کیا،اپنے ضائع شدہ، تباہ شدہ وقت کو اپنے حال اور اپنے مستقبل میں دوبارہ سے داخل کیا، ہر ایک شخص نے ان کی اِس مثبت سوچ کو درست مانا اور سب نے گویا ایک جاں ہو کر ایک لمبے عرصے تک اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے اپنے ذاتی اوقات میں سے دو دو گھنٹے روزانہ بلا معاوضہ کام کیا اور وہی جرمن تھوڑے سے ہی وقت میں ایک دفعہ پھر، بلکہ پہلے سے زیادہ شان و شوکت، علمی اور عملی قوت کے ساتھ ابھر پڑا۔آخر ہماری عقلوں پر ایسا پردہ کیوں پڑا ہوا ہے کہ ہم ان لوگوں کی گندگی کو تو اپناتے ہیں لیکن ایسے کاموں کی طرف دھیان نہیں دیتے جو کم از کم دنیاوی عزت اور ترقی کا سبب تو بن سکتے ہیں۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ہم نئے اوقات کی آمد کی خوشی میں مدہوش ہونے کی بجائے گزرے ہوئے وقت کے نتائج کی روشنی میں با ہوش ہو جائیں؟ ہمارے ہاں ہر سال اس دن کونیو ائیر نائٹ کے نام سے منایا جاتا ہے ،نئے انداز سے ،پہلے سے بڑھ کر ،بے جا اسراف سے ایک دوسرے سے بڑھ کر رنگ و نور کی جو محفلیں سجائی جاتی ہیں ۔ہمارے ہاں خوشی کا کوئی تہوار ہو ،اسلامی ہو یا ثقافتی کہا جاتا ہے کہ اس پر اتنے اخراجات کئے جا رہے ہوتے ہیں ، جتنی فضول خرچی ہم کرتے ہیں اس سے بہت سارے غریبوں کی مدد کی جا سکتی ہے ۔وزےر اعظم نے بالکل درست فےصلہ کےا ہے ہماے فلسطےنی بھائیوں پر اسرائےل گولہ و بارود کی بارش کر رہا ہے ہمےں ان کے غم میں برابر شرےک ہوتے ہوئے ہلہ گلہ کرنے کی بجائے ان کی مدد کے بارے میں سوچنا چاہےے۔
