وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ےوم پےدائش کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کا یہ دن ہمارے لئے بحیثیت قوم، انفرادی اور اجتماعی طور پر، خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ آج کا دن جہاں اپنے عظیم قائد کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع ہے وہاں ان کے افکار و سوچ کو تازہ کرنے اور اس نظریے کو بنیاد بناکر آگے بڑھنے کے عزم کا اعادہ کرنے کا بھی دن ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریز کے تسلط اور ہندو سامراج کی ریشہ دوانیوں کا شکار بننے والی مسلمان قوم کو قائد اعظم نے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور اپنی جمہوری تگ و دو کے نتیجے میں ایک ایسی ریاست کی تشکیل کو ممکن بنایا کہ جہاں رنگ و نسل، مذہبی، لسانی یا دیگر کسی تفریق کے بغیر تمام شہریوں کو زندگی گزارنے اور ترقی کے یکساں حقوق و مواقع حاصل ہوں۔ محنت، سچائی، دیانتداری، بے لوث جدوجہد اور جمہوری اقدار کی پاسداری قائد کی زندگی کے وہ چند زریں اصول ہیں جن کی تقلید کرتے ہوئے ہم ملک و قوم کو درپیش مسائل پر قابو پاسکتے ہیں اور پاکستان کو مزید مستحکم بناسکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بانی پاکستان کی تعلیمات اور ان کے فرمودات کی اہمیت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ آج سیاسی، معاشی، معاشرتی، مذہبی اور اہم ترین انتظامی امور میں ہمیں جن دشواریوں کا سامنا ہے ان پر عملدرآمد کے ذریعے قابو پاکر ہی اقتصادی استحکام اور ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔درےں اثناءوزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے مسیحی برادری کو کرسمس ڈے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسیحی برادری کا ملک کی تعمیر و ترقی میں انتہائی مثبت کردار ہے۔ وزیر اعلی نے پاکستان کے تمام مسیحی شہریوں کو کرسمس کی خصوصی مبارک باد دی ہے۔ وزیر اعلی نے کہا کہ قیامِ پاکستان سے لے کر تعمیرپاکستان اور ملکی ترقی میں مسیحی برادری نے قابل فخر کردار ادا کیا ہے پاکستان اقلیتوں کے لیے ایک محفوظ ملک ہے۔بلاشبہ وزےراعلی گلگت بلتستان نے بجا کہا ہے کہ قائد اعظم کے افکار ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ قائد کے زریں اصولوں ایمان ، اتحاد اور تنظیم پر چلنے والا یقینا کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ قائد اعظم کی شخصیت ہمارے لئے لائق تقلید ہے۔ ہمیں ان کی زندگی سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیئے اور ان کے نقش قدم پر چل کر وطن عزیز کو عروج کی اس منزل تک لے جانا چاہئے جس کے لئے ہمارے قائد نے بے مثال قربانیاں دیں۔ ہمارا اولین فرض حصول تعلیم ہے جو آپ کی ذات ،والدین اور پوری قوم کی جانب سے آپ پر عائد ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں نوجوان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا میں وہ ملک خوش قسمت تصور کیا جاتا ہے جس کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب زیادہ ہو۔ وطن عزیز کی ترےسٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہم قائداعظم کے نظریات اور اصولوں پر عمل پیرا ہوجائیں تو دنیاکی کوئی طاقت ہمیں ترقی اور خوشحالی کے حصول سے نہیں روک سکتی ۔