Skip to content
چیف سیکرٹری گلگت بلتستان ابرار احمد مرزا کوآر ایچ کیو ہسپتال چلاس کے دورہ کے موقع پر ایم ایس آر ایچ کیو ہسپتال چلاس ڈاکٹر سرجن محمد اقبال نے تفصیلی بریفننگ دی اس موقع پر چیف سیکرٹری گلگت بلتستان نے کہا کہ صوبائی حکومت لوگوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے انہوں نے ڈاکٹر وںسے کہا کہ وہ مریضوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آئیں اور مریضوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کریں محکمہ صحت کے اندر بہت جلد اصلاحات نافذ کی جائیں ۔ پیرا میڈیکل سٹاف کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کے مطالبات ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے ہڑتال کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے آپ کے مسئلے کو میں وفاق سے حل کرنے کی کوشش کرونگا انہوں نے کہا کہ بہت جلد آئی سپیشلسٹ اور نیرو سرجن کی تعیناتی عمل میں لائی جائے گی۔چیف سیکرٹری نے ریجنل ہیڈکوارٹرچلاس سمیت زیر تعمیر دوسو بیڈ اسپتال پر ہونیوالی تعمیراتی پیشرفت کا معائنہ کیا۔ انہوں نے ہسپتال کے گراﺅنڈ فلور پر میڈیکل ایمرجنسی، فرسٹ فلور پر نئے بچہ وارڈ اور زیر تعمیر بلڈنگ کا معائنہ کیا اور تعمیراتی سرگرمیوں کو مزید تیز کرنے کا حکم دیا۔ اس موقع پر ریجنل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں چلاس کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد اقبال اور چیف انجینئر دیامر استور ڈویژن وزیرغلام رسول اور ایگزیکٹو محکمہ تعمیرات عامہ دیامرنے شاہد علی زیر تعمیر دو سو بیڈ ہسپتال کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔چیف سیکرٹری نے اس موقع پر زیر تعمیر ہسپتال کا تعمیراتی کام معیاری بنیادوں پر جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی اور پیرامیڈیکل سٹاف کے مسائل حل کرنے کی یقین دھانی بھی کروائی۔بلاشبہ محکمہ صحت میں مثبت تبدیلیاں اور اصلاحات لانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو علاج کی بہترین سہولیات صوبے کے تمام اضلاع میں ان کی دہلیز پر دستیاب ہوں ۔ہمارے پاس قوم کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ایک مختلف نقطہ نظر ہونا چاہیے اور یہ قومی محکمہ صحت کے اندر تنظیمی تبدیلی سے زیادہ ہونا چاہیے لیکن اس میں صحت کی خرابی کی وجوہات پر توجہ مرکوز کرنا شامل ہے لیکن فنڈنگ اہم ہے: قومی محکمہ صحت کو نقد رقم کی کمی کا سامنا ہے اور یہ دیکھنا مشکل ہے کہ کچھ نقصانات کو بحال کیے بغیر اسے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔اصلاح جس کی ضرورت ہے وہ ان حالات پر عمل کرنا ہے جن میں لوگ پیدا ہوتے ہیں، بڑھتے ہیں، جیتے ہیں، کام کرتے ہیں اور عمر، صحت کے سماجی عامل جو بیماری کا باعث بنتے ہیں۔غریب لوگ ہیلتھ سروس کا زیادہ استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان میں بیماریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ ہمیں صحت کی سروسز پر بوجھ کم کرنے کے لیے صحت میں عدم مساوات کو کم کرنا چاہیے۔ قومی محکمہ صحت لوگوں کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے اور اس وجہ سے ان کے قبل از وقت بیماری کے خطرے کو کم کرنے کے اقدامات میں شراکت دار ہو سکتا ہے۔