گلگت بلتستان ڈیزاسٹرمےنجمنٹ اتھارٹی کے زیر اہتمام گلاف ٹو پراجیکٹ کے تعاون سے قدرتی آفات سے بچاﺅ سے متعلق ایک روزہ پروونشیل لیول اسٹیک ہولڈرز کمیونیکیشن اینڈ کوآرڈینیشین ورکشاپ میں شرکاء نے کہا پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثرہ ممالک کی عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کے سبب وقوع پذیر ہونے والی قدرتی آفات سے انسانی جان ومال اور املاک کو بری طرح نقصانات کا سامنا رہا ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان اپنی جغرافیائی حساسیت کے باعث گلیشےئرز کے پگھلاﺅ اور گلیشےائی جھیلوں کے پھٹنے کے نتیجے میں آنے والی سیلابی صورتحال جیسے چیلنجوں سے دوچار ہے۔لہذا موسمیاتی تبدیلی کے ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے سرکاری وغیرسرکاری اداروںکا باہمی مشاورت سے ایک مرجوط حکمت عملی کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ٹیکنالوجی کے اس دور میں سائنس ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے انسانی زندگی، قدرتی ماحول اور ذریعہ معاش پر پڑنے والے اثرات سے متعلق قبل ازوقت ہی اگاہ کرتا ہے مگر ہماری یعنی متعلقہ اداروں اور عوام الناس کی جانب سے بروقت احتیاطی تدابیر نہ اپنانے سے موسمیاتی تبدیلی کے یہ اثرات ہمارے اوپر آفت کی صورت میں طاری ہوجاتے ہیں جس سے بیش بہا نقصانات ہوجاتے ہیں ۔گلگت بلتستان ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی گلاف ٹو پراجیکٹ کے تعاون سے گلگت بلتستان میں آفات کے خطرے سے دوچار علاقوں میں متعددمنصوبوں پر کام کررہا ہے جن میں حفاظتی بند،واٹرچینلز اور کمیونٹی سنٹرز کی تعمیر کے علاوہ پہلی بار جدید پیشگی اطلاعی نظام یعنی ارلی وارننگ سسٹم نصب کررہا ہے جس سے عوام الناس اور امدادی اداروں کو ممکنہ آفات سے بروقت نمٹنے میں مددملے گی۔ ےہ حقےت اظہر من الشمس ہے کہ درختوں کا وجود ہماری سانسوں کی ڈور برقرار رکھنے کا امرت دھارا ہے۔کنکرےٹ کے گھروں میں امن و سکون کا متلاشی انسان تےزی سے درختوں کا صفاےا کرتا چلا جا رہا ہے۔اےک رپورٹ کے مطابق دنےا بھر میں 30 کھرب درخت موجود ہےں جبکہ ایک سال میں پندرہ ارب درخت کاٹے جا رہے ہیں اس کے برعکس صرف پانچ ارب درخت لگائے جاتے ہیں‘گےارہ ہزار سال پہلے سے اب تک انسان تین ٹرےلین درختوں کا صفایا کرچکا ہے۔ےہ نقصان دنیا بھر میں موجود درختوں کا ایک تہائی ہے۔ یہ کوئی معمولی حصہ نہیں ہے اور اس سے یقینی طور پر ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جنگلات کی کٹائی ماحولیاتی زندگی کی تبدیلی میں کردار ادا کررہی ہے۔ زیادہ تر درختوں کی کمی لکڑی کی فراہمی اور زراعت کے استعمال کےلئے زمین کی تبدیلی سے منسلک ہے۔ جیسے جیسے عالمی سطح پر انسانی آبادی بڑھ رہی ہے ویسے ویسے شاید درختوں کی تعداد میں کمی کا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔درختوں کی افزائش اور حیاتیاتی نظام میں تنوع اور آب و ہوا کےلئے تو درخت فائدہ مند ہیں ہی لیکن یہ گرین ہاﺅس گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ماحول سے ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جنگلات کی کٹائی آب و ہوا کو بھی بہت سے طریقوں سے متاثر کرتی ہے۔ جنگلات ہمارے سیارے کے پھیپھڑے ہیں‘ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ لیتے ہیں اور آکسیجن اور پانی کے بخارات کو ہوا میں چھوڑتے ہیں ‘درخت سایہ فراہم کرتے ہیں جو مٹی کو نم رکھتے ہیں۔ان کی عدم موجودگی سے ماحولیاتی درجہ حرارت،ٹھنڈی آب و ہوا میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے ، جس سے ماحولیات کے لئے حالات اور زیادہ مشکل ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے آب و ہوا میں بدلاﺅآتا ہے۔ درختوں کے کٹنے سے نمی کی سطح گر جاتی ہے ، جس کی وجہ سے باقی پودے خشک ہوجاتے ہیں‘ جنگلی جانوروں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ جنگلات اور آب و ہوا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنگل کا نقصان اور انحطاط ہماری بدلتی آب و ہوا کا ایک سبب اور نتیجہ ہے۔ درخت گلوبل وارمنگ کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہےں ۔جنگلات کی مسلسل کٹائی سے فضا میں گرین ہاﺅس گیسوں کا تناسب بڑھ گیا ہے ، جس سے عالمی حرارت میں اضافے کی پریشانی بڑھ رہی ہے۔جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر زہریلی گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ تاہم ، جب ان کو کاٹا جاتا ہے ، نذر آتش کیا جاتا ہے یا کسی اور طرح سے ان کی کھدائی ہوتی ہے تو ، وہ کاربن کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔درختوں کی کمی سے کٹاﺅ ہوتا ہے جو زمین کو قریبی ندیوں میں گھسیٹتا ہے ۔ جنگلات فطرت کے پانی کی صفائی کی سہولیات کے طور پر کام کرتے ہیں۔بارش کی صورت میں درخت اپنی جڑوں کی مدد سے بڑی مقدار میں پانی جذب اور ذخیرہ کرتے ہیں۔ جب ان کو کاٹا جاتا ہے تو پانی کا بہاﺅ پریشان ہوجاتا ہے اور مٹی پانی روکنے کی صلاحیت کھو دیتی ہے جو کچھ علاقوں میں سیلاب اور بعض علاقوں میں خشک سالی کا سبب بنتی ہے ۔عام طور پر جنگلات میں اوسط درجہ حرارت چار سے دس ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے اور کم سے کم درجہ حرارت مائنس چھے سے دس ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے لیکن دنیا میں کئی جگہوں پر جنگلات میں درجہ حرارت بےس سے زےادہ ماپا جا چکا ہے۔ جنگلات میں دوسرے قطعات زمین کی نسبت بارش زیادہ برستی ہے اوریہاں پر درجہ حرارت نسبتا کم ہوتا ہے۔ یہی بارش، جنگلات میں نباتاتی تنوع پےدا کرتی ہے ‘ درخت جانوروں کی رہائش اور خوراک کا ذریعہ ہوتے ہیں۔درخت زمین کو جکڑتے اور ان ہواﺅں کے سامنے مزاحم ہو تے ہےں جو مٹی کو اڑا کر دوسری جگہ لے جاتی ہےں، یوں جنگلات کے باعث ماحول ریتیلی ہوا اور دیگر آلودگیوں سے محفوظ رہتا ہے۔جنگلات کا استعمال انسانی صحت کیلئے تیار کی گئی ادویات میں ایک بڑی تعداد میں ہوتا ہے بلکہ جنگلات سے حاصل شدہ پودے وغیرہ ہی ادویات کا ذریعہ ہےں۔جنگلات سے بے شمار اہم میٹریل حاصل کیے جاتے ہیں جیسے بیروزہ،تارپین کا تیل،گوند، وغیرہ۔وہ پانی جو پہاڑوں کے چوٹیوں سے بہہ کر آتا ہے ڈھلوان سطحوں سے ہوتا ہوا پہاڑی ندیوں اور دریاﺅں میں جاگرتا ہے۔ ڈھلوانوں پر اس پانی کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے اگر درخت اور جھاڑیاں اس پانی کی مزاحمت نہ کریں تو وہ طوفانی شکل اختیار کرکے تباہی پھیلا سکتا ہے۔ہوا کو آبی بخارات بنا کر جنگلات بارش کا سبب بنتے ہیں۔درخت سیم اور تھور کو روکنے کا بہترین ذریعہ ہے اور ان کی وجہ سے زمین میں زرخیزی کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔جنگلات مختلف خوبصورت ،پرکشش اور دلکش تفریح گاہیں مہیا کرتے ہیں اور زمین کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتے ہیں۔جنگلات مختلف خوبصورت اور مفید پرندوں اور جانوروں کی پناہ گاہیں ہیں، درخت ان کو خوراک اور سر چھپانے کی جگہ فراہم کرتے ہیں ۔جنگلات کی کٹائی اور جلنے والے جیواشم ایندھن کی وجہ سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں اضافہ ہمارے سمندروں کو مزید تیزابی بنا رہا ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد سے ، ساحل پہلے ہی 30 فیصد زیادہ تیزابیت کا حامل ہوچکے ہےں ، جس سے سمندری حےات اور ماحولیاتی نظام انتہائی خطرے میں ہے۔جنگلات کی کٹائی کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کررہی ہے۔کھانے کےلئے جنگلات کی کٹائی مستقبل میں کھانے کے عدم تحفظ کا سبب بن سکتی ہے کےونکہ فی زمانہ غذائی پیداوار کےلئے استعمال ہونے والی تمام اراضی کا 52 فےصد معمولی یا شدید مٹی کے کٹاﺅ سے متاثر ہے۔ طویل مدت میں ، زرخیز مٹی کی کمی کا نتیجہ کم پیداوار اور کھانے کے عدم تحفظ کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان بھی جنگلات کے کٹاﺅ کی بدترےن صورتحال سے دوچار ہے‘بے دریغ بڑھتی آبادی جنگلات کی کٹائی کا سبب بن رہی ہے ‘نئی کالونیاں اور ٹاﺅن بنانے والے مافیاز کو لگام دینے کا کوئی اہتمام نہےں ہے ۔دو عشروں سے ےہ سلسلہ تےز ہو چکا ہے کہ سرسبز سونا اگلتی لاکھوں ایکڑ زمینیں اور کروڑوں درخت کاٹ کر دیواریں چن دی گئیں مگر آج تک نہ وہاں لوگ آباد ہو سکے اور زمےنےں بھی کاشتکاری سے محروم ہو گئےں ۔ پاکستان کی صورتحال اس لےے تےزی سے خطرناک ہو رہی ہے کہ ےہاں جنگلات کی شرح چار فیصد سے کم ہوکر صرف دو فیصد رہ گئی ہے حالانکہ ماہرےن کا طے شدہ معےار چےخ چےخ کر ےہ بتا رہا ہے کہ کسی بھی ملک کے کم از کم پچےس فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔ درخت کاٹنے کی وجہ سے فضا میں موجود اوزون کی تہہ کمزور پڑتی جارہی ہے ۔آنے والی نسلوں کا معدوم ہوتا مستقبل بھی ہماری ہوس کی راہ میں رکاوٹ پےدا نہےں کر سکا۔مستقبل میں ہم کس ہولناک حالات کا شکار ہونے والے ہےں کسی کو اس کی پروا نہےں ۔جنگلات کی کٹائی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ اےک بڑا المےہ ےہ ہے کہ جنگلات میں لگنے والی آگ بھی جنگلات اور جنگلی حیات کےلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔عام طور پر خشک موسم، گرمی کی شدت جیسے فطری اسباب کو جنگل میں آگ لگنے کی بنیادی وجہ سمجھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ جنگل میں پکنک کے لیے آنے والوں کی بے احتےاطی کے باعث بھی بڑے پیمانے پر جنگلات آگ کی لپےٹ میں آ جاتے ہےں ۔مختلف حلقوں کی جانب سے بارہا ےہ تجوےز پےش کی جا چکی ہے کہ ملک بھر میں پھےلی موٹر وےز کے دونوں اطراف کروڑوں درخت لگائے جا سکتے ہےں اور اگر ےہ درخت پھلدار ہوں تو پھلوں کی فروخت اور اےکسپورٹ سے قےمتی زرمبادلہ کے علاوہ ماحول کو بھی خوشگوار بناےا جا سکتا ہے۔