ہم اپنے قائد کوبصد عقیدت و احترام سلام پیش کرتے ہیں اور یہ عزم کرتے ہیں کہ انہوںنے جو ذمہ داری ہمیں سونپی ہے، ہم اسے خلوص نیت کے ساتھ پورا کریں گے۔ ہماری انفرادی کاوش ہی خدمت کے اس جذبے کی عکاس ہے جووطن عزیز کو ترقی اور کامیابی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ عوام نے غربت افلاس تنگدستی اور دیگر مسائل و مشکلات کو برداشت کیا اور وطن عزیز کی سلامتی و تحفظ کے لئے قربانیوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے اس نازک مرحلے میں حکمرانوں اور ذمہ داران کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری دیانت داری سے ادا کرناہوں گی۔قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو داخلی طور پر مضبوط مستحکم اور خوشحال بنانے کے لئے لازم ہے کہ حکمران طبقات اچھے اور بروں کی تمیز کو یقینی بنائیں تاکہ معاشرے سے بگاڑ انتشار اور انارکی کا خاتمہ ہوسکے ۔پاکستان کا یہی مقصد ہے اور اگر ہم متحد ‘منظم اور اپنے مقصد کے وفا شعار رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہم اپنی منزل پالیں گے اور خود کو اپنے اپنے حیرت انگیز اور شاندار ماضی کا اہل ثابت کردیں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت قائداعظم نے صوبہ سرحد مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام پےغام میں کہا جب ہم اپنے آپ کو پہچان لیں گے تو ہمیں اپنی خوبیوں اور برائیوں کا خود بخود احساس ہوجائے گا، چناںچہ ہم ان کی تلافی کرسکیں گے۔ قائداعظم ایک سچے اورکھرے مسلمان تھے ۔ایک قائد کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے عوام کو تلقین کرتے رہے کہ وہ اس کی تعلیمات پر عمل کریں۔ انہوں نے کہا جب آپ لوگ واپس جائیں تو میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا کہ از راہ عنایت طبقاتی مفادات ، بغض وحسد ، قبائلی نظریات اور خود غرضی کی بجائے ،اسلام اور اپنی قوم سے محبت جاری و ساری کردیجئے کیوںکہ ان برائیوں نے آپ کو مغلوب کرلیا ہے لیکن مجھے روشنی نظر آتی ہے ایک نہایت تابناک روشنی ۔ہمارے اپنے قوانین ہیں، اپنی ثقافت اور زبان ہے ۔ ہماری اپنی تقویم ، نام، سماجی زندگی ، طرز تعمیر اور موسیقی ہے ۔ مختصر یہ کہ ہمارے معاشرے کا پورا سماجی اور اقتصادی ڈھانچہ ہندوﺅں سے یکسر مختلف ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندو معاشرے کا اپنا ڈھانچہ ہے جو ہمارے ڈھانچے سے مختلف ہے ۔ یہ نہ صرف مختلف ہے بلکہ بعض معاملات میں ایک دوسرے کی ضد ہے ۔ ہندو بت پرستی کے قائل ہیں ، ہم نہیں ہیں۔ ہم مساوات ، حریت اور بھائی چارے کے قائل ہیں۔ ان پر ذات پات چھائی ہوئی ہے اور ذات پات کے بندھن میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے لئے یہ کس طرح ممکن ہے کہ صرف ایک بیلٹ بکس میں ہم اکٹھے ہوجائیں۔ دہلی میں 25اپریل 1943 کو مجلس عامہ آل انڈیا مسلم لیگ سے بند کمرے میں خطاب کرتے ہوئے فرمایااب میں بلوچستان کی اقلیتوں کے بارے میں چند الفاظ کہناچاہتاہوں۔ یہاں سکھ ہیں، ہندو اور دیگر غیر مسلم اور عیسائی وغیرہ ہیں۔ ہماری یہ عادت نہیں کہ ہم وہ بات کریں جو ہماری مراد نہ ہو یا مطلب ایک بات سے ہو اور دوسری بات کہیں ۔ ہم نے اپنے موقف کی وضاحت کردی ہے ، اب میں یہاں ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ ضروری ہو اور اگر یقین دہانی کی احتیاج ہو تو میں صدر آل انڈیا مسلم لیگ کی حیثیت سے اپنا موقف دہراتاہوں۔ میں بلوچستان میں اقلیتوں سے کہتا ہوں کہ ہم دیکھیں گے کہ اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ اور عادلانہ سلوک کیا جائے۔ ہم اس کا اہتمام کریں گے کہ اقلیتوں میں تحفظ اور اعتماد کا شعور پیدا ہوجائے۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ کسی بھی مہذب حکومت کا بنیادی فریضہ ہے۔ ہمارے پیچھے ارفع ترین روایات موجود ہیں اور اس امر کی شہادت مورخین نے دی ہے۔ صرف مسلمان مورخین نے نہیں بلکہ غیر مسلم مورخین نے بھی دی ہے کہ عام طور سے جہاں کہیں بھی مسلم حکمرانی تھی وہاں اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ اور عادلانہ سلوک روا رکھاگیا۔ تمام جھوٹا پروپیگنڈہ جسے کانگریس کی طرف سے تخلیق کیا گیا اس کا مقصد صرف اقلیتوں کو خوفزدہ کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مسلم اکثریتی حکومت قائم ہوگئی تو اقلیتوں کا کیا ہوگا؟ اس طرح وہ ہر طرح کی دہشت کا تاثر دیتے ہیں۔ یہ کانگریس کے پروپیگنڈے کا ایک اور ڈھب ہے کہ وہ اقلیتوں کو کان سے پکڑ کر مسلمانوں کے خلاف کھڑا کردیں۔آپ نے فرماےا پاکستان میں ہندو اقلیتوں کو یہ یقین رکھنا چاہیئے کہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ اقلیتوں کو تحفظ اور اعتماد کا مکمل شعور عطاکیئے بغیر کوئی مہذب حکومت کامیابی کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ انہیںیہ احساس دلادینا چاہیئے کہ کاروبار شہریاری میں وہ بھی شریک ہیں اور ایسا کرنے کے لیے حکومت میں ان کی مناسب نمائندگی ہونی چاہیئے۔ پاکستان انہیں یہ نمائندگی دے گا۔ 11اکتوبر1947کو کراچی میں سول اور عسکری بری، بحری اور فضائی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ایک دوسرا مسئلہ جو میرے ذہن میں ہلچل ڈال رہاہے، وہ اقلیتوں کے ساتھ سلوک کا ہے۔ میں نے بار بار نجی طور پر بھی اور پبلک بیانات میں بھی یہ واضح کیا ہے کہ ہم اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں گے اور یہ تو میرے کبھی وہم و خیال میں بھی نہیں آیا کہ ہم انہیں پرے دھکیل دیں ۔ پاکستان میں ہم اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت کریں گے اور ان سے پورا پورا انصاف کریں گے۔ ہم انہیں پاکستان چھوڑدینے پر مجبور نہیں کریں گے ۔ جب تک وہ مملکت کے وفادار رہیں گے انہیں ان کے حقوق ملیں گے۔ ان سے ساتھ دیگر شہریوں جیسا برابر کا سلوک ہوگا۔ مختلف عقائد کی حامل اقلیتیں جو پاکستان یا ہندوستان میں رہتی ہیں ان کی متعلقہ ریاست کی شہریت اس بنا پرختم نہیں ہوجاتی کہ وہ کسی خاص مذہب، عقیدے یا نسل سے تعلق رکھتی ہیں ۔ میں نے بار بار اس امر کو واضح کیا ہے، خصوصا دستور ساز اسمبلی میں اپنی افتتاحی تقریر میں کہ پاکستان میں اقلیتوں سے اپنے شہریوں جیسا سلوک ہوگا اور انہیں وہ سب حقوق و مراعات حاصل ہوں گے جو کسی بھی فرقے کو حاصل ہوں۔ پاکستان اس پالیسی پر عمل پیرا رہے گا اور ہر ممکن سعی کرے گا جس سے پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں میں اعتماد اور تحفظ کا احساس پیدا ہو۔اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر قائداعظم کا تصور عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔ چونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے لہذا پاکستان کا آئین اقلیتوں کو بھر پور تحفظ فراہم کرتا ہے۔
