محکمہ بلدیات کی اہمیت



وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا کہ ترقیاتی عمل کو تیز اور عوام کے مسائل کو جلد حل کرنے میں محکمہ بلدیات اہمیت کا حامل ہے۔ لوکل گورنمنٹ کے تحت تعمیر کئے جانے والے منصوبوں میں شفافیت کے پیش نظر منصوبوں کی نشاندہی متعلقہ ممبران اسمبلی سے کرائی جائے اور اسکے علاوہ محکمے کی استعداد کار کو بہتر بنانے کیلئے ممبران اسمبلی کے سالانہ ترقیاتی منصوبوں میں سے بھی 30 لاکھ تک کے منصوبوں کو محکمہ بلدیات کو دیا گیا ہے تاکہ چھوٹے منصوبوں کی بروقت تکمیل اور شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔وزیر اعلی نے کہاکہ ویسٹ مینجمنٹ کا منصوبہ صوبے میں صفائی کے حوالے سے اہم ہے۔ ویسٹ مینجمنٹ منصوبے کی پائیداری کیلئے وسائل میں اضافہ ناگزیر ہے۔ وزیر اعلی نے ہدایت کی کہ ویسٹ کی ری سائیکلنگ کے عمل کو شروع کرنے کیلئے محکمہ ضروری اقدامات کرے۔ شگر، کھرمنگ اور گانچھے میں ویسٹ کے ڈھانچے کو جلد شروع کیا جائے گا تاکہ ان اضلاع میں بھی صفائی کا بہتر نظام متعارف کرایا جاسکے جس کیلئے محکمہ پلاننگ کو جلد ریلیز فراہم کرنے کی ہدایت کی جائے گی۔ وزیر اعلی نے کہا کہ آر ڈی پی کے تحت تمام منصوبوں پر جلد کام شروع کیا جائے تاکہ مقررہ مدت میں ان منصوبوں کو مکمل کیا جاسکے۔ حقیقی معنوں میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کیلئے بلدیاتی انتخابات لازمی ہیں۔ صوبے میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہماری حکومت کے ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے کہاکہ عوام کو صفائی پینے کے پانی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے پانی کے نئے منصوبوں میں واش یونٹ کی سفارشات کو منصوبے کا حصہ بنایا جائے گا ۔ نئے پانی کے منصوبوں میں واش پروجیکٹ کی رائے کو لازمی قرار دی جائے گی تاکہ حفظان صحت کے مطابق صاف پانی عوام کو فراہم کیا جاسکے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ بلدیاتی انتخابات کی اہمیت مسلمہ ہے 'بلدیاتی نظام کو حکومت کی ریڑھ کی ہڈی اور جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے۔ جمہوریت میں بلدیاتی نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے بلکہ اسے جمہوریت کی روح کہا جاتا ہے۔چونکہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو قومی،علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہ براہ راست عوام کے مسائل کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں اور اگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلدیاتی اداروں کے ذریعے ان مسائل کا تریاق نہ کیا جائے تو یہی مسائل ایک خوفناک اژدھے کی شکل اختیار کرتے ہوئے بعض اوقات حکومتوں تک کو نگل جاتے ہیں۔بلدیاتی ادارے فرد اور ریاست کے درمیان پل کا کام دیتے ہیں۔اسی وجہ سے دنیا میں جہاں بھی بلدیاتی ادارے مضبوط ہیں، وہاں ریاست اور جمہوریت بھی مضبوط ہے۔