گلگت بلتستان کے وزےر تعلےم غلام شہزاد آغا نے کہا ہے کہ تعلےم سے محروم بچوں کے سکول داخلے کےلئے مہم چلائےں گے۔ےہ مہم اےک ماہ تک چلے گی‘گلگت بلتستان میں تعلےمی انقلاب برپا کرنے کی پالےسی پر گامزن ہےں۔ےہ انتہائی افسوسناک حقےقت ہے کہ بچوں کی اےک بڑی تعداد سکول داخلے سے محروم ہے جس کی بہت سی وجوہات ہےں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ سوا دو کروڑ سے زائد پاکستانی بچے حصول تعلیم سے محروم ہیں۔اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف اور پاکستانی ادارہ برائے ترقیاتی معیشت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس جنوبی ایشیائی ملک میں، جو اپنی مجموعی آبادی میں بچوں اور نوجوانوں کے سب سے زیادہ تناسب والی ریاستوں میں سے ایک ہے، تقریبا 22.8 ملین یا دو کروڑ اٹھائیس لاکھ بچے ایسے بھی ہیں، جن کی عمریں تو اسکول جانے کی ہیں مگر جو حصول تعلیم کے لیے اسکول نہیں جاتے۔یہ تقریبا تئےس ملین پاکستانی لڑکے لڑکیاں ملک میں پانچ سے لے کر سولہ برس تک کی عمر کے نابالغ شہریوں کی مجموعی تعداد کاچوالےس فیصد بنتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں اسکول جانے کی عمر کا تقریبا ہر دوسرا بچہ پڑھائی کے لیے کسی بھی اسکول میں جاتا ہی نہیں۔ یوں مسلم اکثریتی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک پاکستان اس حالت میں نہیں ہے کہ اپنی آج کی نابالغ نسل کی مناسب تربیت کرتے ہوئے ان چیلنجز کا کامیابی سے سامنا کرنے کی تیاری کر سکے، جو اسے مستقبل قریب میں درپیش ہوں گے۔اقصادی منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق پاکستان اپنے ہاں پڑھائی سے محروم کروڑوں بچوں کے لیے حصول تعلیم کو یقینی بنانے میں مسلسل ناکامی کے باعث مستقبل قریب میں لازمی طور پر ایسے حالات کا شکار ہو جائے گا، جو کئی طرح کے بحرانوں کو جنم دیں گے۔ ان میں سے شدید ترین بحرانوں کا سامنا معیشت اور روزگار کی ملکی منڈی کو ہو گا۔بدقسمتی سے کسی بھی پاکستانی حکومت نے تعلیمی شعبے میں طویل عرصے سے پیدا ہو چکی اس ہنگامی حالت کے تدارک کے لیے کافی اور دیرپا عملی اقدامات نہیں کیے۔ جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے، اس تناسب سے نئے اسکول قائم نہیں کیے جا رہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسکول نہ جانے والے زیادہ تر بچے ایسے ہیں، جن کے والدین تعلیم دلوانے کے بجائے مہنگائی کے باعث اپنے بچوں سے مزدوری کروانا چاہتے ہیں۔ ایسے والدین سمجھتے ہیں کہ بچوں کو اسکول بھیجنا وقت کا ضیاع ہے۔ ایسے بچوں کے لیے خصوصی منصوبے ہونا چاہیں۔ انہیں وظیفے دیے جانا چاہیں اور ان کے والدین کو یہ احساس دلایا جانا چاہیے کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کتنی ضروری ہے۔ پاکستان کو اب اس مسئلے کے حل کی جانب بڑھنا ہو گا۔ڈیٹا کی بنیاد پر حکومت اور اداروں کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے معیاری تعلیم کو یقینی بنانا چاہیے۔ خاص طور سے لڑکیوں کی تعلیم لازمی ہونا چاہیے۔ اس بات کو اولین ترجیح بنایاجانا چاہےے کہ بچے ہر صورت اسکول جائیں۔ پاکستان کو پہلے ہی شدید نوعیت کے اقتصادی اور مالیاتی بحرانوں کا سامنا ہے اور اعلی تعلیم یافتہ نوجوان بیرون ملک خاص کر امریکہ یا پھر یورپی یونین کے کسی رکن ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی معاشرے میں اگر ریاست نے اپنے فرائض ادا نہ کیے اور پرائمری اور ہائی اسکولوں میں تعلیم کی عمر کے کروڑوں بچوں کو ناخواندہ رہنے دیا، تو دس پندرہ سال بعد ملک میں جسمانی مشقت کرنے والے مزدوروں میں کروڑوں نئے مزدور شامل ہو جائیں گے۔ ایسا ہونے کی صورت میں پاکستان کو ایک دو عشرے بعد ہی اپنے ہاں اعلی تعلیم یافتہ افرادی قوت اور ماہر پیشہ ور کارکنوں کی کمی کا سامنا بھی ہو گا۔جب کروڑوں پاکستانی بچے اسکول نہیں جائیں گے، تو دس پندرہ سال بعد وہی بچے ان پڑھ نوجوان ہوں گے۔ یہ انتہائی بری صورت حال ہو گی۔ پاکستان کو اپنی قومی ترجیحات کا نئے سرے سے تعین کرنا چاہیے۔ تعلیمی شعبے کو اولین ترجیح دی جائے، تو مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ اگر تعلیمی شعبے پر بھی توجہ مرکوز کی جائے، تو یہ شعبہ بھی ترقی کرے گا؟پاکستان میں ہر بچے کے لیے تعلیم ریاست کی پہلی ترجیح نہیں ہے ہمارے ہاں جاگیردارانہ نظام ہے، جو اس بات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا کہ عام شہریوں کے بچے بھی اعلی تعلیم حاصل کریں۔ وسائل پر قابض جاگیرداروں کے اپنے بچے تو اعلی تعلیم حاصل کر لیتے ہیں۔ آج سے پندرہ بیس سال بعد کی دنیا یکسر مختلف ہو گی۔ تب اس میں وہ پاکستانی نوجوان فٹ نہیں ہو سکیں گے، جو اس وقت کم سن ہیں اور تعلیم سے محروم۔آئےن کے آرٹیکل پچیس اے کے تحت ریاست کی ذمے داری ہے کہ چھ سال سے سولہ سال تک کی عمر کے ہر بچے کو مفت تعلیم دی جائے لیکن ہمارے ہاں تو سوا دو کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ان شرمناک حالات میں ماضی قریب کے مقابلے میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث مزید دس سال بعد تو صورت حال اور بھی پریشان کن ہو جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ ہر دو سال بعد جب پاکستان میں بچوں کی تعلیم سے متعلق یونیسیف کی رپورٹ جاری ہوتی ہے، تو اس کے بعد حکومت کیا کرتی ہے؟ جواب ہے: کچھ نہیں کرتی۔ اب بھی کچھ نہیں ہو گا۔ آرٹیکل پچیس اے کی حد تک تو ریاست ناکام ہو چکی ہے۔ عام والدین گھروں کے کرائے دیں، بجلی کے بل ادا کریں یا پھر بچوں کی فیسیں؟ تو وہ مجبورا بچوں کو اسکول بھیجتے ہی نہیں یا بھیجنا بند کر دیتے ہیں۔یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ پاکستانی سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار اب رہ کیا گیا ہے۔ لگتا ہے خود ریاست ہی جدید تعلیم کی دشمن ہو چکی ہے۔اگر نئی نسل کو مستقبل کے لیے یوں تیار کیا جائے گا، تو کیا پہلے سے موجود سماجی، مالی اور اقتصادی بحران شدید تر نہیں ہوں گے؟عام والدین چاہتے ہیں کہ بچہ دس سال اسکول گیا ہو، تو اس کے ہاتھ میں کوئی ہنر بھی ہو جس سے وہ پیسے کما سکے۔ دوسری طرف حکومت نے سرکاری اسکولوں میں ٹیکنیکل ایجوکیشن تقریبا ختم ہی کر دی ہے۔ اشد ضروری ہے کہ اسکولوں میں ٹیکنیکل ایجوکیشن دوبارہ شروع کی جائے۔ جو بچے اسکول جاتے ہیں، مگر یونیورسٹی نہیں جا سکتے، وہ کوئی نہ کوئی ہنر تو سیکھ سکیں تا کہ کم از کم پیشہ ور کارکن تو بن سکیں۔ہماری تعلیمی پالیسیوں کا جائزہ لیں، تو واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی تیاری پر کبھی سنجیدگی سے کام کیا ہی نہیں گیا۔ دعوے بہت کیے جاتے ہیں لیکن بجٹ میں تعلیم کے لیے مجموعی قومی پیداوار کے تین فیصد سے زائد وسائل رکھے ہی نہیں جاتے۔ ملک میں ایک چوتھائی سے زائد پرائمری اسکول ایک دو کمروں اور ایک دو ٹیچرز پر مشتمل ہیں۔ ایک تہائی پرائمری اسکولوں میں بجلی، پانی اور چار دیواری بھی نہیں۔حکومت کو چاہیے کہ بچوں کی اچھی تعلیم کے ریاستی اور عوامی مستقبل سے لازمی تعلق کو سمجھے اور اس شعبے میں بھرپور نئی سرمایہ کاری کرے۔ والدین بھی ہر حال میں بچوں کی تعلیم کو یقینی بنائیں۔ اس کے لیے پاکستانی حکومت اور عوام دونوں کو نئی نسل کی تعلیم سے متعلق اپنی سوچ میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں باون فیصد بچے جن میں سے اٹھاون فیصد لڑکیاں ہیں، تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں، بلوچستان میں اٹھہترفیصد بچیاں اسکول جانے سے محروم ہیں۔دنیا بھر کے ممالک میں کل بجٹ کا تقریبا پندرہ سے بےس فیصد اور جی ڈی پی کاچار فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کرنے پر زور دیا جاتا ہے، تاہم پاکستان میں جی ڈی پی کا صرف 2.30 فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا گیا ہے جو خطے میں سب سے کم بجٹ ہے۔اس تعلیمی بجٹ کا بھی 89 فیصد حصہ اساتذہ اور تعلیمی عملے کی تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے، صرف گےارہ فیصد بجٹ تعلیمی اصلاحات اور ترقی کے لیے بچتا ہے جو ملک میں تعلیم کی صورتحال بہتر کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ اسکولز کی حد تک محکمہ تعلیم کا ریکارڈ تو مضبوط ہے مگر حیران کن طور پر کئی اسکول ایسے ہیں جو محض ایک ہی کمرے پر مشتمل ہیں۔ اس معاملے میں اساتذہ کا تناسب بھی عالمی معیار تو درکنار پاکستان کے دیگر صوبوں سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ کئی مڈل اسکولز تین سے چار استادوں پر ہی چل رہے ہیں اور متعدد سرکاری اسکولوں میں محض ایک استاد تعینات ہے۔ ہمےں جان لےنا چاہےے کہ تعلیم کی کمی کے حقیقی اور فوری نتائج ہوتے ہیں۔ بعض اوقات بچے سڑکوں پر آ جاتے ہیں جنہیں تشدد، انسانی سمگلنگ، مسلح گروہوں کی طرف سے بھرتی یا لڑکیوں کو جبری شادی کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اقوام متحدہ کے فنڈ کا تخمینہ ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی آفات کی وجہ سے بائےس کروڑ بچوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جن میں تقریبا آٹھ کروڑ ایسے بچے بھی شامل ہیں جنہوں نے کبھی سکول میں قدم نہیں رکھا۔اس لےے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتےں تعلےمی بجٹ میں اضافہ کر کے اس بات کو ےقےنی بنائےں کہ قوم کا مستقبل تعلےم کے حصول سے محروم نہ رہے اس حوالے سے تعلےم کو سستا کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
