افغان مہاجرین کی واپسی

حکومت کی جانب سے غیرقانونی تارکین وطن کو ملک چھوڑنے کا الٹی میٹم دیے جانے کے بعد سے اب تک ایک لاکھ 65ہزار سے زائد افغان مہاجرین پاکستان سے واپس جا چکے ہیں۔ حکومت نے غیرقانونی تارکین وطن کو ملک چھوڑنے کے لیے یکم نومبر تک مہلت دی تھی اور یہ ڈیڈ لائن جیسے جیسے قریب آرہی تھی، سرحد پر لوگوں کا رش بڑھتا جا رہا تھا اور پولیس نے گرفتار افغانوں کو حراست میں لینے کے لیے درجنوں ہولڈنگ سینٹرز کھولنا شروع کر دیے تھے۔افغانستان کے حکام سرحد پر ملک واپس لوٹنے والوں کی بڑی تعداد سے نمٹنے سے کوشش کر رہے ہیں اور ان کے حوالے سے لائحہ عمل بنانے کے لیے بھی کوشاں ہیں کیونکہ افغانستان آنے والوں میں سے کئی لوگ ایسے ہیں جو اپنی زندگی میں پہلی بار افغانستان میں قدم رکھ رہے ہیں۔طالبان حکومت کے پناہ گزینوں کے وزیر خلیل حقانی کے مطابق ہم پاکستانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں اور ان سے مزید وقت مانگ رہے ہیں، لوگوں کو باعزت طریقے سے واپس جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ طالبان حکام نے سرحدی گزرگاہ سے کئی کلومیٹر کے فاصلے پر مرکز قائم کیا اور ساتھ ہی ساتھ ان خاندانوں کے لیے کیمپ قائم کیے کیونکہ آگے جانے کی کوئی صورت نہ ہونے کے باعث جگہ تنگ ہونے سے ہنگامی صورت حال پیدا ہو گئی تھی جہاں ہزاروں لوگ پھنسے ہوئے تھے۔پاکستانی حکام نے جمعرات کو سینکڑوں افغانوں کو حراست میں لیا اور کریک ڈاﺅن جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے غیر دستاویزی افغانوں کی رضاکارانہ طور پر ملک سے نکل جانے کی حوصلہ افزائی کی۔ غیرقانونی افغان تارکین وطن ڈیڈ لائن کی وجہ سے بھاری تعداد میں طورخم پہنچے ہیں، لوگ اب بھی رضاکارانہ طور پر واپس جا سکتے ہیں لیکن آج صرف ایک ہزار افراد سرحد پر موجود ہیں۔صوبائی محکمہ داخلہ نے بتایا کہ صرف خیبر پختونخوا سے ایک لاکھ 29ہزار افراد نے افغانستان کی راہ لی ہے جبکہ 38 ہزار 100 بلوچستان چمن سے جاچکے ہیں۔اگست 2021 میں طالبان حکومت کی جانب سے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ایک اندازے کے مطابق چھے لاکھ افراد سمیت پرتشدد تنازعات سے فرار ہونے والے لاکھوں افغان حالیہ دہائیوں میں پاکستان میں داخل ہوئے ۔پاکستان نے کہا ہے کہ ملک میں ہونے والے حملوں میں تیزی آنے کے بعد ملک بدری کا عمل ملکی فلاح اور سلامتی کے تحفظ کے لیے شروع کیا گیا ہے جہاں حکومت پاکستان طویل عرصے سے افغانستان سے سرگرم عمل عسکریت پسندوں پر ان حملوں کا الزام عائد کرتی ہے۔کراچی میں پولیس نے ایک بڑے آپریشن میں 100 سے زائد افراد کو حراست میں لیا جبکہ کوئٹہ میں پولیس نے 425 افغان باشندوں کو گرفتار کیا۔ صرف بدھ کو طورخم بارڈر کراسنگ کا استعمال کرتے ہوئے 24 ہزار سے زیادہ باشندے افغانستان میں داخل ہوئے۔عبدالناصر خان نے کہا کہ وہاں ایک بڑی تعداد کلیئرنس کا انتظار کر رہی تھی اور ہم نے کلیئرنس کا عمل آسان بنانے کے لیے اضافی انتظامات کیے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حکام نے کراسنگ کے قریب قائم کیمپ میں رات گئے تک کام کیا حالانکہ پشاور اور جلال آباد کے درمیان سڑک پر درہ خیبر کے شمال مغربی سرے پر واقع سرحد عام طور پر سورج غروب ہوتے ہی بند ہو جاتی ہے۔