نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے فلسطین کے دو ریاستی حل پر قائد اعظم کے موقف سے روگردانی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ و بچار کرتے ہیں اور قائد اعظم جس نتیجے پر پہنچے تھے اس کے برعکس کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے زمرے میں نہیں آتا، یہ ہوسکتا ہے۔اےک انٹرویو کے دوران مسئلہ فلسطین سے متعلق دو ریاستی حل کے حوالے سے سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ یہ میں نہیں پوری دنیا کہہ رہی ہے، دوریاستی حل کی بات ہم سے منسلک کردی گئی ہے، جیسے ہم نے اس کی تجویز دے دی ہے، ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ جس طرح فلسطین میں بچے اور خواتین شہید کیے جارہے ہیں، بتائیں اس کا حل کیا ہے؟انہوں نے کہا کہ کسی صورت میں اگر کوئی تجویز موجود ہے تو سامنے لائیں، فلسطینیوں سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ میں فلسطینی ہوں؟ آپ فلسطینی ہیں؟ یا کانفرنس کروانے والے فلسطینی ہیں؟ فلسطینیوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے یہودیوں کے ساتھ، اسرائیلیوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے؟ کن اصولوں پر زندگی گزارنی ہے؟ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں، ہم ہمسائے ہیں، ہم ان کا حصہ نہیں ہیں، انوار کا بچہ نہیں مارا جا رہا، بادامی کا بچہ نہیں مارا جا رہا، جن لوگوں کے بچے شہید ہو رہے ہیں، پہلا حق ان کا ہے، ان سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟حماس کے فلسطینیوں کے نمائندہ ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ بھی فلسطینی کریں گے، میں یا آپ نہیں کریں گے، ہماری طرف اس چیز کو دھکیلنا کہ ہم یہ تجویز دے رہے ہیں، یہ تاثر درست نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے، کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے اور اس حوالے سے جو اسلامی دنیا کا موقف ہے، اس کا ساتھ دینا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ وہاں امن ہو۔اس سوال پر کہ جب ہم اسرائیل کو سپورٹ کرتے ہیں تو کیا ایک طرح سے ہم اسرائیل کے وجود کو ہی نہیں تسلیم کر رہے، جو کہ قائد اعظم کے اس بیان سے روگردانی کرتا ہے کہ اسرائیل، امریکا کا ایک ناجائز بچہ ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے، کیا ہم اس کے خلاف نہیں جا رہے؟اس پر انوارالحق کاکڑ نے جواب دیا کہ بہت سارے لوگ اس کا حوالہ دیتے ہیں، سیاست کوئی کام کرنے کا نام نہیں بلکہ سیاست کچھ حاصل کرنے کا نام ہے، قائداعظم میں اور جو ادیان کے نبی اور رسول گزرے ہیں ان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان پر جو الہام آیا ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، لیکن اس سے ہٹ کر جتنے بھی سیاسی رہنما یا سماجی دانشور آئے ہیں، حالات اور واقعات کی روشنی میں، آنے والے وقت میں جو دوسرے لوگ ہوتے ہں، وہ اس پر سوچ بچار کرتے ہیں اور اگر کہیں پر کچھ تعمیری موقف یا کچھ تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ لائی جاسکتی ہے اور آسکتی ہے۔ قائداعظم کی اس پوزیشن کے تبدیل ہونے پر پابندی نہیں ہے، اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ و بچار کرتے ہیں اور قائداعظم جس نتیجے پر پہنچے تھے، اس کے برعکس کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے زمرے میں نہیں آتا، یہ ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے، اس پر بحث ہوسکتی ہے۔نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کوئی بھی پاکستانی حکومت سب سے پہلے پاکستانی قوم کا مفاد دیکھتی ہے، ہمارے بہن بھائیوں کے ساتھ فلسطین میں جو ظلم کیا جا رہا ہے، اس کے تحت کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں اور کیا نتائج ہوں گے، اس پر مشاورت ہونی چاہیے۔جب ان سے حماس کے رہنما اسمعیل ہنیہ کے حالیہ بیان کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ پارلیمان کو کرنا چاہیے۔انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ کسی ایک صاحب کے کہنے پر اگر پوزیشن لے لیں گے تو ایسا نہ ہو کہ کل کو اس پوزیشن لینے پر پچھتا رہے ہوں، میرے خیال میں مشاورت کا عمل پارلیمان کی صورت میں آنے والا ہے، ان کو یہ عمل کرنے دیں۔بات ےہ نہےں ہے کہ قائداعظم کے موقف پر تبدےلی ہو سکتی ہے ےا نہےں سوال ےہ ہے کہ اصولی موقف تبدےل نہےں کےے جاتے نہ انہےں وقت اور حالات کے دھارے کے مطابق موڑا جا سکتا ہے ۔اگر اےسا ہوتا ہے تو سارا سسٹم ہی زمےن بوس ہو جائے گا۔ بعض معاملات میں موقف ناقابل تبدےل ہوتے ہےں خواہ اس کے لےے کتنا ہی نقصان کےوں نہ برداشت کرنا پڑے۔ پاکستان کے قےام کا موقف اور کوشش بھی قائداعظم ہی کی تھی کےا آج ےہ کہا جا سکتا ہے کہ اس موقف کو پس پشت ڈال کر بھارت کے بھارت ماتا کے موقف کو تسلےم کر لےا جائے جس نے آج تک اس تقسےم کو قبول نہےں کےا اور وہ ہم سے طاقتور بھی ہے اور بڑا بھی۔کچھ عرصہ قبل نگران وزےراطلاعات مرتضی سولنگی ےہ کہہ چکے ہےں کہ پاکستان کا اسرائیل کے حوالے سے موقف فلسطینیوں کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان فلسطینی بھائیوں کو ان کا الگ ملک، حق خود اختیاری اور حق خود ارادیت ملنے تک خود کو ان سے الگ نہیں کرے گا۔مرتضی سولنگی نے واضح کیا تھاکہ کوئی مسلم ملک اسرائیل کے ساتھ کس طرح کے تعلقات رکھتا ہے، یہ ان کا معاملہ ہے۔ ہم ہر ملک اور ان کی پالیسیوں کا احترام کرتے ہیں۔ ساتھ ہی، کوئی ملک ہمیں مجبور نہیں کر سکتا کہ ہم اپنا موقف تبدیل کریں۔ اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے جمعے کو کے اے اےن نیوز اسرائیل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سات مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی تقریر کے فورا بعد اسرائیلی وزیر خارجہ نے نئے مشرق وسطی کا حوالہ بھی دیا۔انہوں نے کہا کہ کم از کم چھ یا سات ایسے ممالک ہیں جن سے میں نے ملاقات کی ہے، اہم مسلم ممالک، جن کے ساتھ ہمارے تعلقات نہیں ہیں، جو امن میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں حکومت پاکستان کا موقف دوہرایا ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی طرح پاکستان اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ ایلی کوہن نے کہا کہ یہ ممالک افریقہ اور ایشیا میں ہیں لیکن ان کا نام بتانے سے انہوں نے انکار کیا۔ انہوں نے براہ راست رابطے کا بھی ذکر کیا۔ نگران وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی نے کہا کہ دنیا کے کچھ مسلم ممالک کے بہت عرصے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ ہمارے نہیں ہیں۔ اس کو بہت عرصہ ہو گیا ہے۔ پچھتر چھہتر سال ہو گئے ہیں۔ پاکستان کا ایک اصولی روایتی موقف ہے اور پاکستان کے تمام ادارے اس موقف پر آج بھی کھڑے ہیں۔آج بھی پاکستان کے پاسپورٹ پر واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے علاوہ باقی تمام ممالک کے لیے ویلڈ ہے۔ہم اس موقف پر قائم ہیں۔ جب تک فلسطینیوں کو اپنا آزاد ملک نہیں ملتااور ان کا حق خود اختیاری، ان کا حق خود ارادیت، جو کہ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل میں تسلیم شدہ ہیں، جب تک وہ نہیں مل جاتے تب تک پاکستان اپنے فلسطینی بھائیوں سے خود کو الگ نہیں کرے گا۔ یہی بات وزیر اعظم نے ابھی کہی ہے، یہی بات وزیر خارجہ نے کہی ہے۔ پاکستان کی ریاست، اس کے تمام ادارے، جو ہمارا روایتی موقف ہے فلسطین کے حوالے سے، فلسطین کے عوام کے حوالے سے، اس پر قائم ہیں۔تو کےا نگران وزےراطلاعات کے موقف کو نگران وزےراعظم کے موقف سے الگ سمجھا جائے۔وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے بین المذاہب وہم آہنگی حافظ طاہر محمود اشرفی دو ٹوک طور پر کہہ چکے ہےں کہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات نہیں ہیں، مسئلہ فلسطین اس وقت پوری دنیا کا مسئلہ ہے، اہل فلسطین کو تنہا نہ چھوڑیں گے نہ چھوڑا جا سکتا ہے۔ حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ سات اکتوبر کو غزہ کا واقعہ ہوا، وزارت خارجہ نے اسی دن فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ کیا، وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس کی اور فلسطین کے ساتھ بھرپور حمایت کا اظہار کیا جبکہ پاکستان میں حکومتی سطح پر پاکستان کی جانب سے فلسطین کے لیے امداد روانہ کی گئی ۔انہوں نے کہا کہ کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ میں بھی مسئلہ فلسطین سر فہرست سامنے آیا۔ او آئی سی اجلاس میں بھی پاکستان کا واضح دو ٹوک موقف سامنے آیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر ہماری اساس ہیں اس سے رو گردانی ممکن ہی نہیں۔ نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اتوار کہا تھا کہ ایشیا اور افریقہ کے ایسے کئی مسلم ملکوں کے رہنماﺅں سے ان کی بات چیت ہوئی ہے جو یہودی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے۔نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے واضح کیا تھا کہ ان کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے اور ہم اس حوالے سے بالکل نہیں سوچ رہے ہیں۔میں نے اسرائیلی وزیر خارجہ کو گروپ اجلاسوں میں بھی نہیں دیکھا اور اگر میں انہیں دیکھوں تو بھی انہیں پہچان نہ پاﺅں گا۔پاکستان کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے، جیسا کہ میں نے بارہا کہا، ہمارا موقف بالکل واضح ہے اور میں نے او آئی سی میں دیے گئے اپنے بیان میں اس کی وضاحت کی ہے۔
