مہنگی بجلی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ

 نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نیپرا نے اےک بار پھر بجلی مہنگی کر دی۔ بجلی کی قیمتوں میں اےک روپیہ پندرہ پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے، قیمتوں میں اضافہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق کے الیکٹرک سمیت تمام صارفین پر ہو گا۔نیپرا کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم جنوری 2024سے ہو گا جو مارچ 2024 تک لاگو رہے گا۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سے صارفین پر 22ارب 29کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔دوسری جانب نیپرا اتھارٹی سی پی پی اے نے بھی نومبر کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 4 روپے 66 پیسے اضافے سے متعلق درخواست دائر کردی ہے جس کی سماعت 27 دسمبر کو ہوگی۔ یہ اضافہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جبکہ ملک میں مجموعی مہنگائی کی شرح 29فیصد سے زائد ہے اور تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اس ہوشربا مہنگائی کی بڑی وجہ بجلی و گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روز ہونے والا بے تحاشا اضافہ ہے۔ نچلے تو کیا اب متوسط طبقے کے لیے بھی روز بروز کم ہوتی معاشی سکت کے پیش نظر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو چکا ہے کہ وہ اپنی محدود آمدنی سے مہنگے یوٹیلیٹی بل ادا کرے یا مہینے کا راشن پورا کرے۔ مہنگی بجلی کی بڑی وجوہات میں پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ جو کہ ڈھائی کھرب روپے سے زائد ہے لائن لاسز اور بجلی کی پیداوار کا زیادہ انحصار مہنگے فیول سے پیدا ہونے والی بجلی پر ہونا ہے۔ ملک میں پانی سورج کی شعاعوں اور ہوا سے سستی اور ماحول دوست بجلی پیدا کرنے کے لیے یہ قدرتی وسائل میسر ہونے کے باوجود ان سے کما حقہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔مہنگی بجلی گھریلو صارفین کی مشکلات میں تو اضافہ کر ہی رہی ہے لیکن ساتھ ہی صنعتی اور برآمدی شعبے پر مہنگی توانائی کی وجہ سے لاگت میں ہونے والے اضافے کے باعث شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے اور صنعتی پہیہ رواں رکھنے کے لیے سستی اور قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع اپنائے۔حکومت پاکستان نے اپنی طرف سے ٹیکس لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہ 19طرح کے ٹیکس ہیں جس کی وجہ سے 100روپے کی بجلی خرچ کرنے پر آپ کو 800کا بل آئے گا اور 15000کی بجلی خرچ کرنے پر 48000 روپے بل آئے گا۔ ان ٹیکسوں کی وجہ سے۔ آنے والی قیامت خیز گرمی میں اس دفعہ بہت کم لوگ ہی ACاستعمال کرپائیں گے۔ FAN استعمال کرنا ہی جان جوکھوں کا کام ہو گا۔بجلی مہنگی ہونے کی بڑی وجہ لائن لاسز اور بجلی چوری ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ مہنگی بجلی کی وجہ سے بجلی چوری ہوتی ہے۔ایک یورپین انجینئر کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں 50فیصد حکومتی اور 40فیصد صنعتی ادارے بجلی چوری میں ملوث ہیں ۔ جب کہ صرف 10فیصد غریب افراد بجلی چوری کرتے ہیں ۔ بنوں ، ڈی آئی خان ، ٹانک اور شانگلہ میں 100فیصد صارفین کنڈا لگا کر بجلی چوری کر رہے ہیں ۔سرکاری دستاویزات کے مطابق ملک بھر میں یومیہ 1ارب 61کروڑ اور ماہانہ 49ارب روپے سے زائد کی بجلی چوری ہو رہی ہے ۔ یہ بجلی چوری سالانہ 600ارب کے قریب پہنچ جاتی ہے ۔ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے بجلی بلز پر ٹیکسز کم کرے اور جو لوگ ٹیکس نہیں دے رہے ان سے ٹیکس وصول کرے۔ بجلی کی قیمت حالیہ اضافے کے بعد 55 روپے فی یونٹ تک پہنچ جائے گی۔پاکستان میں مہنگے ذرائع سے بجلی کی پیداوار بڑھ رہی ہے۔ درآمدی کوئلے سے بجلی کی پیداواری لاگت 40 روپے 54 پیسے، فرنس آئل سے 48 روپے 56 پیسے آر ایل این جی سے 51 روپے 42 پیسے اور ہوا سے 33 روپے 64 پیسے فی یونٹ ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے فی یونٹ بجلی کی قیمت بڑھانے کی منظوری دے دی جاتی ہے۔بجلی کی قیمت میں اضافہ حکومت کی نااہلی کا ثبوت ہے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور ترسیلی نظام میں اصلاحات کیے بغیر یہ بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔گزشتہ پانچ سال سے عام آدمی کے بجلی کے استعمال میں کمی ہو رہی ہے، بجلی کم استعمال کرنے کی وجہ سے پاکستان کی معاشی شرح نمو بھی کم ہوتی جار ہی ہے۔انڈیا میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بجلی آٹھ سینٹ، بنگلہ دیش میں 10 سینٹ اور ویت نام میں چھ سینٹ میں فراہم کی جا رہی ہے، جب کہ پاکستان میں یہ قیمت 16 سینٹ فی یونٹ سے زےادہ ہے ۔ بجلی کے بلوں پر بھاری ٹیکسز، کراس سبسڈیز اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نااہلی کا بوجھ صارفین پر ڈالا جا رہا ہے اور موجودہ حالات میں ملکی برآمدات عالمی مارکیٹ میں دیگر ممالک کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ دراصل صنعتوں پر بوجھ ڈال کر دیگر صارفین کو سبسڈی دینا ہے۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے فیکٹریوں سے نوکریاں ختم ہوں گی، مزید سرمایہ کاری نہیں ہو گی اور برآمدات کم ہوں گی۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور نامساعد ملکی اور عالمی حالات کے باعث ملکی برآمدات کم ہو کر 16 ارب ڈالرز تک آ چکی ہیں اور توقع ہے کہ اگلے سال مزید کم ہوکر 12 ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گی۔ 50 فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری غیر فعال ہے اگر حالات یہی رہے تو 25 فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری مزید بند ہو جائے گی، جس سے قومی خزانے کو 10 ارب ڈالرز کا نقصان ہو سکتا ہے۔ بجلی پیداواری کمپنیاں پیدا شدہ بجلی کی قیمت ایک دفعہ وصول کرنے کے بعد اپنی پیدا شدہ بجلی کے فی گھنٹہ یونٹس کو اپنی کل پیداواری صلاحیت سے تقسیم کرکے اسے 100 سے ضرب دے کر اس بجلی کی قیمت بھی وصول کرتی ہیں جو اس نے اپنے پلانٹ سے پیدا ہی نہیں کی۔ حال ہی میں نیپرا نے پیداواری کمپنیوں کے لیے کیپیسٹی چارجز کی مد میں طے شدہ قیمت میں مزید اضافہ کرکے تقریبا 30 روپے فی کلوواٹ فی گھنٹہ کردیا ہے۔ معاہدے کے تحت یہ ادائیگیاں ڈالر میں ہونے کی وجہ سے صارفین سے ڈالر کی موجودہ شرح تبادلہ کے مطابق وصولی کی جاتی ہے۔ موجودہ مالی سال 2023-24 میں بجلی کے صارفین ان پاور پلانٹس کو ایک اعشاریہ 3 ٹریلین روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کریں گے جو بند پڑے ہیں، جبکہ اگلے سال یہ رقم بڑھ کر 2 ٹریلین روپے 2000 ارب روپے ہوجائے گی۔ بعض آئی پی پیز کو خلافِ ضابطہ مالی فوائد پہنچانے کے لیے طے شدہ معاہدوں میں ترامیم کرکے زائد ادائیگیاں بھی کی گئی ہیں۔ایک اور مسئلہ چوری شدہ بجلی کی قیمت کا ہے جو لائن لاسز کے نام پر باقاعدگی اور ایمانداری سے بل ادا کرنے والے صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں بے ایمان لوگوں کی بے ایمانی کا بوجھ ایماندار بجلی صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ملک میں تقریباِ 467 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور مالی سال 2023 میں اس چوری شدہ بجلی کے بدلے سبسڈی کے نام پر تقریبا 976 ارب روپے ادا کیے گئے۔ نادہندگان میں بڑے بڑے سرکاری ادارے، کارپوریشنز، نجی کمپنیاں وغیرہ شامل ہیں، لیکن ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ان نادہندگان کی فہرست فراہم کرنے سے گریزاں ہیں اور یہ سارے اخراجات باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے صارفین سے لائن لاسز کے نام پر وصول کیے جاتے ہیں۔دوسری طرف 1 لاکھ 89 ہزار171ریٹائرڈ اور حاضر سروس واپڈا ملازمین کو ماہانہ 3 کروڑ 47 لاکھ 58 ہزار 825 فری یونٹس دیے جارہے ہیں جس سے قومی خزانے کو سالانہ 8 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے جو اگلے برس بڑھ کر ساڑھے 11 ارب روپے ہوسکتا ہے، جبکہ اربوں روپے کا یہ نقصان باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے صارفین کے بلوں میں ڈال کر پورا کیا جاتا ہے۔ حکومت آئی پی پیز کو کرایہ یا ان کی پیداواری صلاحیت کی قیمت ادا کرنے کے علاوہ ان سے بنوائی جانے والی بجلی کی قیمت بھی ادا کرتی ہے۔ یہ ساری ادائیگیاں ماہانہ بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔ اب یہ پلانٹس بجلی پیدا کرنے کے مہنگے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ پی پی آئی بی کے مطابق یہ پلانٹس کل 27 ہزار 7سو 71 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس میں سے تھرمل طریقے سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 21 ہزار ایک سو 21 میگا واٹ ہے اور یہ بجلی پیدا کرنے کے مہنگے ترین طریقوں میں سے ایک ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ آئی پی پیز اپنی پیداواری صلاحیت کی قیمت اور مہنگی بجلی پیدا کرنے کی وجہ سے پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کا باعث بنتی ہے۔آئی پی پیز کے ساتھ کیے جانے والے مہنگے معاہدے بجلی مہنگی ہونے کی پہلی جبکہ بجلی چوری ہونا تیسری وجہ ہیں۔ آئی پی پیز چونکہ غیر ملکی سرمایہ کار ہیں اس لیے انہیں ادائیگیاں بھی پاکستانی روپے کے بجائے ڈالر میں کی جاتی ہیں۔ ان پلانٹس کی حکومت کے اپنے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کے مقابلے میں پیداواری لاگت بھی زیادہ ہے۔آئی پی پیز گورنمنٹ کی جانب سے کہی گئی بجلی پیدا کرکے سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کو دیتی ہو جو اسے 10 سرکاری اور ایک پرائیوٹ ڈسٹری بیوشن کمپنی کے ذریعے ہر قسم کے صارفین تک پہنچاتی ہے۔ یہی کمپنیاں ہر ماہ بجلی کے بل جاری کرتی ہیں ۔ صارفین اپنے بل روپوں میں ادا کرتے ہیں جبکہ آئی پی پیز کو ادائیگیاں ڈالر میں کی جاتی ہیں۔ تو جب ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو اس کا اثر براہ راست بجلی کے صارفین پر پڑتا ہے اور ان کے بجلی کے بل زیادہ آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بجلی بنانے والے کارخانوں کی لاگت، بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی لاگت، فنانسنگ کی لاگت اور حکومتی ٹیکسز ملا کر صارفین کا بل بنتا ہے جس کے بوجھ تلے وہ دب کر رہ گئے ہیں۔