الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 2024 کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کر دیا۔الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے تیار کیا ہے، الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی تجاویز کو بھی ضابطہ اخلاق میں شامل کیا۔ضابطہ اخلاق میں بتایا گیا کہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں سے کہا گیا ہے کہ وہ کسی ایسی رائے کا اظہار یا ایسا عمل نہیں کریں گے جس میں نظریہ پاکستان یا پاکستان کی خود مختاری، سالمیت اور سلامتی کے خلاف یا پاکستان کی عدلیہ کی آزادی یا خود مختاری اور افواج پاکستان کی شہرت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن کی تضحیک سے اجتناب کےا جائے۔الیکشن کمیشن کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کے مطابق سیاسی جماعتیں دستور اور قوانین میں دیے گوے پاکستانی عوام کے حقوق اور آزادی کو سر بلند رکھیں گی، انتخابی امیدوار ، الیکشن ایجنٹ پولنگ کے دن انتخابی مواد ، انتخابی عملے اور پولنگ ایجنٹس کے تحفظ کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کے موثر انعقاد اور امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لیے الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ احکامات، ہدایات اور ضابطہ اخلاق کی پیروی کریں گی، انتخابی امیدوار اور الیکشن ایجنٹ کسی بھی شخص کو الیکشن میں بطور امیدوار حصہ لینے یا دستبردار ہونے کی ترغیب دینے کے لیے رشوت دینے سے گریز کریں گے، سیاسی جماعتیں مردوں اور خواتین پر مشتمل اپنے اہل کارکنوں کو انتخابی عمل میں شرکت کے لیے مساوی مواقع فراہم کریں گی۔مزید بتایا گیا ہے کہ کسی بھی اسمبلی کی عام نشستوں کے امیدواروں کا انتخاب کرتے ہوئے خواتین کی پانچ فیصد نمائندگی کو یقینی بنائیں گے، سیاسی جماعتیں پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کے خلاف ہر قسم کے تشدد سے اپنے کارکنوں کو روکیں گے، عوامی جلسوں اور پولنگ والے دن کسی بھی قسم کے ہتھیار کے استعمال یا ان کی نمائش پر مکمل پابندی ہوگی۔ضابطہ اخلاق کے مطابق سیاسی جماعتیں اور امیدوار ضلعی اور مقامی انتظامیہ کی مشاورت سے جلسوں کے معاملات طے کریں گی، سیاسی جماعتیں اور ان کے حمایتی ایسی تقاریر سے اجتناب کریں گے جو علاقائی اورفرقہ وارانہ جذبات کو ہوا دے، امیدوار ہر پولنگ اسٹیشن کے ہر پولنگ بوتھ پر ایک پولنگ ایجنٹ مقررکرسکتا ہے اور انتخابی حلقے میں تےن الیکشن ایجنٹ مقرر کر سکتا ہے، الیکشن ایجنٹ کا متعلقہ حلقے کا ووٹر ہونا لازم ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اورامیدوار انتخابی مواد بیلٹ پیپر، انتخابی فہرست، بیلٹ باکس پر موجود سرکاری نشان کو مسخ کرنے سے باز رہیں گی، عوامی اجتماعات، پولنگ اسٹیشن کے اطراف میں ہوائی فائرنگ اور پٹاخوں کی اجازت نہیں ہو گی، امیدوار انتخابی اخراجات کے لیے شیڈول بینکوں کی کسی بھی برانچ میں کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ہونے سے قبل مخصوص اکاﺅنٹ کھلوائے گا یا موجودہ اکاﺅنٹ استعمال کرسکتا ہے۔