حکومت کے جاری کردہ اعداو شمار کے مطابق پاکستان میں سترہ لاکھ غیر قانونی افغان مہاجرین بستے ہیں۔پاکستان کے مختلف سیاسی اور عوامی حلقے کافی عرصے سے مطالبہ کر رہے تھے کہ ملک میں موجود لاکھوں افغان مہاجرین کو اب واپس افغانستان بھیج دیا جائے تاکہ پاکستانی سیاست اور معاشرت پر ان کے منفی اثرات کو ختم یا کم کیا جا سکے۔ دوسری طرف ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ مہاجرین اقوام متحدہ کے قوانین اور حکومت پاکستان کی رضامندی سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔ اس لئے ان کو اس وقت تک واپس نہیں بھیجنا چاہئے جب تک افغانستان میں مکمل امن نہیں آتا یا درکار عالمی تقاضے پورے نہیں کئے جاتے۔دوطرفہ بحث یا دلائل سے قطع نظر اکثریت کی رائے یہ ہے کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے ٹھوس اقدامات اور فیصلے کرنے چاہئیں کیونکہ موجودہ افغانستان میں 80 اور 90 کی دہائیوں کے مقابلے میں حالات اب کافی بہتر ہیں۔ افغانستان میں بھی ایسے حلقوں کی کوئی کمی نہیں جن کا خیال ہے کہ مہاجرین کو بدلتے حالات کے تناظر میں اب اپنے ملک آنا ہی چاہئے۔پاکستان میں ایک عام تصور یہ ہے کہ امن و امان کی خرابی میں مہاجرین کا بڑا ہاتھ ہے۔ جبکہ بعض شواہد بھی یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ مختلف اوقات میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کے واقعات میں افغان مہاجرین اور ان کے کیمپ استعمال ہو تے رہے ہیں۔ یہ رائے بھی بہت عام ہے کہ ان مہاجرین کے باعث پاکستان کی معیشت اور معاشرت کو نقصان پہنچ رہا ہے اور ملکی سیاست پر ان کی موجودگی کے اثرات مرتب ہوتے آئے ہیں۔1981 تک پاکستان میں 33 لاکھ افغان مہاجرین پہنچ چکے تھے۔ جبکہ ایران پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد تقریبا 20 لاکھ تھی۔ 1981-82تک پاکستان کے اندر ان مہاجرین کے لئے تقریبا 300 چھوٹے بڑے کیمپ قائم کئے گئے تھے۔ ابتدا میں یہ لوگ کیمپوں ہی تک محدود رہے تاہم بعد میں حکومتوں کی سستی اور ناقص پلاننگ کے باعث یہ شہروں اور دیگر علاقوں میں پھیلنا شروع ہو گئے اور یوں یہ لاکھوں لوگ عملا پاکستانی معاشرے کا حصہ بن بیٹھے۔ اس کے برعکس ایران نے ان کو کیمپوں تک محدود اور شہروں سے دور رکھا جس کے باعث وہاں کی سیاست اور معاشرت کو مہاجرین کے منفی اثرات سے بچا کر رکھا گیا اور یہ پالیسی پاکستان کے مقابلے میں بہت بہتر اور سود مند ثابت ہوئی۔ پاکستان کے اندر حالات یہ ہیں کہ ان کو کاروبار کرنے اور کھلے عام گھومنے پھرنے کی ایسی ہی اجازت دی گئی جیسے کہ عام پاکستانیوں کو تھی۔ نومبر 1988میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ صرف پشاور اور اس کے مضافات میں تقریبا دس لاکھ افغانی رہائش پذیر ہیں۔ مجموعی طور پرمہاجرین کے تقریبا 75فیصد کو صوبہ خیبر پختونخوا خصوصا وادی پشاور میں بسایا گیا۔ جبکہ 18 فیصد کو بلوچستان کے پشتون علاقوں میں بسایا گیا۔ یوں پاکستان کے دو اہم صوبوں کی پشتون آبادی مہاجرین کے منفی اثرات کی زد میں آ گئی اور اس صورت حال نے ان علاقوں کی معاشرت ثقافت اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ افغان مہاجرین پاکستان کے لئے واقعتا مشکلات پیدا کرتے آئے ہیں اور ان کی واپسی کو اب یقینی بنانا نئے منظر نامے میں اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ مثلا ایک رپورٹ کے مطابق صرف سال 2007 کے دوران 352 افغان مہاجرین کو جعلی پاکستانی پاسپورٹوں پر سعودی عرب کا سفر کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ہمارے اداروں کی کرپشن اور نااہلی کے باعث ان کی بڑی تعداد باہر کے ممالک میں پاکستانی پاسپورٹوں پر ملازمتیں اور کاروبار بھی کرتی آ رہی ہیں۔پاکستان آنے والوں میں اسی فیصد عام افغانی تھے۔ یہ لوگ اگر کیمپوں تک محدود رہتے تو صورت حال قابو میں رہتی۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔ کیمپوں میں اگرچہ ان کی دیکھ بھال اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان کی ذمہ داری تھی تاہم یہ لوگ عملا افغان جہادی تنظیموں اور بالخصوص گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کے زیراثر رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے افغان جہاد کے لئے اپنی سرگرمیوں اور باقاعدہ ریکروٹنگ کے علاوہ پاکستان کی سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کیا اور پاکستان کی جمہوری قوتوں کے لئے یہ لوگ ایک بڑا خطرہ بننے لگے۔ 1980 سے لے کر 1988 تک صوبہ خیبرپختونخوا کے تعلیمی اداروں میں ایک مذہبی جماعت کی طلب تنظیم نے مہاجرین کو اپنے مقاصد کے لئے کچھ اس انداز سے استعمال کیا کہ مقامی طلبا اور ان کی تنظیمیں ان کے ہاتھوں یرغمال بن گئیں اور فریقین کے درمیان بے شمار جھڑپیں بھی ہوئیں۔ پشاور یونیورسٹی جہادی سرگرمیوں کی آماجگاہ بن گئی۔ تشدد اور خوف نے پورے علاقے کو اس عرصے کے دوران اپنی لپیٹ میں لئے رکھا۔ اس عرصے کے دوران یہ لوگ مقامی مذہبی گروپوں کی آشیر باد سے کھلے عام اسلحہ لئے گھومتے رہے اور ریاست خاموش تماشائی بنی رہی۔ ان لوگوں نے اتنی قوت پکڑی کہ 1988 کے عام انتخابات میں صوبہ پختونخوا میں یہ لوگ مقامی سیاسی پارٹیوں کے خلاف ایک پریشر گروپ کی شکل اختیار کر گئے۔ حزب اسلامی کے کارکن 1988 کے الیکشن کے دوران ایسی مہم چلاتے رہے جیسے کہ یہ الیکشن پاکستان میں نہیں افغانستان میں ہو رہے ہوں اور یہ شاید یہی وجہ تھی کہ ایک سینئر قوم پرست رہنما نے انتخابات کے بعد ایک پریس کانفرنس میں یہاں تک کہا کہ ان کا مقابلہ کسی پاکستانی پارٹی سے نہیں بلکہ حزب اسلامی سے تھا۔اےک رپورٹ میں کہا گےا تھاکہ تےن لاکھ افغانی ایسے ہیں جنہوں نے رشوت دے کر پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کر رکھے ہیں۔ اسی سلسلے میں ایف آئی اے اور دیگر ادارے متعدد کارروائیاں بھی کر چکے ہیں۔ بلوچستان کے چار اضلاع میں ایسے کیمپ موجود ہیں جہاں افغان مہاجرین کی آڑ میں عسکریت پسند بھی رہائش پذیر رہے بلکہ وہاں سے باقاعدہ ریکروٹنگ کی بھی اطلاعات ہیں اور ان کیمپوں سے بے شمار گرفتاریاں بھی کی جا چکی ہیں۔ اقوام متحدہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے یہ پایا تھا کہ مہاجرین کو 2015 تک قیام کی اجازت دی جائے گی اس لئے اب لازمی ہو چکا تھا کہ انکی باعزت واپسی کے لئے تینوں قوتیں ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کریں تاکہ تلخی کی نوعیت نہ آنے پائے اور مہاجرین ایک اچھی یاد لے کر اپنے وطن واپس جا سکیں۔