نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ اٹھائےسویں کانفرنس آف پارٹیز (کوپ) کے اہم اجلاس میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک کے طور پر پاکستان کا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھیں گے، یہ اجلاس متحدہ عرب امارات میں یکم اور دو دسمبر کو منعقد ہوگا۔ بین الصوبائی جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی بڑھانے میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہونے کے باوجود پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ گزشتہ برس موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان کی ایک تہائی آبادی سیلاب سے متاثر ہوئی، پاکستان اپنی ماحولیاتی سفارتکاری سے عالمی ماحولیاتی بحث میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت دی کہ موسمیاتی مالیات اور دیگر امور پر کوپ 28 کے دوران پاکستان کا موقف موثر انداز میں پیش کرنے کے لیے مکمل تیاریاں کریں۔موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کئی ممالک کو قدرتی آفات کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر غیر معمولی بارشیں تباہی پھیلا رہی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے کم ذمے دار ممالک بدترین نتائج کا سامنا کررہے ہیں۔ متاثرہ ممالک عالمی برادری کی جانب سے ٹھوس اقدامات کے منتظر ہیں۔ جی 20 جیسے ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پزیر ممالک کی خصوصی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔ پوری دنیا فوسل فیول کے نشے کی عادی ہوگئی ہے۔ یہ نشہ ختم کروانے کا وقت آگیا ہے، تیل اور ایندھن کی کمپنیوں اور ان کے آلہ کاروں کے احتساب کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات کی تباہ کاری کا سبب صنعتی ترقی ہے، جس کی وجہ ایندھن کا استعمال ہے۔ دوعشرے قبل ہی ماہرین خبردار کرچکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پوری دنیا کو سیلاب اور خشک سالی کا بیک وقت سامنا کرنا پڑے گا۔ کہیں بارشیں زیادہ ہوں گی۔ گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے دریاﺅں میں سیلاب آئے گا اور کچھ خطے خشک سالی کا شکار ہوں گے۔کم ازکم دو عشرے قبل ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کردیا تھا کہ ہم موسم کے رتھ پر سوار تیزی سے میدانِ حشر کی جانب رواں ہیں تو ہم نے سائنسدانوں اور مفکرین کی تنبیہات کو سنجیدہ نہیں لیا۔ جب پانچ برس پہلے پہلی خبر آئی کہ انٹارکٹیکا میں درجہ حرارت بیس درجہ سینٹی گریڈ کی سطح پر آنے کے سبب لاکھوں برس پرانی برف سے ڈھکی چٹانیں ختم ہو رہی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ شاید ہمارے ہاتھ سے وقت نکل چکا ہے ، درجہ حرارت میں تیز رفتار تبدیلی بتا رہی ہے کہ اب سے آٹھ برس بعد دنیا کے کئی خطوں میں زندگی ناقابلِ برداشت ہو جائے گی۔ آج جدید سائنسی دور اور مصروف ترین زندگی میں ماحولیاتی آلودگی ایک بین الاقوامی چیلنج بن چکی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی میں بری، بحری اور فضائی آلودگی بھی شامل ہیں اور ان آلودگیوں کے سبب انسان تو انسان، حیوان، چرند پرند حتی کہ نباتات تک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، کیوں کہ انہیں ایسی کھلی فضا، صاف ہوا اور تر و تازہ ماحول ہی میسر نہیں ،جس میں وہ صحت بخش سانسیں لے سکیں۔ آج جس فضا میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ اسے مختلف کیمیائی مرکبات نے نہایت آلودہ بنا دیا ہے، جس سے کرہ ارض پر زندگی اور زمینی ماحولیات کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔ہم نے پہلے جنگلات کو بے دریغ کاٹنا شروع کیا، دریاﺅں سے بے تحاشا ریت بجری اٹھانی شروع کی ،جس سے دریاﺅں کی سطح میں کھارا پانی عود آیا۔ اس نے سمندروں سے کثیر تعداد میں مچھلیاں پکڑ کر انہیں اپنی غذا بنایا، جس سے سمندری حیات کا وجود خطرے میں پڑگیا۔ جنگلات کے کٹاﺅ سے فضا میں آکسیجن کی کمی ہو گئی۔ فطرت کے حسن کو فیکٹریوں سے اٹھنے اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے دھندلا دیا اور ساری فضا زہریلی بن گئی۔سمندروں اور دریاﺅں میں فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے کیمیائی فضلے کی موجودگی نے پانی کو زہر آلود کر دیا۔ قطبین پر وسیع و عریض برفانی تودوں کی شکل میں میٹھے پانی کے ذخائر پگھل پگھل کر سمندر میں داخل ہو رہے ہیں اور ان کیوجہ اور رقبے دونوں میں بتدریج کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ اگر ہم نے قدرتی ماحول کے ساتھ انسانی ترقی کے نام پر سنجیدہ مذاق کا سلسلہ بند نہ کیا تو خدشہ ہے کہ آنے والے پچیس سے تیس سال میں ہم ماحول کو اتنا شدید نقصان پہنچا چکے ہوں گے ، جس کی تلافی بھی ممکن نہ ہو گی، ہماری اس عاقبت نااندیشی کے نتیجے میں نہ صرف دوسرے جانداروں بلکہ خود ہمارا نوع انسانی کا وجود اور مستقبل خطرے میں پڑ چکا ہے۔فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں اور ان کے فضلات دریاﺅں اور ندیوں میں بہا دیے جاتے ہیں جو پانی کو آلودہ کر رہے ہیں ۔ندیوں میں بہنے والا سیال جتنا شفاف پانی ہوتا ہے اتنا ہی سیاہ بھی ہے فیکٹریوں کے دھوئیں اور فضلات میں ہیلوجن، سلفر اور نائٹروجن کے مرکبات کاربن مونو آکسائیڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈرو کاربن، ہائیڈروجن سلفائیڈ، کرومیم، لیڈ اور کاپر کے علاوہ آرسینک جیسی خطرناک دھات بھی شامل ہوتی ہے جن سے ہماری صحت کو کئی طرح کے نقصانات و بیماریاں، دل کے امراض، اعصابی امراض، ذہنی و جسمانی امراض، پیٹ کی بیماریاں، گردے کی بیماریاں اور کینسر جیسے مہلک امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں تعلیمی و تحقیقی میدان میں اس موضوع پر اب تک ہونے والا کام تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اشد ضروری ہے کہ اعلی تعلیمی اداروں خصوصا جامعات میں اس سلسلے میں تحقیقی مراکز اور جدید تجربہ گاہیں قائم کی جائیں اور ماہر افرادی قوت پیدا کی جائے۔ تحقیق کے چند اہم توجہ طلب نکات میں موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار مقامی انسانی و قدرتی عوامل کو جانچنا، فضائی آلودگی کی اہم وجوہات جاننا اور اس کی نقل و حرکات کا بروقت جاننااور موسمیاتی تبدیلی انسانی صحت ، مزاج اور رہن سہن ، بیماریوں کے پھیلاﺅ، زراعت اور اجناس کی پیداوار ، زمین اور پانی کے حساس ماحولیاتی نظام پر اثرات کا جائزہ لینا اور اس کے ساتھ ساتھ ان اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے حل تلاش کرنا اور حکمتِ عملی واضح کرنا شامل ہوسکتے ہیں۔حکومتی سطح پر ماحولیات کے قوانین پر عمل کروانا، صنعتوں سے زہریلی گیسز کے اخراج کو کم کرنا، جنگلات کے کٹاﺅ کو روکنا اور نئے جنگلات لگانا، شہری علاقوں میں کوڑا کرکٹ کا بہتر نظام بنانا، فضلہ جات ٹھکانے لگانے والی جگہوں کا مناسب انتخاب کرنا، گرین انرجی کی پیداوار کو بڑھانے کے لئے اقدامات کرنا، نئے شہر بسانا اور اس حوالے سے عوامی سطح پر احساسِ ذمہ داری جگانا اور تربیتی پروگرامز منعقد کرنا وغیرہ شامل ہیں۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی آف پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی آفات اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے دن رات کوشاں ہے جس کی وجہ سے جانی نقصان میں کمی آئی ہے اور قیمتی املاک کو بچانے میں مدد مل رہی ہے اور عوام میں اس بارے آگاہی مہم کے ذریعے شعور بھی بیدار ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماڈلز، ورکشاپس، ٹرینگز، لیکچرز کے ذریعے اس میدان میں تربیت یافتہ افراد پیدا کرنا اور تعلیمی، صنعتی اور متعلقہ سرکاری اداروں کے اساتذہ اور سٹاف کو تربیت دینا، عوامی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے اسباب اور اثرات کے بارے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر عوام کے لئے آگاہی مہم چلانا اور رہنمائی کرنا بھی شامل ہے تاکہ وہ اس معاملے میں ذمہ دار شہری کا کردار ادا کرسکیں۔اس کے علاوہ مقامی ، علاقائی اور عالمی سطح پر تحقیق کرنے ، انفرادی سطح پر تحقیق کرنے، انفرادی اور ادارتی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ علمی و تحقیقی اور ٹیکنالوجی کے موجودہ خلا کو کم کیا جاسکے اور اجتماعی کوششوں کو فروغ دیا جاسکے۔ ملکوں اور اداروں کے درمیان موسمیاتی اور دیگر متعلقہ معلومات کا بروقت تبادلہ اور اس میدان میں مزید محققین اور تربیت یافتہ افرادی قوت پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا جانا چاہئے۔موسمیاتی تبدیلی آب و ہوا کے قدرتی نظام میں بگاڑ کا نام ہے جس کی بڑی وجہ انسانی طور طریقوں، معمولات، استعمالات اور خواہشات میں بگاڑ کا پیدا ہونا ہے جن میں قدرتی وسائل، مثلا پانی، خوراک، لکڑی اور زمین کا بے تحاشا اور بلاضرورت استعمال اور ان کا ضیاع شامل ہے۔ انفرادی و اجتماعی طور پر ہمیں چاہیے کہ اپنی بڑھتی ہوئی خواہشات کو محدود رکھیںاوراللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کی قدرکریں اور ضرورت کے احساس کے تحت چیزیں استعمال کریں، پلاسٹک کے لفافوں اور اس سے بنی دوسری اشیا کے استعمال کو کم کرتے جائیں، پانی کو ضائع ہونے سے روکیں اور اگر ممکن ہو سکے تو استعمال شدہ صاف پانی کو ری سائیکل کریں۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے بھرپوروسائل کی وجہ سے کسی حد تک موسمیاتی تبدیلی کے برے اثرات کا مقابلہ کررہے ہیں لیکن مالی مشکلات ، تحقیقی وسائنسی سہولیات کے فقدان اور تربیت یافتہ افراد کی کمی کے ساتھ ترقی پذیر اقوامِ عالم موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا سامنا کرنے سے عمومی طور پر قاصر نظر آتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے حوالے سے موسمیاتی تبدیلی کے نمایاں اثرات میں انسانی صحت کو خطرات، غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی، وبائی امراض کے پھیلاﺅ میں اضافہ ، خشک سالی، گلیشےئرز کے پگھلاﺅ اور سطح سمندر میں اضافہ ، موسموں کے دورانیے میں تغیر اور شدت، سیلاب اور گرمی و سردی کی لہروں میں اضافہ شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی جہاں ناپائیدار ترقی اور سماجی تفریق اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم میں اضافے کا سبب ہو سکتی ہے، وہاں اس کی وجہ سے املاک، جانوروں اور فصلوں کا نقصان، بے ہنگم نقل مکانی، بھوک و افلاس اور بیماریوں سے اموات میں اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔
