بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا147واں یوم پیدائش آج انتہائی عقیدت و احترام اور ملی جوش و خروش سے منایا جارہا ہے، برصغیر پاک و ہند کے مسلمان عظیم قائد کی بدولت آج ہم آزادی کی زندگی گزار رہے ہیں،بانی پاکستان کے یوم پیدائش کے سلسلے میں گلگت بلتستان سمیت ملک بھر میں خصوصی تقریبات، سیمینارز، کانفرنسز، مذاکروں، مباحثوں کا انعقاد کیا جائے گا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کے سلسلہ میں کیک کاٹے جائیں گے اوربابائے قوم کو ان کی گراں قدر خدمات پر خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو کراچی میں پیدا ہوئے، کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ شخص برصغیر کے مسلمانوں کی زندگی تبدیل کر دے گا۔ اپنی انتھک جدوجہد بہترین قیادت اصولوں پر ڈٹے رہنے والی شخصیت نے وہ کارنامہ سرانجام کر دکھایا جو رہتی دنیا تک مسلمانوں کے لئے یادگار رہے گا۔ ایک وکیل کی حیثیت سے پیشہ وارانہ کیریئر کا آغاز کرنے والے محمد علی جناح نے انڈین نیشنل کانگریس اور پھر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہمیشہ اصولوں پر مبنی سیاست کی۔اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے کام کیا لیکن جلد ہی یہ بھانپ لیا کہ ہندو اکثریت میں رہ کر مسلمانوں کو برصغیر میں ہمیشہ کیلئے محکوم قوم بناکر رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کی جدوجہد قلیل عرصے میں مسلمانوں کو ان کی جداگانہ شناخت‘ نظریات‘ ثقافت اور روایات کو پروان چڑھانے کے لئے علیحدہ مملکت خداد کی صورت میں سامنے آئی۔قائداعظم محمدعلی جناح دنیا کی چند ان شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں کو علیحدہ وطن دلایا۔ مسلمانوں پر ان کا یہ عظیم احسان کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ آپ کے والد کا نام پونجا جناح تھا آپ کی پیدائش پر آپ کا نام محمد علی رکھا گیا ۔ والدین نے آپ کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جس کے لیے آپ کو چھ سال کی عمر میں مدرسے میں داخل کیا گیا بعد میں ابتدائی تعلیم کے لیے گوگل داس پرائمری سکول داخل کیا گیا اس کے بعد سندھ مدرسہ سے پندرہ سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا 1892میں وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے لندن چلے گئے 1896میں بیرسٹر بنے جس کے بعد آپ لند ن سے کراچی واپس تشریف لے گے 1902میںوکالت کے سلسلے میں آپ ممبی تشریف لے گئے اور یہاں قائد اعظم محمد علی جناح نے سخت مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود بہت حوصلہ اور بہادری کے ساتھ کام کیا قائداعظم نے دسمبر 1904میں ممبی میں کانگریس کے بیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کر کے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے 1906میں آل انڈیا کانگریس میں شمولیت اختیار کی ۔محمد علی جناح 60 رکنی امپیریل مشاورتی کونسل کے ممبر بن گئے قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے بڑے سرگرم تھے اس سلسلے میں انہوں نے کم عمر ی کی شادی اور مسلمانوں کے وقف کے حق کو قانونی شکل دینے کے لیے کام کرتے رہے 1913میں محمد علی جوہراور سید وزیر حسن اور دیگر مسلم قیادت آپ کو مسلم لیگ میں شمولیت پر آمادہ کیا لیکن چونکہ اس وقت تک مسلم لیگ بڑے نوابوںکی جماعت تھی اس لیے آپ کا رجحان کانگریس کی طرف رہا جس کے لیے آپ نے مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں مثیاق لکھنو ہوا۔ محمد علی جناح ان دونوں جماعتوں میں اتحاد کے علمبردار کی حیثےت حاصل تھی پہلی جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد برطانوی حکومت اپنے وعدوں سے منحرف ہو کر رولٹا ایکٹ جیسا قانون نافذ کر کے سیاسی اور سماجی سرگرمیوں پر پاپندی لگا دی ۔جس سے سارے برصغیر میں تحریک شروع ہوگی اور حکومت نے مارشل لا نافذ کر دیا اس تحریک کی قیادت مسٹر گاندھی نے کی۔ آپ نے کانگریس میں اس کی مخالفت کی آخر یہ تحریک ناکام ہوگئی 1920میں قائداعظم کانگریس سے ہندو کی ذہنیت کو سمجھتے ہوئے الگ ہوگئے 1930میں لندن میں دوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے اس میں علامہ محمد اقبال بھی شریک تھے جنہوں نے 1930میں مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد میں اپنا خطبہ صدرات میں ایک متحد ہ اسلامی ریاست کے قیام کی نشاندہی کی اس کے بعد دو رہنماﺅں کی ملاقاتیں ہوئیں جس میں علامہ اقبال نے اپنے نقطہ نظر کی مزید وضاحت کی قائد اعظم برصغیر کی سیاست سے بیزار ہو کر واپس انگلستان چلے گئے 1933میں لیاقت علی خان جب لندن آئے انہوں نے قائداعظم سے ملاقات کی اور برصغیر آکر مسلمانوں کی قیادت کرنے کی درخواست کی اس پر آپ 1934میں برصغیر تشریف لائے یہاں آکر آپ نے مسلم لیگ کو بحےثیت جماعت متحرک اور منظم کیا ۔