تحقیق کے فقدان کا المیہ

 چیف سیکرٹری گلگت بلتستان ابرار احمد مرزا نے کہا ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تحقیق پر بھی توجہ دی جائے تاکہ طلبہ میں چھپی ہوئی صلاحیتیں اجاگر ہو سکیں۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں منعقدہ گرین انٹرپرینیورشپ کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ قوم کے معمار ہوتے ہیں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے محنت کریں۔ تاکہ معاشرے میں حقیقی معنوں میں ترقی اور عوام کے لئے فائدے مل سکیں۔ انہوں نے کہا کہ انسان نے اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہوتا ہے۔ اخلاق سے ہی دلوں میں گھر کیا جا سکتا ہے۔ کانفرنس سے سیکرٹری ماحولیات و جنگلات و جنگلی حیات ظفر وقار تاج نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میڈیسنل جڑی بوٹیاں گلگت بلتستان کے لئے کسی اثاثے سے کم نہیں ہیں انٹرپینیورز بے اپنی بریفنگز میں بتایا ہے کہ جڑی بوٹیاں قانونی طریقے سے فروخت کر کے کروڑوں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ گزشتہ سال ٹرافی ہنٹنگ سے 23 کروڑ روپے کمیونٹیز میں تقسیم کیے گئے جس میں اسّی فیصد رقم کمیونٹی اور بےس فیصد سرکاری خزانے میں جمع ہوتی ہے بالکل اسی طرح جڑی بوٹیوں کو بھی ٹرافی ہنٹنگ کے ماڈل کے تحت قانونی شکل دینے کے لئے حکمت عملی اپنانی جا رہی ہے۔پاکستان کا تعلیمی تصور وہ نہیں جو اصولی طور پر ہمارا ہونا چاہیے تھا۔دنیا سمیت خود ہمارے اپنے ملک میں یہ تصور عام ہے کہ تعلیم ہماری اہم ترجیحات کا حصہ نہیں ۔ تعلیم کے بارے میں سیاسی نعرے بازی اور مقابلہ بازی زیادہ ہے جبکہ عملی اقدامات کمزور اور نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ایک مسئلہ ریاست ، ملک اور معاشرہ کو درپیش سیاسی ، سماجی ، معاشی ، اخلاقی ، انتظامی ، داخلی اور خارجی مسائل کا ہے ۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے تعلیم اور اس میدان میں تحقیق کا عمل ہمیں آگے بڑھنے کا راستہ دیتا ہے لیکن جس انداز کی تعلیم کے میدان میں تحقیق ہمارے یہاں ہورہی ہے اس پر افسوس ہی کیا جانا چاہیے۔ ہماری تعلیمی تحقیق کا معیار نہ تو داخلی اور نہ ہی خارجی سطح پر علمی اور فکری مجالس ، اداروں اور ریاستی نظام میں اپنی قبولیت یا ساکھ رکھتا ہے۔تعلیم،تحقیق اور تخلیق کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔یہ تینوں عوامل کسی بھی ملک اور معاشرے کی ترقی کا ضامن سمجھے جاتے ہیں۔آج انسان ترقی کی جس اسٹیج پر کھڑا ہے یعنی پتھر اور غاروں کی دنیا سے نکل کر فلک بوس عمارتوں میں زندگی بسر کر رہا ہے۔برق رفتار جہازوں میں محوِ پرواز ہے اور چاند ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔بلاشبہ یہ تعلیم،تحقیق اور تخلیق کے ہی ثمرات ہیں۔تعلیم،تحقیق کے لیے راہیں فراہم کرتی ہے اور ہر تحقیق کے بعد کوئی نئی تخلیق وجود میں آتی ہے۔نئی اختراعات کے سبب ہی ترقی ممکن ہے دنیا بھر کی جامعات میں نئی نئی تحقیقیں اور دریافتیں ہورہی ہیں۔دنیا میں رونما ہونے والے واقعات حالات،تغیرات،مسائل اور ان کے حل کے لیے مقالے اور ریسرچ پیپرز شائع ہوتے ہیں۔پریکٹیکل ورک کے ذریعے انسانیت کی فلاح کا سامان تیار کیا جاتا ہے۔جس میں براہ راست وائس چانسلرز اور ان کے ماتحت فیکلٹی پروفیسرز کا کلیدی کردار ہوتا ہے لیکن وطن عزیز کی جامعات فکری جمود کا شکار ہیں۔ہماری تعلیم غیر معیاری ہے۔ بدیں وجہ ہمارا تحقیقی شعبہ زوال پزیر ہے۔جس کا براہ راست اثر تخلیقی شعبے پر پڑ رہا ہے۔اس کی بنیادی وجہ ناقص نظام تعلیم،ناقص نظامِ تدریس،ناقص نظام امتحان اور غیر معیاری تحقیق ہے۔تحقیقی عمل کے دوران اساتذہ کی رہنمائی تسلی بخش نہیں ہوتی ہے اور اساتذہ طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔تحقیق کے لیے عجیب و غریب موضوعات طلبہ کے حوالے کرتے ہیں۔تھیسس کیسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس سڑے نظام میں اعلی ذہین و فطین طلبہ بھی اپنی صلاحیتوں کو تحقیقی میدان میں بروئے کار لانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔معیاری ریسرچ کرنے والے طلبہ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور اکثر کا ڈیٹا سرقہ اور نقل شدہ ہوتا ہے۔حتی کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ بھی گھسے پٹے اور نئی دریافت سے مبرا چند مغربی اسکالرز کی حوالہ جات سے کاغذات کے پلندے جمع کر کے مکھی پر مکھی مار کر ڈگریاں حاصل کرتے ہیں اور ادارے ڈگریاں بانٹنے کی پرنٹنگ پریس بن چکے ہیں۔گویا تمام تر تگ و دو کا مقصد محض ڈگری کا حصول اور جاب ہنٹ کرنا ہوتا ہے۔ہماری جامعات بے روزگاروں اور بےکاروں کی لشکر تیار کر رہی ہیں جو ڈگری ہولڈر ہونے کے باجود ماں باپ،معاشرے اور حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔مدعا یہ نہیں کہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ یا نئی نسل میں صلاحیتوں کی کمی ہے۔مسئلہ ہماری تعلیمی نظام کا ہے جو کہ فرسودہ خطوط پر استوار ہے۔جس میں انقلابی اصلاحات لا کر رائج نصاب کو تحقیقی اور جدید زمانے کے اصولوں سے مزین و ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ ہم فرسودہ اور دقیانوسی نظام سے نکل کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خاطر خواہ کارنامے انجام دے سکیں اور ہماری تعلیم یافتہ نسلوں میں اپنے مسائل خود حل کرنے کی سکت پیدا ہو سکے۔ہمارے ہاں اکثر ریسرچ اسکالرز ڈگری کے حصول کے لئے تحقیق کے نام پر خانہ پری کرتے ہیں جس کی وجہ سے معیاری تحقیق نہیں ہو پاتی اور ڈگری کے حصول کے بعد تو بہت سے محققین اپنے آپ کوتحقیق سے دور ہی رکھتے ہیں جس سے مقدار بھی متاثر ہوتی ہے۔ یوںا سکالرز کی اس طرح کی تحقیق اور طرز عمل سے ہمارے معاشرے کو کچھ حاصل نہیں ہو پا رہا۔ہمارے یہاں یونیورسٹیز کی سطح پر ریسرچ کے شعبے میں تن آسانی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اکثر طالب علم اور کچھ استاد دونوں ہی محنت کرنے سے تائب نظر آتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ ملک میں کاپی پیسٹ کا کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ سرقہ بازی کو جانچنے کے طریقوں کو اس کمال سے دغا دیا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ یوں اصل اور نقل کی تمیز مشکل ہو جاتی ہے اور ایسا صرف اس لئے کیا جاتا ہے کہ بس ڈگری مل جائے۔سیکھنے اور سمجھنے کا اب اکثر کو شغف نہیں۔ اسی طرح ریسرچ کی تعلیم پر مامور اساتذہ میں سے بھی چند پڑھاتے اور سکھاتے کچھ نہیں بس ان کا اتنا فرمان ہوتا ہے کہ یہ کر لیں۔ کیسے کرلیں؟ اس سے ان کو کوئی سروکار نہیں لیکن قصور وار شاید طالب علم اور اساتذہ دونوں میں سے کوئی بھی نہیں کیونکہ جب طالب علموں سے بات کریں تو جن جن مسائل کی وہ نشاندہی کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ درست ہیں اور جب اساتذہ سے بات کریں تو وہ حق بجانب لگتے ہیں تو پھر اصل قصور وار کون ہے اور بہتری کیسے ممکن ہے؟ یہ سوالات بذاتِ خود تحقیق طلب ہیں لیکن چونکہ ملک میں تحقیق بد قسمتی سے ڈگری اور محکمانہ ترقی سے نتھی ہو چکی ہے اور سوشل ریسرچ کوہم ویسے بھی اتنی اہمیت نہیںدیتے لہذا پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ۔جنوب ایشیا کے مشتمل پاکستان کے ان انسٹی ٹیوٹس میں سے کوئی بھی عالمی رینکنگ میں پہلے چھ سو نمبر میںاپنی جگہ نہیں بنا پایا۔اس عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا پہلا انسٹی ٹیوٹ قائد اعظم یو نیورسٹی ہے جو621 ویںنمبر پر فائز ہے۔ اس کے بعد دوسرا پاکستانی انسٹی ٹیوٹ کامسیٹ انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے جو 306 ویں نمبر پر براجمان ہے۔ پاکستان میں تیسرے اور عالمی درجہ بندی میں 649 ویں نمبر پر نیشنل یو نیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد ہے۔ جبکہ پاکستان کا آخری انسٹی ٹیوٹ جو اس درجہ بندی میں شامل ہو پایا ہے وہ اسلامیہ کالج پشاور ہے جو 766 ویں نمبر پر ہے۔عالمی معیشت میں ایجادات اور اختراعات کی تخلیق اور اس کا پھیلاﺅ ترقی اور خوشحالی کی اساس مانا جاتا ہے۔ اس حوالے سے تحقیقی جرائد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ تحقیقاتی نتائج کو فروغ دینے کا سب سے موثر ذریعہ سمجھے جاتے ہیں جو محققین، ماہرین اور طالب علموں کو اعلی تحقیقی علم کے اشتراک کا پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔ ان کا اجرا تحقیقی اداروں کے لئے ہمیشہ سے ایک اعزاز رہا ہے۔اس عالمی درجہ بندی میں پاکستان کے 103 ریسرچ جرنلز شامل ہیں۔ یوں اس تعداد کے ساتھ تو وطنِ عزیز دنیا بھر میں 33 ویں نمبر پر ہے۔ دنیا کے پہلے ساڑھے سات ہزار اعلی تحقیقی جرنلز میںہمارا کوئی جرنل شامل ہی نہیں۔ تحقیق کے میدان میں اس وقت ہماری کارکردگی اگرچہ حوصلہ افزا تو نہیں لیکن ماضی سے بہتر ضرور ہے۔ اس تمام صورتحال کا حاصل تحقیق کے شعبے میں ہماری کمزوری کا باعث بن رہا ہے جس کی وجہ سے اختراعات اور ایجادات کا ہمارا سفر کم ہی اپنی منزل ِ مقصودتک پہنچ پاتا ہے ۔ہر اسکالر کا ریسرچ میں برابر کا رجحان بھی نہیں ہوتا ہے۔ مزید اساتذہ کے پاس زیادہ کام ہونے کی وجہ سے وہ اتنا وقت نہیں دے پاتے جتنا طالب علم تقاضا کرتے ہیں۔ اور تحقیق کے آخری لمحات میں انسانی ہمدردی کے تحت بعض اوقات اساتذہ طالب علم کے حصولِ ڈگری کو ممکن بنانے کے لئے نرم گوشہ اختیار کر لیتے ہیں اور ایسا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ یورپ میں بھی دیکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سوسائٹی میں ریسرچ کی افادیت محسوس نہیں کی جاتی۔ نتیجتا ریسرچ میں خانہ پری کا عنصر پیدا ہوتا ہے مگر عمومی طور پر سپروائزر ریسرچ اسکالر کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہیں اور تحقیق کے عمل کو ہر ممکن طور پر خوشگوار اور آسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