انتخابات کی تاریخ

ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق عام انتخابات جمعرات آٹھ فروری کو کرانےکا فیصلہ ہوا ہے۔ایوان صدر کی جانب سے بھی اس حوالے سے اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی حتمی تاریخ سے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا جائے گا۔ملک میں نوے روز میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور بتایا کہ الیکشن کمیشن گےارہ فروری 2024 کو ملک میں الیکشن کروانے کے لیے تیار ہے۔عدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ صدر مملکت سے مشاورت کر کے کل عدالت میں الیکشن کی تاریخ سے متعلق آگاہ کیا جائے۔سپریم کورٹ کے حکم پر صدر عارف علوی سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان نے ملاقات کی جس میں الیکشن کمیشن کے ارکان بھی موجود تھے۔الیکشن کمیشن نے 28 جنوری ، چار فروری اورگےارہ فروری کی تاریخوں پر رائے دی، تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے گےارہ فروری کو انتخابات کے لیے موزوں قرار دیا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر صدر سے ملاقات کے بعد ایوان صدر سے روانہ ہوکر الیکشن کمیشن پہنچے جہاں انہوں نے صدر مملکت کو خط لکھتے ہوئے ملک میں گےارہ فروری کو الیکشن کرانے کی تجویز دی۔الیکشن کمیشن نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے گےارہ فروری کو عام انتخابات کی تاریخ تجویز کرتے ہیں۔ذرائع کا کہنا تھا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے درمیان ملاقات میں الیکشن کی تاریخ پر اتفاق نہ ہوسکا جس کے بعد اٹارنی جنرل صدر مملکت کا پیغام لے کر چیف الیکشن کمشنر کے پاس گئے اور صدر مملکت کا موقف چیف الیکشن کمشنر کے سامنے رکھا۔کہا جا رہا ہے کہ اتفاق رائے نہ ہونے پر درمیانی تاریخ کی تجویزدی گئی جس پر اتفاق کیاگیا، صدر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں چار فروری 2024 کی تجویز دی تھی، صدر مملکت چار فروری اور الیکشن کمیشن گےارہ فروری کو انتخابات کرانے پر بضد تھا، اتفاق رائے نہ ہونے پر الیکشن کمیشن حکام ایوان صدر سے واپس آ گئے۔اس کے بعد اٹارنی جنرل بیچ کی راہ کی نکالنے کے لیے ایوان صدر سے الیکشن کمیشن پہنچے، اٹارنی جنرل الیکشن کمیشن حکام سے ملاقات کے بعد واپس ایوان صدر گئے، صدر مملکت سے دوبارہ مشاورت کے بعدعام انتخابات کے لیے آٹھ فروری کی تاریخ پر اتفاق ہوا۔ملک میں نوے روز میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور بتایا کہ الیکشن کمیشن 11 فروری 2024 کو ملک میں الیکشن کروانے کے لیے تیار ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ اس معاملے پر صدر مملکت سے بھی مشاورت کر لی جائے جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکام الیکشن کمیشن اس سے متعلق فیصلہ کریں گے کہ آیا صدر سے مشاورت کرنی ہے یا نہیں۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا الیکشن کمیشن صدر مملکت سے مشاورت کے معاملے پر فیصلہ کر لے پھر کیس کی سماعت کرتے ہیں جس کے بعد الیکشن کمیشن میں اس حوالے سے ہنگامی اجلاس ہوا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کا کہنا تھا صدر سے مشاورت سے پہلے کمیشن کا اجلاس ضروری تھا، ملک میں انتخابات کے حوالے سے جلد صدر مملکت سے مشاورت کی جائے گی، سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کرائیں گے سب نظر آئے گا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کے لیے صدر مملکت سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن جلد صدر پاکستان سے ملاقات کا بندوبست کرے اور مشاورت کے بعد ایک تاریخ طے کر کے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے ملاقات کے بعد الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جو تاریخ دی جائے گی اس پر عمل کرنا ہو گا۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا سپریم کورٹ صرف انتخابات چاہتی ہے کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے، کل تک سپریم کورٹ کو فیصلے سے آگاہ کیا جائے، انتخابات کی جو بھی تاریخ رکھی جائے اس پر سب کے دستخط ہوں اور اس تاریخ میں کسی قسم کی توسیع نہیں ہو گی۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے تو الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کر کے خود آئین کی خلاف ورزی کی۔تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنی استدعا نوے دن میں انتخابات کرانے تک محدود کرلی ہے، آئین کے مطابق اسمبلیاں تحلیل ہونے سے نوے دن میں انتخابات ہونا لازم ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نوے دن میں انتخابات کی استدعا تو پھر غیر موثر ہو گئی، پچھلی سماعت پر کہہ دیا تھا کہ نوے دن میں اب انتخابات ممکن نہیں ہیں۔بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا پی ٹی آئی صرف انتخابات چاہتی ہے، انتخابات کیس سے بنیادی حقوق جڑے ہیں، انتخابات نہیں ہوں گے تو نہ پارلیمنٹ ہو گی نہ قانون بنیں گے، انتخابات کی تاریخ دینا اور شیڈول دینا دو الگ چیزیں ہیں، الیکشن کی تاریخ دینے کا معاملہ آئین میں درج ہے، صدر مملکت نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کیلئے خط لکھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا صدر نے خط میں لکھا کہ عدالت انتخابات کے معاملے کو دیکھے، کیا صدر یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ انتخابات کے معاملے کا نوٹس لے؟وکیل پی ٹی آئی نے کہا صدر نے خط میں لکھا کہ عدالت بھی جائزہ لے سکتی ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا صدر نے خط میں انتخابات کی کوئی تاریخ نہیں دی، کیا صدر مملکت نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کی؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا صدر نے انتخابات سے متعلق مشاورت کرکے اپنی ذمہ داری پوری کی الیکشن کمیشن نے تو صدر کو کہا کہ تاریخ دینا آپ کا اختیار نہیں ہمارا ہے، چیف جسٹس نے کہا کیا وہ خط دیکھ سکتے ہیں جس میں صدرنے تاریخ دی؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا صدر نے تاریخ دینے کا حکم دینا ہے حکومت نے اسے نوٹیفائی کرنا ہے جبکہ چیف جسٹس نے پوچھا صدر نے جس خط میں تاریخ دی وہ کہاں ہے؟چیف جسٹس کا کہنا تھا صدر کو تو تمام طریقہ کار معلوم تھا، صدر کو آرٹیکل 248 کے تحت استثنی حاصل ہے لیکن آپ بتا دیں کہ انہوں نے تاریخ دی کب؟ صدر مملکت کی گنتی درست تھی کہ اسمبلی تحلیل ہونے سے 89واں دن 6 نومبرہے، صدر مملکت نے تو تاریخ نہ دے کر خود آئین کی خلاف ورزی کی۔تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کا کہنا تھا اب ہر شخص آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہر شخص نہیں، آپ بولیں کہ صرف صدر آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ وزارت قانون نے رائے دی کہ صدر مملکت تاریخ نہیں دے سکتے، 90 دنوں کا شمار کیا جائے تو سات نومبر کو انتخابات ہونے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کیا صدر مملکت کو الیکشن کمیشن کو خط لکھنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟چیف جسٹس پاکستان نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا جب صدر نے ہم سے کچھ کہا نہیں تو پھر آپ خط ہمارے سامنے کیوں پڑھ رہے ہیں؟ صدر کے خط کا متن بھی کافی مبہم ہے۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا کہنا ہے کہ صدر سے ملنے سے انکار نہیں کیا اور نہ ملنے کا فیصلہ کمیشن کا تھا، سپریم کورٹ میں ہم نے گےارہ فروری کی تاریخ دی تھی، ہم نے تو صدر مملکت کو خط میں گےارہ فروری کی تاریخ دی تھی، متفقہ فیصلہ ہوا کہ 8 فروری کو عام انتخابات ہوں۔چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ پہلے بھی فروری میں الیکشن ہوتے رہے ہیں، سارے ادارے محترم ہیں لیکن الیکشن کمیشن اپنے موقف پر کھڑا ہے، خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی تحلیل ہوئی تو الیکشن کمیشن نے کہا کہ پورے ملک میں انتخابات ایک ساتھ ہوں، ہر کوئی کہتا ہے الیکشن شفاف ہوں لیکن دوسری جانب مداخلت بھی کی جاتی ہے۔پولنگ ڈے اتوار کو کیوں نہ رکھنے کے سوال پر چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ چلیں اس بہانے اسکول کے بچوں کو ایک اور چھٹی مل جائےگی۔ نگران حکومت بنانا الیکشن کمیشن کا کام نہیں لیکن انہیں چیک کرنا ہمارا کام ہے۔کوئی شک نہیں چیئرمین پی ٹی آئی ملک کے مقبول لیڈر ہیں، وہ ملک کی ایک جماعت کے سربراہ ہیں،ان کو چاہیے تھا کہ تحمل سے کام لیتے۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا خواہش تھی تمام سیاست دانوں کو ساتھ بٹھاتا، میں ماضی میں چیئرمین پی ٹی آئی کو آئیڈیلائز کرتا تھا، خواہش تھی چیئرمین پی ٹی آئی سیاسی ماحول میں تحمل پرمبنی کردار ادا کرتے، آئندہ عام انتخابات میں بلے کا نشان بیلٹ پیپر پر ہوگا۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی ظفر اور ن لیگ کے بیرسٹر ظفراللہ خان نے اتفاق کیا ہے کہ نگران حکومت کا تصور ناکام ہوچکا ہے اور نگران حکومت نہیں ہونی چاہیے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نگران حکومتوں کو اس لیے بنایا گیا تھا کہ نگران حکومتیں نیوٹرل ہوں گی اور صاف شفاف الیکشن ہوں گے لیکن نگران حکومتیں ناکام رہی ہیں۔بیرسٹر ظفراللہ خان نے کہا کہ نگران حکومتیں تباہی ہیں، آئینی ترمیم کے ذریعے نگران حکومتوں کا خاتمہ ہونا چاہیے اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اضافہ کردیا جائے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے قیاس آرائیوں کی تردید کر چکا ہے۔ ترجمان الیکشن کمیشن نے کہاہے کہ انتخابات ملتوی ہونے کا کوئی امکان نہیں، اس حوالے سے افواہوں میں کوئی حقیقت نہیں۔