ڈپٹی کمشنر شگر ولی اللہ فلاحی نے شگر ڈس اےبلےٹی فورم کے زےر اہتمام عالمی ےوم معذور کے حوالے سے منعقدہ تقرےب میں ممبر جی بی اسمبلی راجہ اعظم کی جانب سے معذور افراد کے لےے ووکےشنل سنٹر کی سکےم منظور کرانے پر مذکورہ سکےم کے لےے زمےن کی فراہمی اور اس سے قبل سوشل سنٹر کی زمےن فراہم کرنے کی ےقےن دہانی کرائی۔ انہوں نے کہا خصوصی افراد معاشرے کا اہم حصہ ہےں جنہےں ساتھ لے کر چلے بغےر معاشرہ ترقی نہےں کر سکتا۔معذوروں کےلئے ووکےشنل سنٹر کی اہمےت سے انکار نہےں کےا جا سکتا‘ٹیکنیکل تعلیم جسے ووکیشنل تعلیم بھی کہا جاتا ہے، کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نوکریوں کی اہل ہے لیکن روزگار کا وسیلہ نہیں، یہ صورتِ حال کافی تشویش ناک ہے کہ ملک میں پڑھنے والے قابل اور ذہین طلبا کے لیے روزگار کے کتنے کم مواقع موجود ہیں۔ اےسے میں معذور افراد کے لےے ملازمتوں کا حصول کس قدر دشوار ہو گا اس کا اندازہ باآسانی لگاےا جا سکتا ہے۔گزشتہ صدی کے اواخر تک روایتی معاشروں میں یہ بات سچ تھی کہ اچھی تعلیمی ڈگری ہی اچھے روزگار کی ضمانت ہوتی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ مراعات یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم طبقہ ہی اپنی اولاد کو وہ تعلیمی ڈگریاں دلوا سکتا ہے جس سے وہ معاشی طور پر محفوظ رہیں۔ اگر طالب علم میں خود محنت کی لگن اور صلاحیتیں ہوں تو وہ ایک الگ بات ہے، اپنے وسائل کے مطابق تعلیم دلوانے کے باوجود والدین کا ایک بڑا حصہ اپنی اولاد کو بیروزگار پاتا ہے کیونکہ آبادی کے اتنے بڑے حصے کے لیے نوکریوں کا حصول ممکن نہیں۔ جن طلبا کے والدین انہیں اتنا پیسہ خرچ کرکے اعلی تعلیم دلا بھی دیں اور یہاں انہیں اپنی قابلیت اور اہلیت کے مطابق پیسہ نہ ملے تو وہ بیرون ملک اچھے روزگار کے لیے چلے جاتے ہیں۔ اس سے ملک میں زرِ مبادلہ تو آتا ہے لیکن اگر سارے باصلاحیت نوجوان ہی ملک سے باہر جانے لگیں تو اسے اچھے دماغوں کا برین ڈرین بھی سمجھا جاتا ہے۔ اعلی تعلیم حاصل کرنا متوسط اور نچلے طبقے کے لیے آسان نہیں۔ ہمارے پاس اب بھی ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم یا مہارتوں کے مطابق روزگار پیدا کرنے کے امکانات موجود ہیں لیکن ایک روایتی سوچ کے تحت ہم نے کبھی اس کو اتنی اہمیت نہیں دی۔ روایت پسندی کے باعث ہمارے یہاں اب بھی ووکیشنل روزگار کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن بہرحال اس سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور وہ بتدریج آرہی ہے۔اس مسئلے کا ایک موثر حل ٹیکنیکل تعلیم پیش کرتی ہے۔ ٹیکنیکل بنیادوں پر مبنی تعلیم کے متعدد فائدے ہیں ۔ اول یہ کہ ایسے ادارے طلبا کو ڈپلوما سرٹیفکیٹ ملنے تک مکمل طور پر تجربہ کار بنا چکے ہوتے ہیں اور انہیں انٹرن شپ کے نام پر کمپنیوں میں ڈگری کے باوجود بلامعاوضہ محنت نہیں کرنا پڑتی اور وہ اپنے کاروبار یا نوکری دونوں کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ان اداروں کی تعلیمی میعاد اور فیس بھی عام اداروں سے کم ہوتی ہے۔ اگر کوئی طالب علم پردیس میں بھی کام کرنے کا شوقین ہو تو ایسے ماہر طلبا کے لیے بیرون ملک بھی زبردست مواقع موجود ہیں۔ لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کا مسئلہ درپیش ہے۔ ڈگریاں ہاتھ میں تھامے لاکھوں نوجوان ملازمت کی تلاش میں سرگرداں ہیں لیکن ملازمت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ دوران ِتعلیم اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق کوئی ہنر یا ٹیکنیکل ایجوکیشن حاصل کرلی جائے تو شاید نوکریوں کی تلاش میں دھکے نہ کھانے پڑیں۔قانون کے تحت ہروہ جگہ جہاں پانچ یا اس سے زائد افراد کام کرتے ہیں، وہاں اپرنٹس شپ کی تربیت دی جاسکتی ہے۔ لیکن تمام کاروباری اور صنعتی مقامات پر اپرنٹس شپ ٹریننگ نہیں دی جاتی بلکہ عموما بڑے صنعتی اداروں میں ہی اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بالعموم ایسے اداروں کی پیشہ وارانہ ساکھ بہت بہتر ہے اور یہاں کے تربیت یافتہ افراد کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ملک کی آبادی کا 63 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، شرح تعلیم 60 فیصد ہے اور موجودہ اعداد و شمار کے مطابق شرح بیروزگاری پندرہ فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔یہ ڈیموگرافی خطرناک ہے ، آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں شرح خواندگی انتہائی کم اور شرح بیروزگاری انتہائی بلند ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام ، معشیت قرضوں میں جکڑی ہوئی ، مہنگائی آسمان کو چھوتی ہوئی اور ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔اگر ووکیشنل ایجوکیشن کو اہمیت دی جاتی تو نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ گلوبل مارکیٹ میں بلیو کالر اوورسیز ورکرز ہوتا اور ماہانہ ایک سے تےن ہزار ڈالر تک کماتا۔بظاہر گریجویشن پروگرامز کو نوجوان زیادہ اہمیت دیتے ہیں اس کی بنیادی وجہ وائٹ سکالرز ملازمت کے بڑے مواقع ملنا ہیں۔ مگر اعداد و شمار دیکھیں تو موجودہ دنیا میں 63 کروڑ کے لگ بھگ انسان وائٹ کالر جابز کر رہے ہیں مگر دوسری طرف صرف امریکہ میں چودہ کروڑ سے زائد افراد بلیو کالر جابز کر رہے ہیں۔بالفرض ایک نئی فیکٹری کھل رہی ہے وہاں وائٹ کالر جابز کی شرح اوسطا بمشکل دس سے پندرہ فیصد ہو گی مگر وہاں بلیو کالر جابز کی ضرورت اسی فیصد سے زائد رہے گی۔بلیو کالر جابز کی مانگ دنیا میں ہمیشہ سے زیادہ رہی ہے ، اس وقت صرف آسڑیلیا کو چونتےس فیصد بلیو کالر اوورسیز ورکر کی ضرورت ہے۔بلیو کالر جابز ہمیشہ محفوظ رہیں گی۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس آنے والے چند سالوں میں اپنے عروج پر ہو گی، ایک رپورٹ کے مطابق 2030 تک تےس فیصد وائٹ کالر جابز آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی وجہ سے ہمیشہ کےلئے ختم ہو جائیں گی۔اس وقت لاکھوں نوجوان ایسے ہیں جنہیں اگر چھ ماہ کے مختصر دورانیے کے کورسز کروائیں جائیں تو وہ اچھا خاصا ریونیو پیدا کر سکتے ہیں۔ہمارا ہر صوبہ ووکیشنل ٹریننگ پروگرامز کےلئے موزوں ہے۔پنجاب کی بات کی جائے تو ایگریکلچر اور کیٹل انڈسٹری اربوں ڈالر کی مالیت کا حجم رکھتی ہے۔ اگر اس انڈسٹری میں ہنر مند ورکرز کو متعارف کروایا جائے تو پاکستان نہ صرف خودکفیل ہو جائے بلکہ لاکھوں بجھتے چولہے پھر سے جل اٹھیں۔سندھ کی دستکاری کی مصنوعات اپنے کلچر اور خوبصورتی کی وجہ سے گلوبل مارکیٹ میں خاصی مانگ رکھتی ہے ، ہنر مند دستکاروں کی کمی ہے، سندھی دستکاریوں کی مانگ میں ہمیشہ اضافہ رہتا ہے۔