قائداعظم محمد علی جناح 1935میں ممبی کے مسلم لیگ کے اجلاس پارٹی کو منظم کرنے کے اختیار دیے گئے جس پر آ پ نے تمام برصغیر کا دورہ کیا ۔اس دورے کے دوران آپ نے مسلمانوں کو آنے والے خطرات اور اس سے نمٹنے کے لیے تیار کیا ۔27مئی 1937کو قائداعظم کے نام اپنے ایک خط میں علامہ اقبال نے اس بات کا اظہار بھی فرمایا کہ اسلام کے لیے سوشل ڈیموکریسی کی کسی شکل میں ترویج جب اسے شریعت کی تائید ومدافعت حاصل ہو حقیقت میں کوئی انقلاب نہیں بلکہ اس کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع کرنا ہوگا ۔مسائل حاضرہ کا حل مسلمانوں کے لیے ہندﺅوں سے کہیں زیادہ آسان ہے لیکن جیسا کہ پہلے عرض چکاہوں کہ اسلامی ہندوستان میں ان مسائل کا حل آسانی سے رائج کرنے کے لیے ملک کی تقسیم کی ذریعے اسلامی ریاست کا قیام اشد ضروری ہے ۔برصغیر کی ملت اسلامیہ کا قافلہ جو اٹھارہویں صدی سے اپنی بقا اور تہذیبی اثاثوں کے تحفظ کے لیے بھٹک رہا تھا اور تقریبا ڈیڑھ صدی سے اپنی منزل کے تعین کے باوجود سفر کی حکمت عملی سے بے خبر اور راستے کی ہر پگڈنڈی کو اپنے رہنماﺅں کی پسند کے سہارے طے کرتے ہوئے کولہو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں گردش کر رہا تھا اور صورتحال یہ تھی پوری ملت اسلامیہ برصغےر اسلام کے ساتھ پوری وابستگی اور مکمل خود سپردگی کے باوجود قیادت کے فقدان کا شکار تھی اس کا حال اس راہرو کا سا تھا جس کی تصویر اس شعر میں نظر آتی ہے کہ چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی را ہبر کو میںپھر اللہ تعالی کی مہربان ہوئے مایوسی کے ان لمحات میں کہ جو تحریک خلافت کے ناکام ہونے کے بعد 1924سے 1936تک ملت اسلامیہ پر طاری تھے روشنی کی ایک کرن پھوٹی اور 1908کی مسلم لیگ جوبڑے لوگوں کی جماعت سمجھی جاتی تھی۔قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانان برصغیر کی آنکھوں کا تارا بن گئی اور اس طرح ملت کا دل افسردہ اور پاشکستہ قافلہ سخت جاں جوا گرچہ تھا تو عشق کی وادی ہی ہیں مگر رہنماﺅں کی جلد بازیوں سے دلبرداشتہ ہو کے کچھ حوصلہ ہار بیٹھا تھا دوبارہ کمر بستہ ہوا اور ایک تازہ ولولے کے ساتھ قائد اعظم کی رہنمائی میں راس کماری سے لے کر پشاور تک رواں دواں ہو گیا۔ وہ مسلمان ملت برصغیر جس میں شرح خواندگی تین فیصد سے بھی کم تھی مگر دنیاوی اعتبار سے سادہ اور ناخواندہ مسلمانوں نے جو سامراجی قوتوں کے ستائے ہوئے اور ہندﺅں کی تنگ نظری چھوت چھات کے ذلت آمیز رویوں اور سودی ناانصافیوں کا شکار تھے۔ انہوں نے تاریخ کا وہ عظیم الشان سفر اپنے عظیم قائد کے ساتھ طے کیا اور پوری دنیا کو حیران کر دیا جس نے اقوام عالم کی تاریخ میں بالکل ہی نئے اور انوکھے انداز انقلاب کا آغاز کر دیا ۔23مارچ 1940کے اجلاس میں جب قرار داد منظور ہوئی ۔قائد اعظم نے فرمایا اسلام اور ہندو دھرم محض مذہب نہیں درحقیت دو مختلف معاشرتی نظام ہیں اس لیے خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہیے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت کی تشکیل کر سکیں گے ظاہر ہے کہ پاکستان کسی فوجی مہم جوئی کے ذریعے وجود میں نہیں آیا اور نہ ہی کسی نے اسے بزور طاقت اور بذریعہ ہتھیار حاصل کیا بلکہ ووٹ کے ذریعے بننے والی دنیا کی تاریخ کی واحد منفرد ریاست ہے 20مارچ 1941کو قائد اعظم نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا خوب یاد رکھے یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے یہ سلطنت مغلیہ کے زوال سے لیکر اب تک سب سے بڑا کام ہے جو آپ نے اپنے ذمے لیا ہے اچھی طرح سمجھ لیجے کہ منزل تک پہنچنے کے لیے تمام وسائل کو کام میں لانا پڑے گا ہر ممکن طریقے سے مکمل تیاری کرنی پڑے گی 15 نومبر1942 کے قائداعظم کے بصیرت افروز اور چشم کش خطاب میں بھی آپ نے فرمایا کہ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا ؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن مجید میں ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا ۔یہ ہیں ہمارے قائداعظم محمد علی جناح جن کو جھوٹ سے نفرت ہے اور وہ کسی بھی دباﺅ میں آکر اپنی رائے کے اظہار میں کبھی بھی کسی مداہنت سے کام نہیں لیتے آج پھر اس ملت پاکستان کو ایک ایسے ہی رہنما کی ضرورت ہے یہ قوم پھر اس رہنما کو مایوس نہیں کرے گی۔
