وحشت و بربریت کا خونی کھیل

حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا عارضی معاہدہ اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور کل صبح جنگ بندی معاہدہ اپنا وقت مکمل کرلے گا تاہم فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے جنگ بندی معاہدے میں توسیع پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی کے معاہدے کا اطلاق جمعہ سے ہوا تھا جس کے بعد دونوں جانب سے درجنوں یرغمالیوں کو رہا کیا جاچکا ہے۔ اب جنگ بندی معاہدے کے پورے ہونے کے بعد اس کی توسیع کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں تاہم اس حوالے سے اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ یہ میرا مقصد ہے اور یہی ہم سب کا مقصد ہے کہ اس وقفے کو جاری رکھیں، ہم اس سے مزید یرغمالیوں کی رہائی دیکھ سکتے ہیں اوراس کے نتیجے میں غزہ میں مزید انسانی امداد پہنچا سکتے ہیں جس کی وہاں شدید ضرورت ہے۔امریکی صدر نے کہا کہ وہ چاہیں گے کہ لڑائی اس وقت تک رکی رہے جب تک قیدی رہائی نہ حاصل کرلیں۔دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نے اتوار کے روز جوبائیڈن سے ملاقات میں کہا کہ ہم جنگ بندی معاہدے میں توسیع کا خیر مقدم کریں گے تاہم اس کے بدلے حماس روزانہ کی بنیاد پر دس یرغمالیوں کو رہا کرے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ شام ہم یرغمالیوں کے ایک اور گروپ کو واپس لے آئے ہیں جن میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔تاہم اسی دوران نیتن یاہو نے یہ بھی واضح کیا کہ جیسے ہی عارضی جنگ بندی کا خاتمہ ہوگا اسرائیل پوری طاقت کے ساتھ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے حملے کرے گا۔حماس کے رہنماﺅں نے اس دوران مزید بےس سے چالےس اسرائیلیوں کی رہائی کو ممکن قرار دیا ہے۔عرب میڈیا کے مطابق غزہ میں چار روز کی جنگ بندی میں اب تک 175 افراد کو رہا کیا جاچکا ہے، حماس کی جانب سے تین گروپوں میں 39 اسرائیلی شہریوں کو رہا کیا گیا اور اسرائیل نے تین گروپوں میں 117 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جب کہ حماس نے 17 تھائی، ایک فلپائنی اور ایک اسرائیلی روسی شہری کو رہا کیا۔ عارضی جنگ بندی کے تیسرے روز حماس نے اسرائیل کے تےرہ یرغمالی ریڈ کراس کے حوالے کیے، اسرائیلی حکام نے یرغمالیوں کی رہائی کی تصدیق کی ہے۔حماس کی جانب سے رہائی کے بعد انٹرنیشنل ریڈ کراس کے حوالے کیے گئے تےرہ اسرائیلی یرغمالیوں میں دوہری شہریت کی حامل چار سالہ امریکی بچی سمیت نو بچے اور چار خواتین شامل ہیں، اس سے پہلے بھی یرغمالیوں کے دونوں گروپ جنوبی غزہ میں ریڈ کراس کے حوالے کیے گئے تھے۔ادھر امریکی صدر بائیڈن نے یرغمالیوں میں ایک چار سالہ امریکی بچی کے رہا ہونے کی بھی تصدیق کردی ہے، حماس کی جانب سے تےن تھائی شہریوں سمیت ایک روسی شہری کو بھی رہا کیا گیا ہے۔معاہدے کے تحت حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں اسرائیل کو بھی 39 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا پڑا ہے جبکہ معاہدے کے تحت امدادی سامان کے ایندھن اور گیس کے چار ٹرکوں سمیت 120 امدادی ٹرک بھی غزہ میں داخل ہوگئے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں کے بعد غزہ کی 80 فیصد آبادی بے گھر ہو گئی ہے جس کی تعداد 17 لاکھ سے زیادہ ہے، 10 لاکھ سے زیادہ فلسطینی 156 پناہ گزین مراکز میں موجود ہیں، اسرائیلی فوج پناہ گزین مراکز پر بھی بمباری کر چکی ہے۔جنگ بندی کے دوسرے روز حماس نے اسرائیل کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے یرغمالیوں کی رہائی عارضی طور پر موخر کر دی تھی تاہم بعد میں قطر اور مصر کی کوششوں کے بعد 13 اسرائیلیوں اور سات غیر ملکی یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا جس کے بدلے اسرائیل کو بھی 39 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا پڑا تھا۔گزشتہ تےن روز کے دوران رہا ہونے والے ان افراد کو عوامی نظروں سے دور رکھا گیا ہے اور انہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں۔ایک اسرائیلی صحافی نے ان افراد کے ردعمل کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ حماس کی جانب سے یرغمالیوں پر کوئی تشدد یا برا سلوک نہیں کیا گیا۔حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا۔حماس کے اراکین نے یرغمالیوں کو اکٹھے رکھا، لیکچرز کا انتظام کیا اور یوٹیوب دیکھنے کا موقع بھی فراہم کیا۔ قید کے دوران ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا گےا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ڈاکٹر ان کا معائنہ کریں۔اسرائیل کی جانب سے غزہ پر کی گئی حالیہ جارحیت میں روا رکھا گیا وحشیانہ طرز عمل نئی بات نہیں، صیہونی فوج کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف انسانیت سوز کارروائیوں کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے، یہاں تک کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدِ زندگی سے تو رہا ہوجاتے ہیں تاہم ان کی میتوں کو رہائی نہیں ملتی۔