Skip to content
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے قدرتی آفات کے موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل شاہد امتیاز نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عوام الناس کو بہترین آگاہی ملے گی۔انہوں نے نوجوان نسل کو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے افکار سے روشناس ہوتے ہوئے ان پر عمل کرنے پر زور دیا اورکہاکہ طلبہ وطالبات علم کے ذریعے دنیا کو فتح کرنے کی فکر کے حساب سے تعلیم حاصل کرےں تاکہ معاشرے میں حقیقی معنوں میں تبدیلی آسکے۔انسان کو جتنا اختیار حاصل ہے اس کے ساتھ ساتھ ذمہ داریاں بھی اسی حساب سے ہیں۔لہذا ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے معاشرے کی فلاح وبہبود کے لیے اپنا حصہ ڈالنا ہیں۔کسی بھی معاشرے کی ترقی کا دارومدار اس معاشرے کی اجتماعی سوچ، تخلیقی اور ذہنی صلاحیتوں پر ہوتا ہے۔سوچ وہ ہوتی ہے جو جامد یا زنگ آلود نہ ہو، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں کو قبول کرنے کا نام سوچ ہے۔کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے کھلی سوچ، تخلیقی صلاحیتیں اور علم کی فراوانی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور علم کی آخری سرحد تک آج تک کسی کو رسائی حاصل ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے علم کے دروازے زمانے کے ساتھ ساتھ ہی کھلتے ہیں اور علم کی کارگاہ سے ہمیشہ کن فیکون کی صدا اٹھتی ہے۔ پاکستان کی ترقی میں پہلی رکاوٹ سوچ کا فقدان اور علم کی کمی ہے ۔ ہمارے ہاں تخلیقی سرگرمیاں بہت ہی محدود پیمانے پر ہوئی ہیں اور پاکستان کا نظام تعلیم اس قدر منتشر ہے کہ ہم کبھی ایک قوم ہی نہیں بن سکے۔دنیا کا کوئی ملک یا معاشرہ ایسا نہیں جہاں خواتین کو متحرک کیے بغیر ترقی ہو گئی ہو۔ اس کے لیے میں سب سے پہلے اسلامی ممالک کی مثال پیش کروں گا۔ ترکی ہمارا برادر ملک ہے وہاں ہر شعبے میں خواتین برابر کردار ادا کر رہی ہیں۔بین الاضلاعی سڑکوں پر جا بجا عورتیں کھانے کے ریستورانوں پر یا تو کام کر رہی ہیں یا خود چلا رہی ہیں اسی طرح ہر شعبے میں خواتین برابر نظر آتی ہیں۔انڈونیشیا، ملائیشیا اور دوسرے کئی ممالک میں بھی خواتین مختلف شعبوں میں بڑی کامیابی سے کام کر رہی ہیں اور ان میں اکثریت ایسی خواتین پر مشتمل ہے جو مذہبی روایات کی پابند ہیں۔پاکستان میں بیشمار شعبے ایسے ہیں، جس میں سرے سے کوئی خاتون نظر نہیں آتی۔اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ عورت گھر سے باہر محفوظ نہیں ہے۔ پاکستانی مستورات بیشتر یورپی ممالک کے علاوہ امریکہ، کینےڈا آسٹریلیا اور جاپان میں بہت کامیابی کے ساتھ مختلف شعبوں میں کام کرتی نظر آتی ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک ہاتھ سے آدھا کام ہی ہو سکتا ہے۔ دوسرا ہاتھ شامل کیے بغیر آپ ترقی کا سفر کیسے شروع کر سکیں گے؟ ایسی بات نہیں ہے کہ پاکستان میں عورتوں کو ہر کام سے الگ تھلگ رکھا گیا ہے کئی ایک شعبوں میں کئی خواتین بڑی کامیابی سے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اقوام متحدہ سے لیکر یورپ کی سفارتکاری تک خواتین کا کردار ہے۔ہماری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی رجعت پسندی ہے۔حالانکہ کہ ہمارا دین ہی وہ واحد دین ہے جس کو اندیشہ زوال نہیں اگر ہمارے دین کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے تو وہ صرف ہمارے اعمال اور کردار سے ہو سکتا ہے۔ پاکستان بلا شبہ سیاحتی ترتیب میں دنیا کے پہلے دس ممالک میں جگہ پا سکتا ہے ۔ پاکستان موسموں کے لحاظ سے آئیڈیل ملک ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات قدرتی حسن و جمال میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔پاکستان کو اللہ تعالی نے ساحل سمندر سے نوازا ہے پاکستان میں دنیا کے بہترین اور تازہ پھل وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ پھلوں کو سنبھالنے کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔المےہ ےہ ہے کہ ہمارے ہاں محنت کا رجحان نہےں ہے پاکستان میں لوگ جلد امیر ہونے اور شہرت حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔نوجوان پاکستان کے مستقبل کو توانا اور مضبوط بنانے میں کردار ادا کرسکتے ہےں اس کے لئے یقینا معاشرے کے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ شعبہ تعلیم کا بھی کلیدی کردار ہے ۔ ہمیں پاکستان میں وہ ماحول دینا ہے جس سے سماجی و معاشی سرگرمیاں پیدا ہوں اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکے۔عوام کی بھی اپنی ذمہ داریاں ہوتی ہے وہ معاشرے کی بہتری اور ملک و قوم کی ترقی میں کردار ادا کریں تو پاکستان جلد ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوسکتا ہے ۔حکومت اور حکمران ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے اقدامات اٹھائیں ےہ ان کی ذمہ داری ہے لیکن بحیثت پاکستانی ہماری اپنی بھی ذمہ داریاں ہیں جس طرح ہم اپنے گھر اور خاندان کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح پاکستان ہمارا مشترکہ گھر اور اس میں بسنے والے ہم ایک خاندان ہے لہذا معاشرے کی بہتری اور ملک کی ترقی میں ہمیں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا جب تک ہر فرد اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے اپنی سطح پر معاشرے کی بہتری کے لیے کردار ادا نہ کرے۔ ہم میں سے ہر فرد معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ بنانے کی خواہش رکھتا ہے لےکن ہم ےہ چاہتے ہےں اےسا کئی دوسرا کرلے ۔کسی بھی معاشرے کا ہر فرد،گروہ، طبقہ یا جماعت یہ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں اچھی صفات کا نفاذ ہو لیکن اس کے باوجود ہمارا معاشرہ ان تمام عناصر سے خالی نظر آتا ہے۔ یہاں نہ تو کسی کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی جان کی امان ہے۔ عدم برداشت کا یہ حال ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر بات خون خرابے تک پہنچ جاتی ہے۔ عدل وانصاف کا نفاذ دور دور تک نظر نہیں آتا۔ غریب طبقہ عدل و انصاف سے یکسر محروم ہے۔ بدعنوانی کو اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ قومی خزانے پر مامور لوگ ہی خزانے کو لوٹنے میں مشغول ہیں۔انفرادی طور پر کوئی بھی فرد معاشرے کو نقصان پہنچانے والی قبیح صفات کو نہ صرف برا جانتا ہے، بلکہ برملا ان کی مذمت بھی کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود مجموعی طور پر یہ تمام حقائق اپنی تمام برائیوں کے ساتھ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں، جس کی وجہ وہ معاشرتی رویہ ہے جس میں ہم پروان چڑھتے ہیں۔ عملی طور پر ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے چکے ہیں، جس میں اپنی ذمے داریوں کی احساس نہیں ہے اور یہ کسی طور پر قابل تعریف نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ معاشرے کا ہر فرد معاشرے میں بہتری کا خواہاں ہے، لیکن چاہتا ہے کہ بہتری کے لیے کردار دوسرے ہی ادا کریں اور سوچ یہاں تک بن چکی ہے کہ جب ہم میں سے کوئی کہتا ہے کہ معاشرے کے تمام لوگوں کو اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے تو شاید بات کرنے والا خود کو مستثنی خیال کرتا ہے۔ہر فرد چاہتا ہے کہ ملک میں امن وامان کی فضا قائم ہو، لیکن جب اس کی باری آئے تو جذبات کے نام پر تھوڑا بہت دنگا فساد کرنے کی اجازت ملنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ہر شہری تمنا رکھتا ہے کہ پولیس رشوت خوری بند کر کے صحیح طریقے سے اپنے فرائض کی انجام دہی کرے، لیکن جب بات اس تک پہنچے تو وہی پولیس رشوت لے کر اسے آزاد کر دے۔ ہر فرد کی خواہش ہے کہ اس کے ساتھ کوئی دھوکا نہ کرے، لیکن جب اس کی باری آئے تو اس کو دھوکا دہی کی اجازت ہونی چاہیے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ ٹریفک قوانین کی پابندی ہونی چاہیے، لیکن خود سمجھتا ہے کہ اس کو قوانین سے تھوڑی بہت روگردانی کی اجازت ہونی چاہیے۔ےہ وہ سوچ ہے جو معاشرے کی رگوں میں سراےت کر چکی ہے حالانکہ جب تک ہم سب مل کر خود ہی ان رویوں سے چھٹکارہ حاصل نہیں کریں گے، اس وقت تک نہ تو یہ معاشرہ ٹھیک ہو گا اور نہ ملک میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ کسی قوم کو دنیا کی صف اول میں لا کھڑا کرنے اور عزت و شرف کی قبا پہنانے میں اس قوم کے افراد کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔ اگر افراد اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے ان امور سے نجات حاصل کریں اور بہترین صفات کو اپنائیں تو کچھ بعید نہیں کہ ملک دنوں میں ترقی کی منازل طے کر لے اور ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔معاشرے اس وقت ترقی کرتے ہےں جب ہر فرد اپنے اپنے اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے ساتھ معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔ اگر سوسائٹی میں پچاس افراد ہیں اور وہ تمام معاشرے کی گروتھ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں تو وہ معاشرہ زیادہ ترقی کرے گا بہ نسبت اس معاشرے کے جس میں صرف آدھے افراد کو اپنی صلاحیتوں کے استعمال کا موقع مل رہا ہو۔ ایک جامع معاشرے کی تشکیل کے لیے لوگوں میں برداشت، ایک دوسرے کے خیالات کا احترام، اختلاف کو سننے اور بیان کرنے کا سلیقہ اور وسعت قلبی ایسی قدروں کا پیدا ہونا بہت ضروری ہے۔ اختلاف نظر کو سننے اور سمجھنے ہی سے علم و آگہی فروغ پاتی اور معاشرہ رشد و ارتقا پاتا ہے۔ ایک جامع معاشرہ جو سب طبقات، عوام اور تمام جغرافیائی خطوں کو ساتھ لیتے ہوئے یکساں سہولیات فراہم کرے، وہی آج کی ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ قدم ملا سکتا اور خود کفالت و خوشحالی حاصل کر سکتا ہے۔ملک کی تعمیر و ترقی میں ہم سب کو کردار ادا کرنا ہے۔ ترقی ان اقوام کا مقدر بنتی ہے،جن کی عوام میں آگے بڑھنے کی لگن اور تڑپ ہوتی ہے۔ اگر نسل نو قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے تعمیر ملت کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں تو ترقی کا سفر پاےہ تکمےل کو پہنچ سکتا ہے۔
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں