گلگت بلتستان کے معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ نے کہا کہ اب آستین چڑھا کر لڑنے کا دور ختم ہو چکا ہے ایک وقت تھا جو زیادہ کرتا جھگڑتا تھا اسے بہادر سمجھا جاتا تھا اب جو عقل ، دلیل ، علم اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں بہادر ہیں اسلئے نوجوان اس حوالے سے خود کو مضبوط کریں۔اپنے پیغام میں ایمان شاہ نے کہا کہ اب ہمیں نوجوانوں کی کردار سازی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اس مقصد کیلئے نوجوانوں کے ساتھ بھی سیشن رکھیں گے اس سے قبل نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع اور مثبت سرگرمیاں پیدا کرنی ہوں گی۔نوجواں کو مطلوبہ سہولیات مہیا کرنے کے بعد ہم ان سے پوچھےں گے انہےں کےا چاہےے ۔ےہ درست ہے کہ ہمارے ہاں نوجوانوں کے مسائل پر موثر انداز میں کام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے وہ بے روزگاری، معیاری تعلیم کے فقدان، جرائم، منشیات اور مذہبی انتہا پسندی جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔2021 میں پاکستان میں کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح نو اشاریہ 41 فیصد تھی۔ پاکستان میں مرکزی سطح پر نوجوانوں میں نشے کے حوالے سے اعداد وشمار مرتب نہیں ہوتے لیکن اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2013 کی میں پاکستان میں چھ اشاریہ چار ملین افراد منشیات کا شکار تھے اور منشیات لینے والے نوجوانوں کی شرح 25 فیصد تھی۔ سب سے کم عمر منشیات لینے والوں کی عمر اوسطا 15 سے 19 برس تھی۔مذہبی عدم رواداری کا بڑھتا ہوا رجحان، مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت بھی وہ مسائل ہیں جن کا پاکستانی نوجوان کو سامنا ہے۔ کچھ ماہرین جبری گمشدگی کو بھی پاکستان کے کچھ علاقوں کے نوجوانوں کے مسائل میں شامل کرتے ہیں۔لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں اور ان میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ لہذا اگر حکومت معیشت کو فروخت دینا چاہتی ہے تو پیداواری لاگت کو کم کرنا ہوگا تاکہ نوجوانوں کو روزگار میسر آسکے۔پاکستان میں چالےس ہزار سے زیادہ طالب علم کیمبرج امتحان دیتے ہیں۔ صرف انہی میں سے نوجوانوں کی ایک تعداد روزگار حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہے لیکن دو کروڑ سے زیادہ غریب بچہ جو اسکول سے باہر ہے یا جو اچھی تعلیم حاصل نہیں کر پاتا، تو وہ اعلی تعلیم حاصل کیسے کر سکتا ہے اور جاب مارکیٹ میں کیسے اپنا حصہ لے سکتا ہے۔کئی ماہرین کے خیال میں پاکستان میں مذہبی عدم رواداری اور انتہا پسندی دونوں میں اضافہ ہورہا ہے، جس کے شکار نوجوان ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں نوجوانوں کے مسائل کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ گلگت کے کچھ علاقوں میں تعلیم کی بہت بلند شرح ہے لیکن وہاں پہ خودکشیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے کیونکہ نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں نوجوانوں میں باغیانہ خیالات پروان چڑھ رہے ہیں۔طلبہ یونین پر پابندی سے بھی نوجوانوں کے مسائل میں اضافہ ہوا۔ طلبہ یونین کی وجہ سے نوجوان سیاست میں آتے تھے۔ نہ صرف یہ کہ طلبہ یونین کو بحال کیا جانا چاہیے بلکہ بلدیات، صوبائی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں نوجوانوں کی نمائندگی کے لیے کوٹا مختص کیا جانا چاہیے۔ نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر بینک نوجوانوں کو قرضے فراہم نہیں کرتے کیونکہ صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور صنعت لوگوں کو روزگار فراہم نہیں کر پا رہی۔ اس لیے جو نوجوان خود اپنے چھوٹے کاروبار کرنا چاہتے ہیں یا آئی ٹی میں کوئی فری لانس ورک کرنا چاہتے ہیں ان کی حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور انہیں مالی مدد فراہم کی جانی چاہیے۔ پاکستان اپنے نوجوانوں کو انسانی سرمایہ یا ہیومن کیپیٹل کے طور پہ بھی استعمال کر سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے شعبوں میں اپنے نوجوانوں کو تیار کر کے ان ممالک سے بات چیت کریں اور اس ہیومن کیپیٹل کو ایکسپورٹ کریں۔روزگار کی فراہمی حکومت کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ معاشی ترقی کا عمل جاری رہے تو روزگار کے مواقع خود بخود ہی پیدا ہوتے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ترقی یافتہ ملکوں میں نہ صرف مقامی آبادی مکمل طور پر بر سر روزگار ہوتی ہے بلکہ انہیں دوسرے ملکوں سے بھی افرادی قوت در آمد کرنا پڑتی ہے۔ نوجوانوں کو ہنر مند بنانا کسی ملازمت کے بغیر اپنی روزی آپ کمانے کے قابل بنانا بھی بے روزگاری کے چیلنج سے نمٹنے کا ایک موثر ترین ذریعہ ہے۔ آج کل فری لانسنگ اور آن لائن کا دور دورہ ہے۔ چنانچہ حکومت کو چاہئے کہ آن لائن روزگار کے مواقع بھی پیدا کرے جس کا دائرہ کار پوری دنیا تک وسیع ہونا چاہئے۔ محنت، مشقت، عزم، حوصلے، سادگی اور خلوص کے پیکر بغیر سرمائے کے بھی دنیا میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کی ایک دو نہیں ہر شعبے اور طبقے سینکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مغربی دنےا میں امیر اور غریب دونوں کےلئے ترقی کے یکساں مواقع میسر ہیں۔ ان معاشروں اور ممالک میں کوئی بھی شخص اپنی انتھک محنت، توجہ اور صلاحیت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے کا خواب پورا کرسکتا ہے، ہمارا معاشرہ تو بانجھ پن کا شکار ہے۔ یہاں پر جائز اور سسٹم کے طریقے پر چل کر اعلی منصب، دولت، ترقی اور شہرت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ غریب کی اولاد بھی کامیابی کی معراج اور ترقی کے زینے پر چڑھ سکتی ہے۔پاکستان میں یہاں نوجوان نسل کے مسائل کا حل یا ان کے مستقبل کے لیے بہتر مواقع فراہم کرنے کی بحث حکومتی ترجیحات میں کہیں دور ہی معلوم ہوتی ہے۔تعلیم، صحت، روزگار اور تحفظ، کیا بہترین مستقبل کی یہ ضمانت پاکستانی نوجوان کے پاس بھی ہے؟مگر وہ مایوس ہیں۔نوجوان ذہنی مریض بن گئے ہیں، اکثریت روزگار کے لیے غیرقانونی طریقوں سے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں اور یورپ پہنچنے سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ملک میں جمہوری حکومتیں بھی آئیں اور فوجی مارشل لا بھی دیکھے لیکن نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لیے نہ تو منتخب حکومتوں نے کام کیا نہ ہی فوجی حکومتوں نے۔مسائل کا حل یہ ہے کہ یہاں کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دیں، کارخانے لگائیں، اعلی تعلیمی ادارے قائم کریں نوجوان سمجھتے ہیں کہ انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کو کاروبار سمیت مختلف شعبوں کے بارے میں رہنمائی فراہم کرنے کے لیے کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں۔ پاکستان میں نوجوانوں کے پاس ترقی کے بہت سے مواقع موجود ہیں جہاں ایک جانب بےروزگاری زیادہ ہے وہیں ایسے نوجوانوں کی بھی کمی نہیں جو اچھے عہدوں پر براجمان ہیں یا کامیابی سے کاروبار چلا رہے ہیں۔نوجوان طبقہ چاہے تو اپنی تقدیر خود بدل سکتا ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد سی وی لے کر نوکریاں ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں، بدقسمتی سے ملک میں چھوٹے پیمانے پر بزنس، میڈیم سکیل انٹرپرائزز، یا سول سروس کی کوشش ہی نہیں کی جاتی، مینوفیکچرنگ کا چھوٹا یونٹ کھولنا، یا ملک میں انڈسٹریل کلچر کو فروغ دینا، یہ سب نظر نہیں آتا، مائیکروفنانسنگ موجود ہے، مگر کوئی اس جانب نہیں آتا۔نوجوانوں کو پھیلتی ہوئی گلوبل مارکیٹ میں خود کو منوانا چاہےے ۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں بیس لاکھ سے زائد افراد بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں،جن میں ڈاکٹرز، انجینیئر اور اساتذہ کی بڑی تعداد شامل ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ بھی مختلف پیشوں کی بنیادی تربیت میسر نہ ہونے کے باعث مجموعی قومی پیداوار میں اپنا موثر حصہ ڈالنے سے قاصر ہے۔ماہرین کے خیال میں ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے تربیتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی رہنمائی اور ملازمت اور کاروبار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد آبادی میں سب سے زیادہ ہے۔ بیس برس گزر گئے ہیں۔ یہ تعداد کم نہیں ہوئی ۔ کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے نوجوانوں کی تعداد کا کل آبادی سے نسبتا شرح میں زیادہ ہونا خوش آئند ہے لیکن پاکستان میں یہ نوجوان اب تک اس ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لیے مثالی کردار کیوں ادا نہیں کر رہے؟ پاکستان کے نوجوان کسی ملک کی مجموعی تعداد کے مقابلے میں زیادہ ہونے کے باوجود اس ملک کی ترقی و خوشحالی میں نمائندہ پوزیشن پر دکھائی کیوں نہیں دیتے؟ ان سے کام کیوں نہیں لیا جا رہا۔ ان پر بھروسا کیوں نہیں کیا جاتا۔ ان کی صلاحیتوں کو تراش کر ترقی کی راہ پر گامزن کیوں نہیں کیا جا رہا۔ ان نوجوانوں کو ہر سیاسی لیڈر نے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا ہے۔اتنی تعداد اگر دنیا کے کسی اور ملک میں موجود ہوتی تو وہ ملک دنیا کی کمان سے کائنات کو نکیل ڈال لیتا۔پاکستان میں ہر تیسرا بچہ بنیادی تعلیم سے محروم ہے، یہ ریاست کی ناکامی ہے اور ریاست کبھی اس کی ذمہ داری نہیں لیتی۔ پڑھے لکھے اور اعلی تعلیم یافتہ کیا کرتے ہیں؟ ان کی ایک کثیر تعداد باہر کے ملکوں میں چلی جاتی ہے اور وہاں سیٹل ہو کر ملک کو برا بھلا کہتی ہے ۔پاکستان کا تعلیمی نظام اس طرح وضع کیا گیا ہے کہ اس میں یکسانیت نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ پاکستانی تعلیمی اداروں میں تھیوری تھیوری، کتاب، کتاب اور سلیبس سلیبس پڑھایا جاتا ہے۔عملی کام اور پریکٹیکل اور ہم نصابی سرگرمیوں کی مدد سے ایجادات و دریافت کے عمل سے نوجوانوں کو گزارنا تو دور کی بات ہے۔اس ملک کے لاینحل مسائل میں ایک بڑا مسئلہ جو نوجوانوں سے متصل ہے وہ اس ملک کا کلاس سسٹم ہے جس نے اس ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ پاکستانی ریاست نے اس ملک کے نوجوانوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔
