اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے، 23 لاکھ افراد کو پانی، کھانے اور ایندھن کی فراہمی معطل جبکہ مواصلاتی نظام منقطع ہے۔اسرائیل کی جانب سے جاری بمباری کے نتیجے میں اب تک نو ہزار 750 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں جس میں تےن ہزار سے زائد بچے بھی شامل ہیں، جبکہ 20 ہزار سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔مغربی اتحادیوں نے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری کی مکمل حمایت کی ہے جبکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے۔یمن کے حوثی باغیوں نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملے کرنے کا دعوی کیا ہے۔اسرائیل اور حماس کے دوران جاری تنازع کے دوران اسرائیل نے وسطی غزہ میں گھروں پر بمباری کردی۔الجزیرہ عربی کی رپورٹ کے مطابق وسطی غزہ میں دیر البلاح اور زویدہ میں دو گھروں پر اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں کم از کم 45 فلسطینی ہلاک ہوئے جب کہ متعدد لوگ لاپتا ہیں۔الجزیرہ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے غزہ پر زمینی حملہ شروع کرنے کے بعد سے اب تک کم از کم 30 اسرائیلی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔اسرائیل کی جانب سے شمالی غزہ پر حملوں اور شہریوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیلی فوج نے شہریوں کو شمالی غزہ سے انخلا کی متعدد ہدایات کیں، جس کے بعد غزہ کے لاکھوں شہری اس پٹی کے جنوب میں منتقل ہو چکے ہیں لیکن جنوبی غزہ میں بھی اسرائیلی بمباری کا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ سے اقوام متحدہ اور دیگر امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں کوئی بھی جگہ عام شہریوں کے لیے محفوظ نہیں۔اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے کہا ہے کہ وہ غزہ کے شہریوں کے ساتھ مختلف طریقوں سے رابطے کرتے ہیں۔ جن میں کتابچے پھینکنا، عربی زبان میں سوشل میڈیا پوسٹس کرنا اور سویلین اور بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے تنبیہات جاری کرنا ہے۔اسرائیلی فوج نے 10 اکتوبر کو کہا تھا کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے رات کو غزہ کے شمالی علاقے رمل اور جنوب میں خان یونس میں 200 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا۔آٹھ اکتوبر کی صبح اسرائیلی فوج کے ترجمان آویچی آدرے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر عربی زبان میں ایک تنبیہ پوسٹ کرتے ہوئے غزہ کے محتلف علاقوں کے رہائشیوں کو ہدایات دی تھیں کہ وہ اپنے گھروں سے نقل مکانی کرتے ہوئے اپنی حفاظت کے پیش نظر کہیں اور چلے جائیں۔اگرچہ انخلا کے علاقوں کو اکثر واضح طور پر بیان کیا جاتا ہے لیکن وہاں کے رہائشیوں کو اکثر زیادہ مبہم انداز میں محفوظ علاقوں کے بارے میں بتایا گیا۔اس واقعے میں وہ لوگ جو اباسان الکبیرہ اور اباسان الصغیرہ میں رہائشی پذیر تھے، انھیں آٹھ اکتوبر کو واضح طور پر کہا گیا کہ وہ وہاں سے نکل کر خان یونس کے وسط میں چلے جائیں۔دونوں علاقوں میں رہنے والوں کے لیے ٹویٹ کی گئی ویڈیو میں شامل نقشہ ان کی موجودہ رہائش گاہوں کو نمایاں کرتا ہے، اور اس پر ایک تیر کا نشان لگا ہوا ہے جو صرف خان یونس کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔11 اکتوبر کو مزید جنوب کی طرف مصر کی سرحد سے ملحقہ علاقے رفح کے وسط میں نجمہ سکوائر پر ایک اور حملہ ہوا۔آٹھ اکتوبر کو ہی اسرائیلی فوجی کی جانب سے جاری وارننگ میں رفح کے باسیوں کے لیے بھی ہدایات تھیں جن میں انھیں فوری طور پر رفح شہر کے وسط میں ایک پناہ گزین کیمپ میں اپنی حفاظت کے لیے جانے کو کہا گیا تھا۔ویڈیو میں دکھائے گئے نقشے میں رفح کے ارد گرد رہنے والوں کو تیر کا نشان لگا کر رفح جانے کے لیے کہا گیا تھا۔آٹھ دن بعد خان یونس کی گمال عبدالنصر سٹریٹ کے علاقے پر دوبارہ ایک حملہ ہوتا ہے۔اسرائیلی فوج نے 16 اکتوبر کو غزہ شہر کے رہائشیوں کو خان یونس کے جنوب میں منتقل ہونے کی وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آپ کو اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت عزیز ہے تو اس طرف چلے جائیں۔وسطی غزہ کے شمال میں چار پناہ گزین کیمپ ہیں۔ 17 اکتوبر کو البوریج کیمپ پر ہونے والے حملے کے بعد کی سوشل میڈیا فوٹیج میں بڑے پیمانے پر ملبہ، آگ کے شعلے اور خون آلود لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ 18 اکتوبر کو اس کے قریب ہی واقع ایک اور کیمپ النصرت پر حملہ کیا گیا۔اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے غزہ کے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے جنوب کی طرف بڑھیں لیکن غزہ کے تمام حصوں میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر حملے جاری رکھیں گے۔اسرائیل کے وزیراعظم بینیامن نتن یاہو نے مشرق وسطی کو تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کہتے ہیں کہ جہاں تک اسرائیل پہنچ چکا ہے وہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔لیکن جب اسرائیلی افواج غزہ کی پٹی پر اپنے حملوں میں اضافہ کر رہی ہیں اور فلسطینیوں کو راستے سے ہٹانے کی بھر پور کوشش میں ہے۔سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اسرائیلی حکام مسلسل کہتے آ رہے ہیں کہ وہ غزہ کی پٹی سے حماس کو فوجی اور سیاسی طور پر اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں یعنی اس زمین سے ان کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔لیکن فوجی طاقت کے بے دریغ استعمال کے علاوہ، اتنے دن گزر جانے کے باوجود اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ اسرائیل اپنے مقاصد کے حصول میں کب اور کیسے کامیاب ہو پائے گا؟تل ابیب یونیورسٹی کے موشے دیان سینٹر میں فلسطینی سٹڈیز فورم کے سربراہ ڈاکٹر مائیکل ملشٹین کا کہنا ہے کہ آپ منصوبہ بندی کے بغیر کوئی بھی تاریخی کامیابی کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس میں فلسطینی امور کے شعبے کے سابق سربراہ ڈاکٹر ملشٹین کو خدشہ ہے کہ منصوبہ بندی تو ابھی بمشکل شروع ہوئی ہے۔مغربی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل کے بارے میں اسرائیلی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور بات چیت جاری ہے، لیکن ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں ہے۔حماس کی فوجی صلاحیت کو کم کرنے سے لے کر غزہ کی پٹی کے بڑے حصے پر قبضہ کرنے تک کے فوجی منصوبے موجود ہیں۔ لیکن جو لوگ ایسے بحرانوں سے نمٹنے کا طویل تجربہ رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جہاں تک منصوبہ بندی کا تعلق ہے، یہی سب کچھ ہے۔اسرائیل کی غیر ملکی انٹیلی جنس سروس موساد کے ایک سابق سینیئر افسر ہیم تومر کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ ہماری افواج کے انخلا کے ایک دن بعد غزہ کا کوئی قابل عمل حل ہے۔اسرائیلی اس بات پر متفق ہیں کہ حماس کو شکست دی جانی چاہیے۔ لیکن ڈاکٹر ملشٹین کہتے ہیں کہ حماس ایک ایسا خیال اور ایک سوچ ہے جسے اسرائیل اتنی آسانی سے نہیں مٹا سکتا۔وہ کہتے ہیں کہ یہ 1945 میں برلن کی طرح نہیں ہے، جب آپ نے رائخ سٹاگ پر ایک جھنڈا لہرایا تھا اور بس سب کچھ حاصل کرلیا تھا۔ اس صورتحال کو آپ 2003 کے عراق سے ضرور ملا سکتے ہیں کہ جہاں امریکی قیادت میں افواج نے صدام حسین کی حکومت کے تمام نشانات کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ڈی باتھیفکیشن، جیسا کہ اسے کہا جاتا تھا، ایک تباہی تھی۔ اس نے لاکھوں عراقی سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کے ارکان کو کام سے محروم کر دیا اور تباہ کن بغاوت کے بیج بوئے۔2003 میں امریکہ کی زیر قیادت حملے کے بعد نئے عراقی سیاسی نظام میں ایک اہم سیاسی جماعت باتھ کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے اتحادی عبوری اتھارٹی اور اس کے بعد کی عراقی حکومتوں کی طرف سے عراق میں اپنائی گئی پالیسی ہے۔بعض مبصرین کے مطابق اسرائیل اور غزہ کی موجودہ صورتحال کو 2003 کے عراق سے ضرور ملایا جا سکتا ہے، کہ جب بیرونی افواج نے عراق میں صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے اور لوگوں کی ذہن سازی کی کوشش کی تھی۔ڈاکٹر ملشٹین کہتے ہیں کہ سابق امریکی فوجی اسرائیل میں موجود ہیں اور فلوجہ اور موصل جیسی جگہوں پر اپنے تجربات کے بارے میں اسرائیلی فوج سے بات کر رہے ہیں یا یہ کہہ لیں کے انھیں سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ اسرائیلیوں کو یہ سمجھائیں گے کہ انھوں نے عراق میں کچھ بڑی غلطیاں کی ہیں۔ مثال کے طور پر حکمراں جماعت کو ختم کرنے یا لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے کے بارے میں کوئی غلط فہمی اپنے ذہنوں میں نا رکھیں۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔فلسطینی نیشنل انیشی ایٹو کے صدر مصطفی برغوتی کا کہنا ہے کہ حماس مقامی سطح پر ایک انتہائی مقبول تنظیم ہے۔ اگر وہ حماس کو ہٹانا چاہتے ہیں تو انھیں پورے غزہ کو نسلی طور پر پاک کرنا ہوگا۔ اسرائیل خفیہ طور پر لاکھوں فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی اور ہمسایہ ملک مصر سے بے دخل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، فلسطینیوں میں ایک نئے خوف کو جنم دے رہا ہے۔ایک ایسی آبادی جو پہلے ہی زیادہ تر پناہ گزینوں پر مشتمل ہے، وہ لوگ جو اسرائیل کے قیام کے وقت بھاگ گئے تھے یا اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے تھے، ایک اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا خیال 1948 کے تکلیف دہ واقعات کی یادیں تازہ کرتا ہے۔ فرار ہونے کا مطلب یک طرفہ ٹکٹ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں واپسی کا کوئی امکان نہیں۔اسرائیلی مبصرین، جن میں سابق سینئر حکام بھی شامل ہیں، بارہا اس بات کی طرف اشارہ کرتے رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو عارضی طور پر سرحد کے اس پار سینائی میں رکھا جائے۔