اس کے مطابق صدر، وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ ،ڈپٹی چیئرمین ،کسی اسمبلی کے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزرا، وزرائے مملکت ،گورنرز، وزرائے اعلی ، صوبائی وزرا اور مشیران کسی بھی حلقہ کی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیں گے، پولنگ والا دن شروع ہونے سے پہلے رات بارہ بجے سے اڑتالےس گھنٹے قبل کسی بھی حلقہ میں جلسہ ،جلوس منعقد کرنے اورشرکت کرنے پر مکمل پابندی ہوگی، کوئی بھی سیاسی جماعت سرکاری خزانے سے میڈیا اورسوشل میڈیا میں تشہیری مہم نہیں کرے گی۔مزید بتایا گیا کہ سیاسی جماعت یا شخص الیکشن کمیشن کے منظور شدہ سائز سے بڑے پوسٹر، ہینڈ بل، پمفلٹس، بینرز اور پوسٹرز نہیں لگاسکتا، سیاسی جماعتوں کے رہنماں یا کارکنوں کی نجی زندگی کے کسی ایسے پہلو پر تنقید سے اجتناب کریں جس کا عوامی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہ ہو، سیاسی جماتیں ،امیدواران پولنگ والے دن دیہی علاقوں میں پولنگ اسٹیشن سے 400 میٹر کے فاصلے اور شہری علاقوں میں 100 میٹرکے فاصلے پر اپنے کیمپ لگاسکیں گے ، غیرملکی مقامی مبصرین اور میڈیاکے نمائندگان کو الیکشن کمیشن یا مجاز افسرکی جانب سے جاری کردہ ایکریڈیشن کارڈ اجازت نامہ دکھانے پر الیکشن کے عمل کامشاہدہ کرنے کے لیے رسائی دی جائے گی۔انتخابی ضابطہ اخلاق کے اعلان سے الےکشن میں تاخےر کی خبرےں دم توڑ گئی ہےں۔اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد الیکشن کے انعقاد میں غیر یقینی میں شدت آئی۔بعدازاں قومی اسمبلی مدت سے قبل تحلیل کر دی گئی تاکہ انتخابات کے لیے نوے دِن کا وقفہ لیا جائے مگر الیکشن کمیشن نے نوے روز کے اندر الیکشن کروانے سے معذرت کر لی۔اس طرح الیکشن کے انعقاد میں جب آئینی مدت کی پاسداری نہ ہو سکی تو الیکشن میں تاخیر کی غیر یقینی، یقین میں بدلتی چلی گئی۔ اس وقت ملک بھر میں مقامی سطح پر الیکشن کے حوالے سے سرگرمیاں مفقود ہیں حالانکہ الیکشن کے انعقاد کی تاریخ میں دو ماہ اور چند دِن ہی رہ گئے ہیں۔اسی طرح بلوچستان کے دو درخواست گزاروں نے الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور عام انتخابات کی تاریخ میں تاخیر کی درخواست کی ہے۔ اپنی درخواست میں صوبے میں سکیورٹی صوتحال اور فروری میں برف باری کا ذکر کرتے ہوئے یہ استدعا کی ہے کہ انتخابات برف باری کے بعد کرائے جائیں۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں نوے روز میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تھی، جس میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے مشاورت کا حکم دیا تھا۔یوں الیکشن کمیشن اور ایوانِ صدر نے متفقہ طورپر 8 فروری کی تاریخ کا تعین کیا۔ جب نوے روز کے اندر انتخابات کے کیس کو نمٹایا گیا تو چیف جسٹس فائز عیسی نے انتباہ کیا کہ اگر الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کیے گئے تو ایسا کرنے والے آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے مگر اس انتباہ، الیکشن کی تاریخ اور الیکشن کمیشن کی انتخابی تیاریوں کے باوجود تاخیر کی افواہیں جنم لے چکی ہیں اور یہ بہت معنی خیز بھی ہیں۔ معاشی بہتری اگر آتی ہے تو افواہ ہے کہ الیکشن تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس افواہ کے پیچھے یہ تاثر بھی ہے کہ تحریکِ انصاف کے سیاسی ابھار کا مکمل تدارک نہیں ہو سکا تاہم اگر الیکشن میں تاخیر کی بابت سوچا گیا تو دو رکاوٹیں آئیں گی۔ عدالتی اور سیاسی رکاوٹ۔