آر یچ کیو ہسپتال سکردو کے پیرا میڈیکل سٹاف کی اپنے مطالبات کے حق میں پانچوں روز بھی ہڑتال جاری رہی۔ ہڑتال میں ڈائریکٹر محکمہ صحت سید صادق شاہ کے علاوہ آر ایچ کیو ہسپتال کے ڈاکٹروں جن میں ایم ایس آرایچ کیو ڈاکر محمد اشرف خان ،ڈی ایچ او سکردو ڈاکٹر صابر حسین ڈی ایچ او خپلو ڈاکٹر اشرف کریمی،ڈی ایچ او شگر ڈاکٹر کرامت رضا،ڈی ایچ او کھرمنگ ڈاکٹر بشیر جان ،پی ایم اے بلتستان کے صدر ڈاکٹر شاکر بلتی ،ڈاکٹر محمد سلیم اور ڈاکٹر مہدی علی مہدوی پیرا میڈیکل سٹاف سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دھرنے میں شریک ہوئے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر محکمہ صحت بلتستان ریجن ڈاکٹر سید صادق شاہ اور ایم ایس آر ایچ کیو ہسپتال سکردو ڈاکٹر محمد اشرف خان نے کہاکہ ہم آپ کے جائز مطالبات کے حل کےلئے اعلی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں انشااللہ جلد از جلد پیرامیڈیکل سٹاف کو خوش خبری ملے گی چونکہ پیرا میڈیکل سٹاف محکمہ صحت کے ستون کی مانند ہیں اور ریوائز سروس سٹرکچر تمام پیرا میڈیکل کی ضرورت اور وقت کا تقاضا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ہڑتال پر موجود تمام سٹاف کے جائز مطالبات کے حل کےلئے ہنگامی بنیادی پر اعلی حکام کام کریں گے اور کر بھی رہے ہیں کسی سے کوئی زیادتی نہیں ہو گی اس موقع پر پیرا میڈیکل سٹاف کے صدر اخونذادہ نبی نے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید صادق شاہ ، ایم ایس آر ایچ کیوہسپتال سمیت دیگر تمام اضلاع کے ڈی ایچ اوز کی ہڑتال پر موجود ملازمین کی داد رسی کےلئے آنے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہاکہ محکمہ صحت کے اعلی حکام گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں پیرا میڈیکل سٹاف کے جائز حقوق کے لئے سنجیدہ کوششیںکررہی ہے جس کا منہ بولتا ثبوت ڈائریکٹر سمیت تمام اضلاع کے ڈی ایچ اوز کا ہمارے دھرنے میں پہنچا ہے انشااللہ ہم بھی امید رکھتے ہیں کہ جلد ازجلد ہمارے مطالبات حل ہونگے انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات جب تک حل نہیں ہونگے تب تک کام چھوڑ ہڑتال جاری رہے گی۔ پیرا میڈیکل سٹاف کے مطالبات کی یقین دہانی خوش آئند ہے۔ملک بھرمیں پےرا مےڈےکل سٹاف وقتا فوقتا اپنے مطالبات کے حق می ہڑتالےں کرتا رہتا ہے ہونا تو ےہ چاہےے کہ حکومتےں ان کے جائز مطالبات کے لےے ہڑتال کی نوبت ہی نہ آنے دےں کےونکہ اس سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح ڈاکٹرز کی ہڑتالےں بھی معمول بن چکی ہےں۔اکنامک سروے آف پاکستان 21-20 کے مطابق اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد تقریبا 245987 ہے، جن میں 110000 لیڈی ڈاکٹر ہیں، مگر شادی اور گھریلو مجبوریوں کی بنا پر تقریبا 60 فیصد خواتین تو اپنے پیشے میں کام ہی نہیں کر پاتیں۔ادھر وزارت سمندر پار پاکستانیوں اور افرادی قوت کے اعدادو شمار کے مطابق اس وقت تقریبا 40 ہزار سے زائد ڈاکٹر بیرون ملک کام کررہے ہیں۔ اگر اس وقت پاکستان کی آبادی کے حساب سے دیکھا جائے تو ہمیں چار لاکھ سے اوپر ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ جہاں پر ایک ہزار لوگوں کے لیے ایک ڈاکٹر ہونا چاہیے وہاں پر ڈاکٹروں کی کمی کے باعث ہمارے ہاں دو ہزار سے اوپر لوگوں کے لیے ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ تو اصولی طور پر یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے ڈاکٹر باہر جانے کی بجائے پہلے یہاں پر کام کریں۔ لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ وہ یہاں کام کرنے کی بجائے باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں؟ اس کی سب سے بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں صحت پر جی ڈی پی کا صرف 1.2 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ جو کہ اقوام متحدہ کے مطابق پانچ فیصد ہونا چاہیے۔ تو یہاں پر سرکاری سطح پر صحت کی سہولیات کی کمی کے علاوہ ڈاکٹروں کو جتنے پیسے دیے جاتے ہیں اس سے دگنا کام بھی لیا جاتا ہے۔ڈاکٹروں کے مطابق بات صرف پیسوں کی ہی نہیں ہے۔ بات عزت اور سکون کی بھی ہے۔ ہمارے ہاں جو بھی ڈاکٹرز سرکاری سطح پر کام کرتے ہیں ان کو نہ تو سرکار کی طرف سے عزت دی جاتی ہے اور نہ ہی مریضوں کی طرف سے۔ سرکار بس یہ سمجھ لیتی ہے کہ وہ ہمیں نوکری دے کر احسان کر رہی ہے جبکہ مریض یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے ملازم ہیں اور ذرا سی غلطی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بلکہ دیگر پیرا میڈیکل سٹاف کی غلطیاں بھی ڈاکٹروں کے سر پر تھوپ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر دور دراز علاقوں میں کام کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ڈاکٹروں کی کوشش ہوتی ہے کہ یا تو کسی بڑے شہر کے کسی بڑے ہسپتال میں ان کو ملازمت مل جائے یا پھر وہ باہر چلے جائیں، جہاں پر ان کو پیسے بھی اچھے ملیں گے، اپنی ڈیوٹی سے زائد کام بھی نہیں کرنا پڑے گا اور عزت بھی ملے گی۔ بد قسمتی سے اب بھی پاکستان کے سرکاری شعبہ میں ڈاکٹروں اور پےرا مےڈےکل سٹاف کے لےے حالات اچھے نہیں ہیں۔ اس کے لیے حکومت کو کئی ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جن میں صحت کے بجٹ میں اضافہ کرنا، سرکاری ہسپتالوں اور بنیادی صحت مراکز کی تعداد کو بڑھانا، ڈاکٹروں کو اچھی تنخواہ اور مراعات کی فراہمی تاکہ وہ پرائیویٹ سیکٹر کی بجائے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے کو ترجیح دیں اور نیم حکیموں کے خلاف سخت اقدامات لینا شامل ہیں۔ ڈاکٹروں کو بھی اپنی سوچ میں کچھ تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ میڈیکل کے شعبہ میں آ گئے ہیں تو اس کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات پر لوگوں کے اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے کی بھی کوشش کریں، کیونکہ سرکار اور ڈاکٹروں کے اس رویہ کا خمیازہ اس ملک کے غریب آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ وہ پرائیویٹ مہنگے ہسپتالوں میں جا نہیں سکتا اس لیے اسے یا تو سرکاری ہسپتالوں میں دھکے کھانا پڑتے ہیں اور یا پھر نیم حکیموں کے ہتھے چڑھنا پڑتا ہے۔ گلگت،پاکستان پیرا میڈیکل اسٹاف ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کے صدر انیت حسین نے ضلعی صدر شاہد حسین و دیگر عہدیداروں ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ صوبائی حکومت نے پیرا میڈکس کے لئے سروس اسٹرکچر اور رسک الاﺅنس کی منظوری نہ دی تو 21 نومبر سے احتجاجا کام چھوڑ ہڑتال کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پیرا میڈیکل سٹاف ہیلتھ ڈیلیوری سسٹم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس شعبے سے منسلک لوگ ہمیشہ طبقاتی استحصال کا شکار رہے ہیں۔ اور ترقی جیسے بنیاد حق سے محروم چلے آرہے ہیں۔ مناسب سروس سٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے ابتدائی سکیل میں 30 سے 38 سال خدمات سرانجام دینے کے بعد اسی سکیل میں ملازمت سے سبکدوش ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی تمام معاملات میں ہمیشہ نظر انداز کیا جارہا ہے۔2011 میںحکومت گلگت بلتستان نے 8 درجاتی سروس سٹرکچر کی منظوری دی حالانکہ یہ سروس سٹرکچر بالکل ہی نا کافی تھا کیونکہ اس میں صرف 20 فیصد سٹاف کے لیے ترقی کے مواقع میسر تھے لیکن اس کے باوجود اس پر عمل درآمد میں دو سال لگائے گئے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اس پر بھی اس کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اور سکیل نمبر 17 کی 6 اسامیاں تا حال 10 سال گزرنے کے باوجود SNE میں درج نہیں ہو سکیں ۔ سال 2019 میں اس کی ری نوٹیفیکیشن ہوئی جس میں سکیل نمبر 18 کی 01 اسامی اور سکیل نمبر 19 کی 01 اسامی SNE میں درج نہ ہو سکی۔ جس کی فائل تا حال فنانس ڈیپارٹمنٹ میں زیر التواہے، معمول کی ترقیوں پر بھی غیر قانونی طور پر پابندی لگا کر ظلم کی انتہا کر دی گئی۔ جس کی وجہ سے پیرا میڈیکل سٹاف میں بے چینی دن بدن بڑھتی گئی۔ 2018 میں موجودہ سروس سٹرکچر کو ریوائز کرنے کے لیے مطالبہ کیا گیا لیکن اس فائل کو بھی کیبنٹ تک پہنچنے میں 5 سال کا عرصہ لگا۔ آخر کیبنٹ نے ریوائز سروس سٹرکچر کی منظوری تو دے دی لیکن اسے فیڈرل فنانس ڈویژن اسلام آبادکی منظوری سے مشروط کیا گیا حالانکہ گلگت بلتستان فنانس ایکٹ 2023 کی شق نمبر 24 کے مطابق اپ گریڈیشن کا اختیار گلگت بلتستان کیبنٹ کے پاس ہے۔ فیڈرل فنانس کی منظوری کے لیے بھیجی گئی رسک الاﺅنس کی فائل ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود تا حال التواکا شکار ہے۔اس لےے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ 21 نومبر 2023 سے تمام پیر امیڈیکل سٹاف پورے گلگت بلتستان میں ہڑتال کرے گا اوراس دوران ایمرجنسی کے علاوہ تمام امور معطل رہیں گے۔ہم سمجھتے ہےں کہ حکومت نے سٹاف سے جن مطالبات کی منظوری کا وعدہ کےا تھا انہےں پورا کرنے میں لےت و لعل سے کام نہ لے اور انہےں زےادہ سے زےادہ سہولتےں فراہم کرنے کےلےے ترجےیح بنےادوں پر کام کرے۔