ہمارے ہاں سارے شعبے ہی توجہ و اصلاحات کے متقاضی ہےں۔تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کی پالیسیوں میں بھی اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔ اعلی تعلیم کی پالیسیوں میں ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ بلکہ اس ملک میں شاید ہی ایسا کوئی محکمہ ہو جہاں اصلاحات کی ضرورت نہ ہو۔ لیکن اصلاحات کے نفاذ سے پہلے ہمیں اس حوالے سے تفصیلی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔موجودہ مباحث اور معاشرے میں ہونے والی گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ ہم نے شعبہ جاتی سطح پر کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔ اگر حکومت مستقبل میں گہری اصلاحات کو لےکر سنجیدہ ہوتی ہے تو ہمارے پاس تمام معلومات ہونی چاہیے کہ کیسے دیگر محکموں میں اصلاحات پر کامیاب عمل درآمد کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام نہایت کمزور ہے۔ بہت سے بچے اسکول جانے سے محروم ہیں جبکہ سرکاری اور نجی اسکولوں میں موجود طلبا کو معیاری تعلیم کی سہولت میسر نہیں ہے۔اس کے باوجود صرف نظام کی نجکاری اور تعلیمی واوچرز وغیرہ دینے کی تجاویز ہی پیش کی جاتی ہیں۔ ان چیزوں کا اصل معاملات سے کوئی گہرا تعلق نہیں تھا اور نہ ہی ان تجویز کردہ اصلاحات پر عمل درآمد یا ان کو تجویز کرنے کی وجہ سے کوئی تعلق تھا۔اگر تصور کریں کہ یہ اصلاحات ترتیب دے دی جاتی ہیں تو کیا ہماری بیوروکریسی میں یہ اہلیت موجود ہے کہ وہ ان اصلاحات پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ بیوروکریسی اور نظام کے معیار کے حوالے سے سنگین خدشات موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان اصلاحات کا نفاذ آسان عمل نہیں ہوگا۔اگر کسی بھی محکمے میں کی جانے والی اصلاحات کی تاریخ پر نظر ڈالیں گے تو معاملہ آپ کے سامنے واضح ہوجائے گا۔1980 کی دہائی کے اختتام اور 1990 کی دہائی کے اوائل میں بھارت کی معیشت بھی سنگین مسائل کا سامنا کررہی تھی۔ بھارت کو اس وقت جن مسائل کا سامنا تھا ان میں بیشتر کا آج ہم خود شکار ہیں۔ بھارت نے اصلاحات کے ذریعے انہیں حل کیا لیکن اگر ہم اصلاحات لانے کے حوالے سے سنجیدہ ہو بھی جاتے ہیں تب بھی ہمیں متعلقہ محکموں کے حوالے سے معلومات اور اصلاحات کے نفاذ کے لیے اہلیت کے فقدان کا سامنا کرنا ہوگا۔کسی مریض کو جب اپنی کسی طبی مشکل کی وجہ سے صحت کے کسی بھی ادارے کا رخ کرنا پڑتا ہے، تو اسکا واسطہ ڈاکٹر سے پڑتا ہے۔ وہی اسکی تشخیص کرتا ہے، وہی دوا تجویز کرتا ہے، اور اگر علاج سے افاقہ نہ ہو تو اگلا لائحہ عمل بھی ایک ڈاکٹر ہی تجویز کرتا ہے گوےا ڈاکٹر نظام صحت کا چہرہ ہے اور ڈاکٹروں سمیت بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر ہی اس نظام کے روح رواں ہیں، اور اس نظام کو ان سے بہتر کوئی نہیں سجھ سکتا۔ حالانکہ اس سارے عمل میں ڈاکٹر کے پیچھے ایک پورا نظام ہے، جس کا بندوبست ڈاکٹر کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اس لئے کیا وہ پورے نظام صحت کی سمجھ بھی رکھتا ہے اور کیا وہ اسے چلانے کے لئے بہترین آدمی ہے، اس سوال کا جواب جاننے کے لئے ہمیں صحت کے پورے نظام کو سمجھنا ہوگا۔ایک عام آدمی چونکہ اپنے مرض کے علاج ہی کے لئے طبی ادارے کا رخ کرتا ہے، اس لیے سب سے پہلے اسی شعبے کی طرف آتے ہیں۔ یہاں سب سے اہم شخص ڈاکٹر دکھائی دیتا ہے، جس کا کام مرض کی تشخیص کرنا اور اسکے بعد اسکا علاج تجویز کرنا ہے۔ یہ وہی کام ہے جس کی ڈاکٹر کو تربیت ملی ہوتی ہے اور جسے وہ سب سے بہتر کرنا جانتا ہے۔ اگر مرض معمولی اور عام فہم ہو اور دوا مریض نے اپنی جیب سے خریدنا ہو تو مسئلہ یہیں پر ختم ہو سکتا ہے، لیکن مرض اگر پیچیدہ ہے، تو معاملہ پھیل جاتا ہے۔ تشخیص کے لئے ٹیسٹوں، ایکسرے، ای سی جی وغیرہ کی ضرورت ہو سکتی ہے اور اگر ان تمام چیزوں سے بھی بات سمجھ میں نہ آئے تو زیادہ سینئر ڈاکٹروں بلکہ دوسرے طبی شعبوں کو شامل کرنے کی بھی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔جب اتنے سارے شعبے اس معاملے میں شامل ہوں گے ، تو ان تمام شعبوں کو ایک دوسرے سے رابطے میں رکھنے کا ایک مربوط نظام چاہیے۔ اس کے باوجود، اور ہر شعبے میں مریض کو ایک علیحدہ قطار میں لگنا پڑے گا۔ چلئے مریض کی تشخیص ہو گئی اور دوا تجویز کر دی گئی۔ اب مریض کو دواوں اور دوسرے علاج کے طریقوں کی دستیابی کا معاملہ درپیش ہو گا۔ اگر اس کی جیب میں پیسہ ہے تو شاید اسے یہ چیزین آسانی سے میسر ہو جائیں، لیکن اگر غریب آدمی ہے، تو دیکھنا پڑے گا کہ کونسی دوائیں ہسپتال فارمیسی میں دستیاب ہیں اور کون سی نہیں، اور جو دستیاب نہیں ان کا انتظام کیسے کیا جائے گا۔اس کے لئے فارمیسی مینیجمنٹ کی بھی ضرورت ہو گی اور مالی منتظم کی بھی جس کے بارے میں ڈاکٹر کچھ نہیں جانتا۔ یہی نہیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جو دوائیں دستیاب ہیں کیا وہ مطلوبہ معیار کی ہیں نہیں۔ اس کام میں بھی ڈاکٹر کوئی مہارت نہیں رکھتا۔ دوائیں میسر آ گئیں تو انہیں استعمال کیسے کرنا ہے، اس کے لئے ڈسپینسر بلکہ ہیلتھ ایجو کیٹر کی ضرورت پڑے گی۔ لیکن یہ معاملات تو ایک آوٹ ڈور مریض کے ہیں۔اگر مریض ہسپتال میں داخل ہے تو نرسوں، بیروں اور صفائی کے عملے کا انتظام و انصرام بھی اپنی جگہ پر ایک الگ معاملہ ہے۔ یہ کام بھی ڈاکٹر کی پیشہ وارانہ تربیت میں شامل نہیں ہے۔ ہسپتال میں ہزاروں لوگ کام کرتے ہیں، ان کی ڈیوٹیاں لگانا، ان کے ہوسٹل اور ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرنا، اور کوئی چھٹی پر چلا گیا تو اسکا بدل تلاش کرنا۔ یہ سب کام ڈاکٹر کے نہیں بلکہ ایک منتظم کے ہیں۔ اسکے لئے افرادی قوت کے انتطام میں ماہر کی ضرورت ہو گی، مالی معاملات کے ماہر چاہیے ہوں گے ۔ زیادہ تر شعبوں کے لئے اسے انتظامی ماہرین کے مددگار چاہیے ہوں گے ۔ اس کے برعکس ایک ایسا شخص جس کی تعلیم و تربیت ہی ایک منتظم کے طور پر ہوئی ہو، وہ چند شعبوں میں ڈاکٹر کی مدد سے اس نظام کو شاید بہتر طریقے سے چلا سکتا ہے۔ پوری دنیا میں اب ہیلتھ کئر منیجر کی تعلیم الگ سے ہوتی ہے جس کے لئے ڈاکٹر ہونا لازمی نہیں ہوتا۔ہمےں دواﺅں کی صنعت، دواﺅں کی کوالٹی اور تجارت کے معاملات دیکھنے ہیں، اتائیت کی روک تھام کرنی ہے، آپ کو ڈاکٹروں، نرسوں، ڈسپینسروں، فارماسسٹ کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ہے۔ حفاظتی صحت کا نظام چلانا ہے، اور ان سب چیزوں کو اپنے محدود وسائل کے اندر مینیج کرنا ہے۔اس شعبے میں بہتری کے لئے مستقل بنیادوں پر انتظامی اصلاحات کی ضرورت ہے جس کے بعد ہی صورتحال میں بہتری آ سکتی ہے۔
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں