وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا ہے کہ دیامر کے عوام پرامن ہیں کسی بے گناہ کو تنگ نہیں کیاجائے گا لیکن سانحہ چلاس کے مجرموں کو نشان عبرت بنائیں گے،گرینڈ امن جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے گلبر خان نے کہا کہ دیامر کے علمااور عوام نے دہشتگردی کے واقعہ کیخلاف جس انداز میں آواز بلند کی ہے وہ قابل تحسین ہے، دیامر کے علمااور عمائدین حکومت کیساتھ کھڑے ہیں۔ سابق ادوار میں جو ناخوشگوار اور دہشتگردی کے واقعات ہوئے ان کو مسلکی رنگ دیا گیا لیکن اس دفعہ دہشتگردوں کی جانب سے جو بزدلانہ کارروائی کی گئی اس کیخلاف دیامر کے تمام علمااور عوام نے متفقہ طور پر مذمت کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ علاقے کے وسیع تر مفاد میں دہشتگردی کے اس واقعے کیخلاف جس کھلے انداز میں علما، عمائدین، یوتھ اور سول سوسائٹی نے حکومت کاساتھ دینے اور دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ وزیر اعلی نے کہا کہ دہشتگردوں کی گرفتاری اور اصل مجرموں کو قانون کی گرفت میں لانے کیلئے حکومت پرعزم ہے۔ دہشتگردی کی اس بزدلانہ کارروائی میں ملوث مجرموں کو بے نقاب کریں گے اور عبرت کا نشان بنائیں گے۔ ہم علمائے کرام اور دیامر کے عوام کے مشکور ہیں جنہوں نے دہشتگردی کیخلاف متحد ہوکر حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دیامر کے عوام محب وطن اور پرامن ہیں۔ دہشتگردی کا یہ واقعہ دیامر پر بدنما داغ ہے۔امن جرگہ سے مولانا خان بہادر،مولانا صادق،مولانا حلیم،مولانا عبدالمالک،مولانا شریف،نمبردار عبدالرحمت،مولانا شکرت و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے سانحہ چلاس میں ملوث عناصر کی گرفتاری میں حکومت کیساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی اور مجرموں کو سر عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔علمائے دیامر کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حکومت کے ساتھ ہیں ۔فورس کمانڈر میجر جنرل کاشف خلیل نے کہا کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کچل دیں گے،سانحہ چلاس میں ملوث دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور انھیں کچل دیا جائے گا،دیامر کے عوام سانحہ میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لئے حکومت اور سیکےورٹی اداروں کیساتھ تعاون کریں ، امن کی بحالی ریاست کی اولین ترجیح ہے ،امن کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والوں کیساتھ سختی سے نمٹا جائیگا ۔سانحہ ہڈور کے ملزمان کسی صورت بھاگ نہیں پائیں گے۔گلگت بلتستان سیاحتی حب ہے ہر سال لاکھوں سیاح اس خطے میں آتے ہیں دیامر کی عوام اپنے علاقے کو امن کا گہوارہ بنائیں اور اپنی صفوں میں کسی بھی شرپسند کو گھسنے نہ دیں،فورس کمانڈر کا مزید کہنا تھا کہ معصوم جانوں سے کھیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہوسکتے ۔پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی ہے، دشمن قوتوں نے ہائبرڈ وار کے ذریعے پاکستان کوکمزورکرنے کی سازشیں کیں۔ جنگ کی نوعیت مسلسل بدل رہی ہے،مستقبل کی جنگ میں غیرروایتی اندازجنگ کااہم کردار ہوگا۔ پاکستان نے ایک طرف دہشت گردتنظیموں کے خلاف جنگ لڑی تودوسری طرف اپنے خلاف ہونیوالی پروپیگنڈہ وار کابھی سامنا کیا۔ پاکستان ففتھ جنریشن وارفئیرکا مقابلہ بھی کررہاہے۔ سی پیک منصوبوں کاآغازہواتوبعض ممالک نے اس کی شدیدمخالفت کی اورچین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے خلاف سازشی مفروضے پیش کرناشروع کردیے۔مغربی ممالک کی طرف سے پاکستان پردباﺅ ڈالاگیاکہ ان منصوبوں سے علیحدہ ہوجائے،لیکن حکومت نے ان منصوبوں کوجاری رکھنے کافیصلہ کیا۔بھارت بھی سی پیک منصوبوں کواپنے مفادات کے خلاف سمجھتاہے،وہ پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اورجدید انفراسٹرکچر قائم ہونے پرپریشان ہے ،سیدھی سی بات ہے پاکستان کی ترقی بھارت کوایک آنکھ نہیں بھاتی۔بھارت،چین اورپاکستان کی مستحکم دوستی سے پریشان ہے،جب بھارت سی پیک منصوبوں کو نہ رکوا سکا،اس نے دوبارہ دہشت گردی کاسہارا لیا۔ان منصوبوں اورچینی ماہرین کو نشانہ بناناشروع کردیا۔خطے اوردنیامیں قیام امن کے لیے عالمی برادری کوپاکستان کی مدد اورحمایت جاری رکھنی چاہیے تاکہ دہشت گردوں کے جوبچے کھچے گروپ رہ گئے ہیں ان کابھی صفایاکیاجاسکے۔پاکستان دہشت گردتنظیموں سے لڑنے اورانھیں شکست دینے کی مکمل صلاحیت رکھتاہے،یہ بھی ثابت ہوگیاہے کہ امریکہ اورنیٹونے دہشت گردی کے خلاف جتنے وسائل اورڈالرز ضائع کیے پاکستان نے اس کاصرف ایک فیصد خرچ کرکے دہشتگردی کاخاتمہ کردیا۔ پاکستان کی دلیر اور باہمت آرمڈ فورسز کی وجہ سے دہشت گردتنظیموں کانیٹ ورک ختم کیا جا چکا ہے۔ دہشت گردوں اور مجرموں کی دیگر قسموں کے درمیان فرق کرنا ایک ایسا پہلو ہے جسے انسدادِ دہشت گردی کی پالیسیوں کے نفاذ کے طریقہ کار کو وضع کرنے میں مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے۔گھناﺅنے جرائم اور فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ملزمان، دہشت گرد سرگرمیوں کے باعث گرفتار مجرموں سے مختلف ہوتے ہیں، لیکن انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ ، جو دہشت گردوں کو سزا دینے سے متعلق ہے، اکثر غیر دہشت گرد مجرموں کے لیے بھی استعمال کی جاتی رہی ہے۔اس طرح کے اقدامات کے خلاف قانونی کارروائیوں میں اس سے نہ صرف عدالتی کار گزاری پر بوجھ بڑھ جاتا ہے، بلکہ ریاستی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ایسی تحقیقات کے طوفان کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا نتیجہ اکثر شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سےبریت میں نکلتا ہے یا پھر وہ انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملیوں کی حقیقی کامیابی پر اجارہ داری قائم کر لیتی ہیں۔کم رفتارسویلین قانونی طریق کار کے باعث، پاکستان نے گرفتار دہشت گردوں کے خلاف خصوصی فوجی عدالتیں قائم کیں۔تاہم، ان فوجی عدالتوں میں بےفیصلہ تحقیقات کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور انہیں مناسب طریقہ کار کے مسائل کا سامنا ہے۔متوازی سویلین اور فوجی ڈھانچے نہ صرف پاکستان کی قومی اور بین الاقوامی برادری میں اعتماد کی خواہش کو کمزور کرتے ہیں بلکہ انسداد دہشت گردی کی حکمت عملیوں کی کامیابیوں کےاستحکام کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ اے پی ایس کے حملے سے پہلے، انسدادِ دہشت گردی اور تدارکِ دہشت گردی کے درمیان خلیج وسیع ترتھی۔ نائن الیون کے بعدشورش کچلنے کی کامیاب کارروائیوں نے پاکستان کو بڑے پیمانے پر کام کرنے کا موقع فراہم کیا، لیکن ساتھ ہی دہشت گردوں کے لئے امید سے بڑھ کر بھر پور جوابی کارروائیاں کرنے کے مواقع بھی فراہم کیے ، جس سے اس کی انسداد دہشت گردی اور تدارکِ دہشت گردی طریق عمل میں ایک اور پرت کا اضافہ ہوا۔ اے پی ایس پشاور کے واقعے کے بعد، پاکستان نے تدارکِ دہشت گردی کی حکمت عملیوں پر انسدادِ دہشت گردی کے ردِ عملی نظام (میکانزم) کو ترجیح دی، جس میں کثیرالجہتی فوجی اور انٹیلی جنس آپریشنز کے ساتھ ایک جامع تر انسداد دہشت گردی پالیسی تیار کی گئی۔پاکستان دہشت گردی کے خلاف سخت جنگ لڑ رہا ہے۔سیاسی عدم استحکام اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اصلاحات کی ضرورت، اس مسئلے میں اضافہ کرتے ہیں، جس سے پچھلی انسداد ِ دہشت گردی کی کارروائیوں کی کامیابیوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔مشترکہ مربوط کارروائیوں کی عدم موجودگی میں پولیس، مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پیرا ملٹری فورس پر حملوں سے دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں اور انتہا پسندوں کو با آسانی کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔پولیس فورس سیکیورٹی برقرار رکھنے کے حوالے سے شدید تنقید کا موضوع رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیس تدارکِ دہشت گردی اور انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حالیہ فیصلے پرانے وعدوں کو تازہ کرتے ہیں اور مختلف نتائج کی امید میں ماضی کے طریقوں کو نئے پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔کسی نئی ادارہ جاتی ترمیم یا قانونی فریم ورک کو اختیار نہیں کیا گیا اور نہ ہی عمل میں نہیں لایا گیا ہے۔ پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی فورسز کیل کانٹے سے لیس ہیں، نظریاتی اور تزویراتی طور پر غیر معمولی ہم آہنگی برقرار رکھتی ہیں اور انہیں بے پناہ سماجی حمایت بھی حاصل ہے، لیکن تدارکِ دہشت گردی کے ادارے نہ تو اچھی طرح سے مسلح ہیں اور نہ ہی مجموعی صورتحال میں ضم ہیں، جو ان کے کام کرنے کی صلاحیت اور پیشگی احتیاطی طریقہ کار کو کمزور کر دیتا ہے۔ہمےں تدارکِ دہشت گردی پر اتنی ہی توجہ دینی ہوگی جتنی انسدادِ دہشت گردی کے طریقوں پر دی تھی کیونکہ اس سے نہ صرف کارروائیوں میں آسانی و تیزی آئے گی بلکہ پاکستان میں دہشت گرد گروہوں اور سرگرمیوں کی تغیر پذیری سے نمٹنے کے لیے متنوع قانون نافذ کرنے والے اداروں کی باہم کار روائیوں کو بھی مدرج کیا جا سکے گا۔دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں، کالعدم تنظیموں اور جرائم پیشہ عناصرکے درمیان گٹھ جوڑ کو توڑنا تدارکِ دہشت گردی کا ایجنڈا ہے ۔گلگت بلتستان میں دہشت گرد اےک بار پھر سر اٹھا رہے ہےں انہےں آہنی ہاتھوں سے کچلنے کی اشد ضرورت ہے وزےر اعلیحاجی گلبر خان نے بجا فرماےا ہے کہ سانحہ چلاس کے مجرموں کو عبرت کا نشان بنائےں گے۔