بلدیاتی نظام حکومت کے بے شمار فوائد بڑی اہمیت کے حامل ہیں عوام کے مقامی مسائل کے حل کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے، لوگوں کے روز مرہ مسائل کا حل ان کی دہلیز پر ملتا ہے،سڑکیں بنتی اور پختہ ہوتی ہیں،پینے کے لئے صاف پانی کا بندوبست ہوتا ہے،محلے سے گندے پانی کے اخراج کے لئے نکاسی آب کا انتظام کیا جاتا ہے، چھوٹے چھوٹے معاملات اور تنازعات تھانے کچہری کے بجائے،محلے کی مصالحتی عدالت یا پنچائیت میں حل کیے جاتے ہیں۔ نچلی سطح سے سیاسی قیادت ابھرنے کے مواقع میسر آتے ہیں،بلدیاتی ادارے مقامی قیادت کے لئے نرسریوں کا کام دیتے ہیں۔یوں یہی ادارے پھر جمہوریت کی تجربہ گاہیں بھی ثابت ہوتے ہیں اور پھر یہ ریاست کے لئے اہم ترین اور مضبوط ترین ستون فراہم کرتے ہیں۔تیسرا اور سب سے اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ اس نظام کی وجہ سے اختیارات کی مرکزیت ختم ہوتی ہے۔اقتدار چند ہاتھوں سے نکل کر عوام میں منقسم ہو جاتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو جمہوریت کو آمریت سے ممتاز کرتی ہے۔جمہوریت کی ابتداہی بلدیات سے ہوتی ہے ۔ یونان اورروم کی انتہا کو چھونے والی سلطنتوں کی شروعات ہی شہری حکومت سے ہوئی تھی ۔ ہمارے آمر بھی اسی فلسفہ پر کاربند ہیں ۔ یہ جب آتے ہیں تو پہلے بلدیاتی انتخاب کراکے اسی کو اپنا الیکٹوریل کالج بنا لیتے ہیں ۔ لوکل جمہوریت شعور بیداری کا راستہ دکھائی دیتی ہے ۔ جمہور کے لئے آسانیوں کا اہتمام کرتی جس کے معاشرے میں اشتراک عمل کا احساس پروان چڑھتا ہے ۔جمہوری معاشرے میں ہال کونسل ، پریس کلب ، میڈیکل کونسل اور میونسپل کونسل عوام اور حکومت میں رابطے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بلدیاتی انتخاب فوجی آمروں کے دور میں ہوئے ۔ چاروں آمروں نے علیحدہ علیحدہ سسٹم عطا فرمائے ۔ چارقوتیں بیوروکریسی ، فوج ، ارکان پارلیمان اور سیاسی جماعتیں شہری حکومتوں کو مضبوط مستحکم کر سکتی ہیں مگر یہی چاروں قوتیں ہمارے بلدیاتی نظام کے زوال کا باعث ہیں کیونکہ یہ لوگ عام آدمی کے ہاتھ میں اختیار برداشت نہیں کر سکتے ۔ یہ افسوسناک اور جمہوریت گریز رویہ ہے ۔ تمام جماعتیں اور تمام جمہوریت کے چمپئن بلدیاتی جمہوریت سے خائف ہوتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے ابتدائی تاریخ پر روشنی ڈالی اور کہا کہ مقامی حکومتیں دراصل کسی ریاست کو قیادت فراہم کرنے کے لئے ایک نرسری کا کردار اداکرتی ہیں ۔ سائوتھ ایشیا انڈیا ، بنگلہ دیش ، سری لنکا کے علاوہ دیگر ممالک حکومت سے ہٹ کر ایک مضبوط شہری حکومتوں کا نظام قائم ہے ۔اس بار سیاسی حکومتوں کو موقع ملا تھا کہ مل بیٹھ کر ایک ایسا تاریخ ساز بلدیاتی نظام قومی مفاد میں تشکیل دیا جائے جو آنے والی نسلوں کیلئے یادگار ہو جائے ۔بلدیاتی اداروں کو جواب دہی کا خوف یا احساس بھی ہوتا ہے۔ لوگ عدالتوں میں مقامی حکومتوں کے خلاف شکایات لے جاتے ہیں۔ عدالتیں بھی شہریوں کی چارہ جوئی کے لیے احکامات جاری کرتی ہیں۔ دیگر اداروں میں بھی انہیں جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ میڈیا پر بھی بلدیاتی اداروں کی کارکردگی ہر روز زیرِ بحث آتی ہے۔ اس طرح بلدیاتی ادارے مسلسل اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں انہیں اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی مدد اور سیاسی تائید بھی حاصل ہوتی ہے۔بلدیاتی اداروں میں کارکردگی کی بنیاد پر مقامی سطح کے میئر یا کونسلر قومی سیاست میں کردار ادا کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں۔ ترکی کے طیب اردگان کی سیاست کا ستارہ اس وقت چمکا جب انہوں نے استنبول کے میئر کے طور پر متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ میئر اور کونسلر اعلی کارکردگی دکھانے اور اچھی سیاسی ساکھ یا سیاسی شناخت بنانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کے لیے مزید سیاسی کامیابیوں کے دروازے کھل سکیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کارکردگی ہی وہ کسوٹی ہے جس پر عوام اپنے نمائندوں کو پرکھتے ہیں۔میئر شہر کا منتخب چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے جو شہر کے روزمرہ کے کاموں کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ وہ مختلف محکموں کے سربراہان بشمول پولیس چیف تقرر اور برخاست کرسکتا ہے۔ میئر سالانہ بجٹ پیش کرتا ہے۔ شہروں کی ترقی، رہائش، نقل و حمل کی پالیسیاں، پارکوں یا لائبریریوں کا قیام اور منشیات کے مسائل پر قابو پانے کی پالیسیاں بنانے کا وہ ذمہ دار ہوتا ہے۔ وہ براہِ راست عوام کو جواب دہ بھی ہوتا ہے اور لوگوں کی اس تک رسائی بھی ہوتی ہے۔بلدیاتی اداروں کے ساتھ کام کرنے والے عملہ کو بھی ضروری تربیت چاہیے تاکہ وہ جدید شہری ضرورتوں اور تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوسکیں۔ سرعت کے ساتھ عوامی شکایات کا اِزالہ کرسکیں۔ روایتی کاہلی اور سستی کی بجائے عوام کی مشکلات کے جلد اِزالہ کے لیے کام کریں۔ دستیاب وسائل میں سے کیسے مالی وسائل اکھٹے کریں اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنے پر خرچ کریں بہت سارے مروجہ قوانین کو بھی بدلنے اور نئے حالات سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ زیادہ تر بلدیاتی اداروں یا ضلعی انتظامیہ کے متعلقہ قوانین اب اپنی اِفادیت کھو چکے ہیں۔یہ ایک اچھا نظام ہے اگر اس میں کرپشن نہ ہو اور منتخب نمائندگان اس نظام کو احسن طریقے سے چلائیں کیونکہ اگر عوامی مسائل عوامی سطح پر حل ہونے لگیں تو ملکی مسائل میں پچاس فی صد کمی کی جا سکتی ہے ۔ اگر عوامی سطح پر منتخب یہ نمائندے ، فراہم کی گئی رقوم کو احسن طریقے سے استعمال کریں تو کسی گلی محلے کی گلیاں کچی نہ ہوں اور نہ ہی کہیں نالیوں اور اس نوعیت کے دیگر مسائل ہوں۔ منتخب نمائندوں کا مقصد سیاست برائے سیاست نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا مقصد عوام کے مسائل کا حل اور عوام کی خدمت ہونا چاہیے ۔ پرویز مشرف جنہیں عام طور پر آمر کہا جاتا ہے، نے موجودہ جمہوریت سے بہت بہتر انداز میں اقتدار نچلی سطح پر نہ صرف منتقل کیا بلکہ اس نظام کو با اختیار بھی بنایا جس سے عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا۔گلگت بلتستان میں وزیراعلی نیممبران اسمبلی کے سالانہ ترقیاتی منصوبوں میں سے تیس لاکھ تک کے منصوبوں کو محکمہ بلدیات کو دیا گیا ہے تاکہ چھوٹے منصوبوں کی بروقت تکمیل اور شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے جس کے یقینا خوشگوار نتائج برآمد ہوں گے۔