آغاخان رولر سپورٹ پروگرام کے زیر اہتمام گلگت میں بااختیار خواتین کے نام سے خواتین کا سالانہ کنونشن منعقد کیا گیا۔ کنونش میں گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع سے خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر معاون خصوصی برائے اطلاعات گلگت بلتستان ایمان شاہ نے روزنامہ کے ٹو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آغاخان رولر سپورٹ پروگرام گلگت بلتستان میں 1983 سے تسلسل کے ساتھ کام کررہا ہے۔ تنظیم نے خواتین کو معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر خودمختار بنانے کے حوالے سے جو کام کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ آج گلگت بلتستان کی خواتین زندگی کے تمام شعبوں میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ گلگت بلتستان کی خواتین نے ترکھان اور مستری جیسے مشکل شعبوں میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے شاید دوسرے صوبوں کی خواتین ان شعبوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتیں۔ مجموعی طور پر گلگت بلتستان کی تعمیر اور ترقی میں آغاخان رولر سپورٹ پروگرام کا کلیدی کردار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دین اسلام نے خاتون کو جو مرتبہ اور مقام دیا ہے اس مقام کا کوئی دوسرا مذہب تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ اسلام نے بتایا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ ایک ماں اگر اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرتی ہے تو وہ پورے معاشرے پر احسان کررہی ہے۔ اگر کسی بچے کی تربیت اچھی نہیں ہوتی تو وہ معاشرے کے لئے عذاب بن جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایک غریب گھرانے کی خاتون اچھی ہو تو وہ گھر جنت سے کم نہیں اور اگر محلات میں رینے والی خاتون اچھی نہیں تو وہ گھر بھی جنم سے کم نہیں۔ اچھے معاشرے کی تشکیل میں ماوں کلیدی کردار ہوتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ عورت کے بغیر نامکمل ہے۔ عورت کی سیاسی و سماجی حیثیت تسلیم کئے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا،لیکن بد قسمتی سے ابھی تک خواتین کو وہ اختیار نہیں مل سکا،جو اسے ملنا چاہئے۔ اسے برابری کی بنیاد پر تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے، نہ صحت کی سہولتیں۔ بیشتر ملازمتوں کے دروازے صنفی بنیاد پر ابھی تک بند ہیں۔اس حقیقت سے نظر تو نہیں چرائی جا سکتی لیکن یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ اس خطے میں خواتین کو کم تر درجہ دیا جاتا ہے۔ اس کے آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں، یہاں خواتین کو قدم قدم پر تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خواتین کی ترقی پورے جنوبی ایشیا کا اجتماعی مسئلہ ہے۔ یہاں کا مرد ذہنی طور پر خواتین کی آزادی ماننے سے انکاری ہے۔ وہ یہ بات قبول ہی نہیں کر پارہا کہ عورت انسان ہے۔دنیا میں ہونے والی بے تحاشا ترقی کے باوجود جنوبی ایشیا میں خواتین کے لئے حالات سازگار نہیں ہو سکے۔اس خطے میں کم عمر خواتین کی جبری شادی کردی جاتی ہے۔ پچاس فیصد خواتین کی شادی اٹھارہ سال سے کم عمر میں ان کی مرضی کے خلاف کر دی جاتی ہے۔یہاں بچوں کی پیدائش کے معاملے میں بھی خواتین کو آزاد نہیں کیا گیا،حالانکہ اس کا معاملہ سراسر خواتین کی ذات سے جڑا ہے، لیکن اولاد پیدا کرنے کا معاملہ بھی صرف مرد اپنا حق سمجھتا ہے اور اس حق کاپورا فائدہ اٹھاتا ہے۔زیادہ بچوں کی پیدائش سے خواتین کی صحت برباد ہو جاتی ہے۔