الیکشن کمیشن نے الیکشن میں تاخیر کی خبروں کو بے بنیاد قراردیا ہے۔ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن کمیشن مذکورہ افواہوں کی پرزور تردید کرتا ہے۔کےا الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن میں تاخیر کی خبروں پر موقف کے بعد یہ افواہیں دم توڑ جائیں گی؟افواہیں اس لیے پیدا ہوئیں کہ الیکشن کی تاریخ کے باوجود سیاسی جماعتوں نے نچلی سطح پر کسی طرح کی سرگرمیوں کا آغاز اس طریقے سے نہیں کیا جیسا ماضی میں دیکھنے کو ملتا تھا۔جیسے ہی الیکشن کی تاریخ سامنے آئی تھی، تو سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ الیکشن کا ماحول طاری کر دیتیں چونکہ ایسا نہ ہو سکا یوں اس طرح کی افواہیں پیدا ہوئیں۔ الیکشن کمیشن نے افواہوں کی تردید کے بعد بھی یہ افواہیں اس وقت تک جنم لیتی رہیں گی۔ جب تک سیاسی جماعتیں الیکشن کا ماحول نچلی سطح پر نہیں بناتیں۔ الیکشن میں تاخیر کی باتیں کرنے کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں۔ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ شاید یہ ٹیسٹ بیلون کے طور پر دیکھ رہے ہوں کہ اگر یہ بات کی جائے تو عوام کے اندر کس حد تک اس کی پذیرائی ہے، لوگوں کا ردِعمل کس طرح کا ہو سکتا ہے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جن کو انتخابات میں کوئی زیادہ فائدہ نظر نہیں آ رہا وہ اس طرح کی باتیں کر رہے ہوں۔سب ادارے اور جماعتیں الیکشن کی تاریخ پر اتفاقِ رائے رکھتی ہیں۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمن نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کچھ سرد پہاڑی علاقوں کہ وہاں کے لوگ موسم کی سختی کے پیش نظر دوسرے علاقوں میں ہجرت کرتے ہیں، کی بابت کہا تھا کہ تاریخ کو آگے پیچھے کیا جائے مگر جب تاریخ آ گئی تو ہم الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں۔الیکشن میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ عمران خان کی مقبولیت کے فیکٹر کا تاثربھی سامنے آ رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ حال ہی میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے کنوینشن سے پیدا ہونے والی صورتحال بھی ہو سکتی ہے۔جلسوں کے کامیاب انعقاد سے الیکشن کے التوا میں جانے کا کوئی جواز نہیں۔ اصل فیصلہ پولنگ ڈے پر ہوتا ہے۔ الیکشن کے انعقاد میں تاخیر کی خبروں میں اگر کوئی صداقت ہے تو اس ضمن میں سب سے بڑی رکاوٹ سپریم کورٹ ہے کیونکہ الیکشن میں شکوک وشبہات پیدا کرنے پر بھی چیف جسٹس نے میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم کو متنبہ کررکھا ہے۔ انتخابات میں تاخیر میں سب سے بڑی رکاوٹ معاشی صورتحال ہے۔اپریل سے پہلے حکومت کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنا ہوں گے ورنہ اگلے پیسے نہیں ملیں گے۔ آئی ایم ایف منتخب حکومت کے علاوہ کسی سے بات نہیں کرے گی۔ اگر آئی ایم ایف سے پیسے نہ ملے تو دوسرے ذرائع سے بھی نہیں ملیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب کسی جماعت کو ہٹا دیا جاتا ہے تو اگلے الیکشن میں اس کو دوبارہ نہیں آنے دیا جاتا۔ ماضی کے انتخابات سے یہی سبق ملتا ہے۔ اب بھی یہی کوشش ہو گی۔ اگر یہ کوشش کامیاب ہوتی نظر نہ آئی تو آخری حربے کے طورپر اگرچہ امکان بہت چھوٹا ہے کہ الیکشن موخر ہو جائیں۔