بلوچستان میں مائن لیبر اور ہارڈ اسکل لیبر ہیں جو انتہائی غربت میں رہتے ہیں ، اگر ان نوجوانوں کو معدنیات کے شعبے میں مختصر دورانیے کے کورسز کروائیں جائیں تو ان کی زندگی پہلے سے کہیں بہتر ہو سکتی ہے۔خیبر پختونخوا میں اسلحہ سازی ، کاشت کاری اور دستکاری کی موروثی صنعتیں زوال پذیر ہیں جنہیں ہنر مند افراد کے ذریعے پھر سے زندہ کر کے گلوبل ایکسپورٹ کو بڑھایا جا سکتا ہے۔کشمیر اور گلگت بلتستان میں سیاحت کا پوٹینشل اربوں ڈالر کا ہے مگر وہاں پروفیشنل مہمان نوازی اور ہوٹل انڈسٹری کی کمی ہے۔ اگرچہ مقامی کمیونٹی انتہائی مہمان نواز ہے اگر وہاں مہمان نوازی کو کمرشل سطح پر کورسز کے ذریعے متعارف کروایا جائے تو ہر سال لاکھوں سیاح وہاں کا رخ کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازےں زراعت ‘کان کنی‘جےم انڈسٹری کی طرف توجہ دی جائے تو روز گار کے مواقع پےدا کےے جا سکتے ہےں۔ووکیشنل ایجوکیشن صرف الیکٹریشن ، پلمبر ، مکینک ، کمپیوٹر آپریٹر اور ٹیکنیشنز تک محدود نہیں ہے اس کے سکوپ میں انتہائی وسعت ہے ،گلگت بلتستان میں ووکیشنل ایجوکیشن پروگرام کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اپنے نوجوانوں کو مستحکم روزگار فراہم کرنے کےلئے ان کی فنی تربیت کی جانی چاہےے ۔ سپیشل افراد کسی بھی طرح کم نہیں ہیں ان میں ہر طرح کی صلاحیتیں ہیں اور یہ لوگ ہر شعبے میں اپنا نام بنا رہے ہیں۔سپیشل ایجوکیشن کے شعبے میں ابھی کام کی بہت گنجائش ہے۔ ایجوکیشن، سپیشل ایجوکیشن، سوشل ورک اور نفسیات کے شعبوں میں اساتذہ کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو سپیشل افراد کے لیے نئے نصاب کی تشکیل کا کام سرانجام دے۔ دور حاضر میں ہونے والی تبدیلیوں اور کوالٹی ایجوکیشن، تعلیم سبھی کے لیے، مسائل اور مواقعے نوجوانوں کے لیے ہنرمندی کی تعلیم، سپیشل ایجوکیشن نصاب، سپیشل ایجوکیشن کو درپیش چیلنجز، آہستہ سیکھنے والوں کے لیے تدریسی سہولیات، جامعات میں معذور افراد کے لیے سازگار ماحول، سپیشل ایجوکیشن میں اخلاقیات، سپیشل ایجوکیشن کے لیے قانون سازی، سپیشل ایجوکیشن کے لیے جدید کلاس رومز، سپیشل ایجوکیشن میں ٹیکنالوجی کا کردار، سپیشل افراد کے لیے تکنیکی اور ووکیشنل ایجوکیشن جیسے اہم موضوعات پر پیشرفت کی ضرورت ہے ۔یوں تو دنیا کی آبادی کا دس فیصد جبکہ پاکستان کی کل آبادی کا سات فیصد حصہ ذہنی و جسمانی معذوری سے گزر رہا ہے۔ معیاری تعلیم ہر عام بچے کی طرح معذور بچے کا بھی حق ہے لیکن شاید ہی کسی سکول، کالج اور یونیورسٹی نے اس کا اہتمام کرنے کیلئے اپنے وسائل کا کچھ حصہ ان کو تعلیم اور ہنر دینے پرصرف کیا ہو۔خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت کے فقدان کی تین وجوہات ہیں، والدین اور معاشرے کی عدم دلچسپی،معاشی اور نفسیاتی مسائل اور اس پر ستم یہ کہ ایسے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ادارے پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر کچھ نظر بھی آتے ہیں تو وہ صرف بڑے شہروں تک محدود اور کافی حد تک وسائل کی کمی کا شکار ہیں جبکہ دیہاتوں میں ان بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔لہذا اس جانب توجہ دےنا ازحد ضروری ہے۔