دنیا کے مقابلے میں دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح اس خطے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ خواتین کی فلاح وبہبود کے لئے کئے جانے والے کام نہ ہونے کے برابر ہیں۔خاص طور پر پسماندہ علاقوں کی خواتین کے لئے صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی۔صحت پر خرچ کیا جانے والا جی ڈی پی ایک فیصد ہے۔ بچے کی جنس کے حوالے سے بھی یہاں بے چینی دیکھنے میں آتی ہے۔ بچے کی پیدائش سے قبل الٹرا ساﺅنڈ سے جنس کا پتہ کر کے بچی کی صورت میں بیشتر لوگ حمل ساقط کروا لیتے ہیں۔ یہاں خواتین کو جنسی مسائل کا بھی سامنا ہے،خواتین پر ذہنی اور جسمانی تشدد عام ہے۔ جنسی تشدد بھی اس خطے کا اہم مسئلہ ہے۔ نوکری کرنے والی خواتین کو تو جنسی ہراسگی بھی فیس کرنا پڑتی ہے، لیکن گھر میں رہنے والی عورت بھی جنسی ہراسگی سے محفوظ نہیں، کیونکہ وہ اپنے قریبی مرد رشتہ داروں سے ہراساں ہوتی ہے۔ یہاں تو مرد اپنی شریک حیات پر بھی جنسی تشدد کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پورے جنوبی ایشیا میں یہی حال ہے۔ یہاں خواتین کی تعظیم پر زور تو دیا جاتا ہے، لیکن ان کی عزت نہیں کی جاتی۔ خواتین پرمردوں کاغلبہ ہے۔ یہ تصور عام ہے کہ خواتین کا تحفظ صرف مرد ہی کر سکتے ہیں۔ عورت گھر کی چار دیواری سے باہر غیر محفوظ سمجھی جاتی ہے۔گو کہ اکثر خواتین گھر کے اندر بھی محفوظ نہیں ہوتیں۔ دیہی علاقوں میں تعلیم کیسہولت میسر نہیں۔ شہر میں رہنے والی خواتین کو تعلیم کی سہولتیں میسر تو ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کو روزگار کے مسائل کا سامنا رہتا ہے ۔ خواتین کے لئے روزگارنہ ہونے کے برابر ہے۔ اس خطے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کی خواتین کو خود اپنے حقوق سے آگاہی نہیں۔ مذہب کے نام پر جتنی پابندیاں خواتین پر لگائی جاتی ہیں وہ تمام خود ساختہ پابندیاں ہیں۔ مذہب اتنی پابندیاں نہیں لگاتا جتنی پابندیاں مذہب کے پیرو کاروں نے خواتین پر لگا رکھی ہیں۔ اس خطے کی خواتین سماجی سطح پر تو محرومی کا شکار ہیں ہی، صنفی بنیاد پر اس کو خانگی سطح پر بھی محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں خواتین کے مسائل پر بات نہیں کی جاتی،نہ ان کے مسائل پر سنجیدگی سے سے غور کیاجاتا ہے اور نہ ان کے مسائل کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا یہاں آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سب سے زیادہ خواتین کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔ اس خطے میں قدم قدم پر خواتین کو مسائل کا سامنا ہے۔ جنوبی ایشیا اور بالخصوص پاکستان میں خواتین کے اختیار کی بات کی جائے تو یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہم بہت پیچھے ہیں۔ اگرچہ یہاں خواتین کے حقوق کے لئے بہت سی این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر دستخط بھی کئے جا چکے ہیں کہ یہاں خواتین کے حقوق کے لئے کام کیا جائے گا۔ خواتین کو ان کے حقوق فراہم کر کے انہیں ترقی کی دوڑ میں شامل کیا جائے گا،تاہم ان معاہدوں پر دستخط کرنے کے باوجود ان معاہدوں پر عمل نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایک بہت بڑا مغالطہ یہ ہے کہ خواتین کو حقوق دے کر کسی غیر ملکی ایجنڈے کو تقویت دی جائے گی، حالانکہ خواتین کے مسائل کا حل ان کا بنیادی حق ہے اور عورت کو بنیادی حق دینا آئین میں لکھا ہے۔ عورت کا بنیادی حق تعلیم اور صحت کے مسائل یقینی طور پر حل طلب ہیں اور اس کے لئے ریاست کے ساتھ سول سوسائٹی کی تنظیمیں مل کر خواتین کی ترقی کے لئے کام کررہی ہیں،کیونکہ خواتین کی ترقی کا براہ راست اثر معاشرے پر ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کو ان کے حقوق تک رسائی دی جائے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے کوشش کرنا ہوگی۔ یہاں کی عورت کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے میں آزادی دینا ہوگی۔ اپنی مرضی سے رہنے کی آزادی، اپنی مرضی کا مضمون پڑھنے میں آزادی، اپنا جیون ساتھی خود منتخب کرنے کی آزادی، جبکہ یہاں خواتین کو ہر بات میں پابندی اور جبر کا سامنا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لئے زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک خواتین کو اختیار نہ دیا جائے، اس کے لئے صنفی مساوات کو ختم کرنا ہو گا۔خواتین کو ٹیکنیکل ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے۔چائلڈ میرج ایکٹ کی ضرورت ہے۔خواتین کے حقوق کے لئے صحیح معنوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔دیہی اور پسماندہ علاقوں کی خواتین کو صحت اور انصاف کی سہولتیں ان کے گھر کی دہلیز تک دینا ہوں گی۔ خواتین کو بااختیار بنانا ہو گا۔اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مغرب کی خواتین نے بھی اپنی بقا کی جنگ کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں، تب کہیں جاکر انہیں آزادی حاصل ہوئی ہے، تاہم اگر جنوبی ایشیا میں خواتین کو بااختیار بنانے کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ یہاں کی خواتین جلد اپنا مقام حاصل کر لیں گی۔ اس خطے کی خواتین اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔خواتین کی خودمختاری کسی بھی ملک کی سماجی ترقی اور آسودہ حالی کے لئے لازم ہے۔ خواتین معیشت اور خوراک کی پیداوار میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہر دور میں اقوام کے استحکام، ترقی اور طویل مدتی خوشحالی کو یقینی بنانے میں خواتین نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ خواتین کی صلاحیتوں اور مہارتوں کو بڑی حد تک پوری طرح بروئے کار نہیں لایا گیا۔ عورت جتنی زیادہ تعلیم یافتہ ہوں گی، اسے معاشی مواقع ملنے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہو گا۔خواتین کی خودمختاری معاشرے کی ترقی کے لئے ناگزیر ہے جبکہ خواتین کی معاشی خودمختاری صنفی برابری کے قیام کے لئے لازم ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ فیصلہ سازی کا عمل اور وسائل تک رسائی رکاوٹوں کا شکار نہ ہو تاکہ مرد اور عورتیں ایک ثمرآور زندگی میں اپنا برابر حصہ ملا سکیں۔اپنی ذاتی ترقی و نشوونما سے متعلق اہم فیصلے کرنے کا اختیار خواتین کی خودمختاری کہلاتا ہے۔ یہ خواتین کو زندگی کے ہر پہلو میں آزادی دیتا ہے، جس میں ذہنی، فکری اور سماجی رکاوٹوں کی پرواہ کئے بغیر درست فیصلے کرنے کی آزادی سمیت ہر طرح کی آزادی شامل ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کا مقصد سماجی نظام میں برابری پیدا کرنا ہے تاکہ مرد اور خواتین ہر میدان میں برابر ہوں۔ کسی بھی ملک کو روشن مستقبل سے روشناس کرانے اور معاشرے اور خاندان کو پھلنے پھولنے میں مدد دینے کے لئے خواتین کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ دورِ قدیم میں خواتین کے ساتھ مردوں کی طرح برابر سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن آج کے دور میں کسی بھی ملک کے لئے خواتین کی ترقی سے مراد یہی ہے کہ انہیں مردوں کے برابر حیثیت حاصل ہو۔