قابض صیہونی فوج کی جانب سے حالیہ جنگ کے دوران غزہ کے اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گزین کیمپوں، ایمبولینسوں، مساجد، گرجا گھروں اور قبرستانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق اسرائیل نے غزہ کی حالیہ جنگ میں شہریوں کا تاریخ کا تیز ترین قتل عام کیا، اسرائیلی فوج کے ہاتھوں اڑتالےس دن میں شہید فلسطینیوں کی تعداد امریکا کی بےس سالہ افغان جنگ سے زیادہ ہے۔ اسرائیل نے سات ہفتے کے فضائی حملوں میں عراق جنگ کے پہلے ایک سال سے دگنی تعداد میں شہریوں کا قتل کیا، غزہ میں 48 دن میں شہریوں کی ہلاکتیں یوکرین جنگ میں دو سال کی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہیں۔ غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری میں اب تک 14 ہزار 850 سے زائد فلسطینی شہید اور 36 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔الجزیرہ نیوز نے صیہونی انتظامیہ کے ایک انتہائی ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک کا انکشاف کیا ہے۔اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے ایک سماجی کارکن کے مطابق کہ اسرائیل نہ صرف زندہ فلسطینیوں کو قیدکرتا ہے بلکہ مرنے والوں کو بھی نہیں بخشتا۔ وہ فلسطینی جو کہ اسرائیلی قید میں تشدد یا بیماری سے انتقال کرجاتے ہیں، ان کی لاشیں لواحقین کے حوالے کرنے یا دفن کرنے کے بجائے ریفریجریٹر میں رکھ دی جاتی ہیں تاکہ بقیہ رہ جانے والی قید کی سزا ان کی لاشیں مکمل کرسکیں، اب تک 398 فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں انتقال کرچکے ہیں۔ صرف حالیہ کچھ عرصے میں 142 فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں جان کی بازی ہار چکے ہیں جن میں سے اکثریت نوجوانوں اور بچوں کی ہے، ان کی لاشوں کو سزا پوری کرنے کے لیے ریفریجریٹر میں رکھا گیا ہے تاکہ لواحقین پر ذہنی تشدد کرکے انہیں اجتماعی سزا دی جاسکے، جب کہ یہ سلوک خصوصی طور پر فلسطینی قیدیوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے، اسرائیلی یہودیوں کے لیے ایسا کوئی قانون نہیں۔ قابض صیہونی انتظامیہ متعدد فلسطینی قیدیوں کی لاشیں بے نام قرار دے کر انہیں دفن کرچکی ہے اور قبروں پر نام کے بجائے ان کے نمبر رکھے گئے ہیں، ان میں سے بہت سی لاشیں ایسی ہیں جو 40 سال سے زیادہ عرصے سے وہاں موجود ہیں، گزشتہ سالوں میں قابض صیہونی انتظامیہ 260 سے زائد فلسطینی شہدا کو اپنے مخصوص قبرستان میں دفن کرچکی ہے۔ اسرائیلی قابض انتظامیہ کا یہ گھناﺅنا جرم سالہاسال سے جاری ہے حالانکہ جنیوا کنونشن کے تحت جنگ کے فریقین کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مخالفین کی لاشوں کی باعزت طریقے سے تدفین کریں گے اور جتنا ممکن ہو اس کے مذہب کے مطابق آخری رسومات پر عمل کریں گے، ان کی قبروں کی مناسب دیکھ بھال کے ساتھ اس طرح کا انتظام کیا جائے گا کہ ان کی ہمیشہ نشاندہی ہوسکے۔امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق اسرائیل نے غزہ کی حالیہ جنگ میں شہریوں کا تاریخ کا تیز ترین قتل عام کیا۔ غزہ جنگ کے پہلے دو ہفتوں میں اسرائیل کے غزہ پر برسائے گئے نوے فیصد بم ایک سے دو ہزار پونڈ وزنی تھے۔اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے باوجود اپنی بربریت سے باز نہےں آرہا اور مغربی کنارے میں اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔حماس کی جانب سے بےس یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل نے جنگ بندی ڈیل کے تحت 39 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا تاہم دوسری جانب اسرائیل نے مغربی کنارے کے کیمپ جنین پر حملہ کرتے ہوئے چار فلسطینیوں کو شہید کردیا۔اسرائیلی فوج نے رفح اور خان یونس سے شمالی غزہ واپس جانے والے فلسطینی شہریوں پر بھی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دوافراد شہید اور گےارہ زخمی ہوئے۔مقبوضہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے اسرائیلی افواج کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچانے کا دعوی کیا اور ساتھ ساتھ قابض فوج پر حملوں کی ویڈیوز بھی جاری کرتے رہے۔ القسام بریگیڈز نے اسرائیلی جارحیت خلاف مزاحمت کے دوران چاراہم کمانڈرز کی شہادت کا اعلان کیا ہے۔القسام بریگیڈز کے مطابق ملٹری کونسل کے رکن و شمالی بریگیڈ کے کمانڈر احمد الغندور المعروف ابو انس، بیت لاھیا بٹالین کے کمانڈر وائل رجب المعروف ابو صہیب، شمالی بریگیڈ کے ڈپٹی کمانڈر رفعت سلمان المعروف ابو عبداللہ اور آرٹلری بریگیڈ کے کمانڈر ایمن صیام شہید ہوگئے۔القسام بریگیڈز نے کہا کہ طوفان الاقصی آپریشن میں یہ کمانڈرز بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔حماس کے عسکری ونگ نے شہادتوں کی تاریخ اور مقامات کا اعلان نہیں کیا۔سات اکتوبر کے بعد غزہ پر ہونے والے اسرائیلی حملوں میں القسام بریگیڈز کے ملٹری کونسل کے رکن اور سینٹرل بریگیڈ کے کمانڈر ایمن نوفل بھی شہید ہوگئے تھے۔