یکم نومبر ،آزادی کا گوہرنایاب

آزادی کی نعمت عظمی سے بڑی نعمت کوئی نہےں‘آزادی کی قدر وہی جانتے ہےں جنہوں نے غلامی کا بدترےن دور دےکھا ہو۔دنیا کے جن خطوں میں لوگ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہیں انہیں ہی آزادی کی قدر و اہمیت کا بہتر اندازہ ہوگا جیسے فلسطین،مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا کے دیگر حصوں میں غلامی اور ریاستی جبر و بربریت کا شکار قومیں آزادی کے لئے سراپا احتجاج ہیں اور آزاد وطن کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بھارتی افواج اور حکومت کے ظلم وستم کے باوجود آزادی کی تحریک کے لئے برسر پیکار ہیں آفرین ہے ان لوگوں کے جذبات ہمت اور حوصلہ پر اور ان بہادر ماﺅں کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے ایسے دلیر سپوتوں کو جنم دیا ہے۔ اللہ تعالی ان مظلوموں کی مدد اور نصرت فرمائے یہ بات دنیا جانتی ہے کہ کشمیر یوں کی آزادی میں بھارتی ظلم وستم اور جبر و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ۔ دنیا میں آزاد قومیں ہی ترقی اور کامیابی کی طرف گامزن ہو سکتی ہیں اسی آزاد ی کی وجہ سے ہی پاکستان جدید ٹیکنالوجی اور ایٹمی قوت میزائل سسٹم سے لیس ہے پاکستانی فوج کا دنیا کی اعلی ترین اور مہارت یافتہ جنگی فورسزمیں شمار ہوتاہے تو اس کا راز ہی آزادی ہے۔ آزادی کی اہمیت ان لوگوں سے پوچھیں جن کے بچے، ماں باپ رشتہ دار عزیزو اقارب دوست احباب کو بے دردی سے آنکھوں کے سامنے قتل کیا جارہا ہے خاص کر جو ہندوستان ، مقبوضہ کشمیر، فلسطین ، یمن ، شام ،روہنگیا میں لقمہ اجل بن رہے ہیں جو قومیں آزاد فضاﺅں میں سانس لینے کی عادی ہیں ان کی سوچ کبھی غلامانہ نہیں ہوتی۔آزادی کی قدر وہی جانتا ہے جس نے جدوجہد آزادی میں حصہ لیا ہو یا آزادی حاصل کرنے کیلئے اپنے پیاروں کی قربانیاں دی ہوں یا پھر جس کے آباﺅاجداد نے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کر کے اس گلشن کی آبیاری کی ہو۔جو قومیں اپنی تاریخ کو پس پشت ڈال کر نئی تاریخ رقم کرنے نکلتی ہیں ان کا حال بھی دھوبی کے کتے جیسا ہوتا ہے جو گھر کا رہتا ہے نہ گھا ٹ کا۔اب بھی وقت ہے ہمیں اپنی تاریخ سے سبق سیکھنا ہو گا۔گلگت بلتستان کے عوام نے آزادی کی اہمےت سے آشنا ہونے کے سبب ہی آزادی کےلئے بے مثل جدوجہد کی اور آخر کار بے پناہ قربانےوں کے بعد آزادی کا گوہر ناےاب حاصل کر لےا۔یکم نومبر کو ہر سال گلگت کی آزادی کا دن منایا جاتا ہے۔ 1947 میں آج ہی کے دن ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے گلگت میں متعین گورنر بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو مقامی فورس گلگت سکاﺅٹس نے فوجی بغاوت کے ذریعے گرفتار کیا اور اس کے ساتھ ہی گلگت میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ جمہوریہ گلگت کے نام سے یہاں ایک آزاد ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ جس کے راجہ شاہ رئیس خان صدر اور کرنل مرزا حسن خان فوجی سربراہ مقرر ہوئے۔ پندرہ روز بعد گلگت کے عوام نے اسلامی رشتے کی بنیاد پر مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اور اس حوالے سے ہنزہ و نگر دونوں ریاستوں کے سربراہوں نے بھی بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ باقاعدہ الحا ق کی دستاویز پر دستخط کرکے عوامی جذبات و خواہشات کی عملی توثیق بھی کر دی۔ یہ گلگت بلتستان کی آزادی کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے بعد بلتستان میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی۔ کم و بیش چھ ماہ کی خونریز جنگ کے بعد چودہ اگست 1948 کو بلتستان کا علاقہ ڈوگرہ استبداد کے چنگل سے آزاد ہوا۔ اس جنگ میں گلگت سکاﺅٹس، سکستھ جموں اینڈ کشمیر انفنٹری کے مسلمان فوجی، بلتستان کے عوام اور چترال سکاﺅٹس نے یکجان ہوکر جس جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا وہ دنیا کی عسکری تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان کی تحریک آزادی کی جڑیں اسلام اور پاکستان سے جڑی ہوئی تھیں، اس لئے ا س علاقے کے حریت پسندوں کا اسلام اور پاکستان کے ساتھ والہانہ جذبے کا مظاہرہ فطری امر تھا۔ ڈوگروں کے ایک سو سات سالہ جارحانہ اور ظالمانہ تسلط سے نجات حاصل کرنے کےلئے گلگت بلتستان کے عوام نے بھرپور قومی و ملی یکجہتی کے ساتھ جن پرخطر، کٹھن اور مشکل مراحل کو عبور کیا وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ آزادی کی اس جنگ میں شریک مجاہدین کے پاس نہ بھاری اسلحہ تھا اور نہ ہی وہ عسکری طور پر تربیت یافتہ تھے۔ بس یقین محکم اور عزم و استقلال کے ساتھ نعرہ تکبیر اور نعرہ حیدری کی صدائیں بلند کرتے ایک طرف گلگت سے لے کر تراگبل گریز تک جبکہ دوسری طرف سکردو سے لے کر کارگل و لداخ اور زانسکار پدم تک کے وسیع و عریض خطے کو آزاد کرالیا، وہ واقعات تاریخ کے اوراق پر سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ اس دوران معرکہ بونجی، روندو ایکشن، سکردو چھاﺅنی پر حملہ، معرکہ تھورگو پڑی، پرکوتہ ایمبوش، گریز، تلیل، بانڈی پورہ، دراس، کارگل، نوبراہ، لداخ اور پدم میں لڑی جانے والی گھمسان کی جنگیں عالمی عسکری تاریخ میں بے مثال ہیں۔تقسیم ہند کے منصوبہ کے تحت برٹش انڈیا نے گلگت لیس ایگریمنٹ کینسل کردیا اور گلگت ایجنسی مہاراجہ کے حوالے کیا اسطرح جب انگریز پولیٹیکل ایجنٹ رخصت ہوا تو مہاراجہ نے پہلے کرنل بلدیو سنگھ پٹھانیہ کو گلگت کا گورنر مقرر کیا پھر اس کی جگہ بریگیڈئر گھنسارا سنگھ کو گلگت بلتستان کا گورنر مقرر کردیا۔احمد شجاع پاشا مسئلہ کشمیر نامی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل گلگت کے کیپٹن حسن خان دوسری جنگ عظیم میں ملٹری کراس حاصل کرنے کے بعد وطن پہنچے تو انہیں ان کے مسلمان سپاہیوں کے ساتھ سرینگر سے گلگت جانے کا حکم ملا۔انہوں نے واپس کشمیر پہنچنے سے قبل ہی بغاوت کا منصوبہ بنایا اور جب مہاراجہ نے 27 اکتوبر 1947 کو ہندوستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے کا اعلان کیا تو گلگت سکاﺅٹس کے مقامی فوجیوں کے ساتھ مل کر کرنل حسن خان نے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔گلگت سکاﺅٹس نے مقامی افراد کی مدد سے گورنر کے محل کو گھیرے میں لے لیا گورنر گھنسارا سنگھ نے اپنے دو ملازمین کے ساتھ بڑی دلیری اور جرات کے ساتھ مقابلہ کیا بالآخر انہوں نے ہتھیار ڈال دیا اسے حراست میں لیا گیا اور یکم نومبر 1947 کو ڈوگرہ حکومت سے آزادی گلگت بلتستان کا اعلان کیا گیا۔ شاہ رئےس خان کو آزاد جمہوریہ گلگت بلتستان کا صدر قرار دیا گیا بعدازاں گورنر گھنسارا سنگھ کو قیدیوں کے تبادلے میں ہندوستان کے حوالہ کیا گیا ۔اسی پس منظر میں جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نتیجے میں قائم ہونے والی آزاد حکومت صرف سولہ دن تک برقرار رہی پھر حکومت پاکستان نے اس علاقہ کو معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949کے تحت پاکستان کے زیر انتظام لایاگےا۔جنگ آزادی گلگت بلتستان کے وقت گلگت میں تعینات برٹش میجر ولیم براﺅن کمانڈنٹ گلگت سکاﺅٹس کی وفات کے چودہ سال بعد اس کی یادداشتوں کو کتاب کی شکل دے کر میجر براﺅن کی بیوہ مارگریٹ نے شائع کروایا اس طرح انگریز میجر الےگزینڈر بروان سے منسوب کرکے جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت گلگت کا نام دیا گیا جو کہ ایک نوآبادیاتی نکتہ نظر ہے۔ جنگ آزادی ہند 1857 کو بھی انگریزوں نے غدر یا بغاوت کا نام دیا تھا چونکہ ہندوستانیوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کے جبری قبضہ اور تسلط کو چیلنج کیا تھا اس لئے تقریبا تمام برطانوی اور یورپی لکھاریوں نے اسے بغاوت ہند کا نام دیا مگر مشہور فلاسفر کارل مارکس نے اسے جنگ آزادی ہند کا نام دیا تھا۔ہندوستان کے مقامی تاریخ دانوں اور دانشوروں نے بھی اس بغاوت کو جنگ آزادی ہند کا نام دیا ہے حالانکہ اس جنگ آزادی ہند میں حصہ لینے والوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بری طرح شکست دیکر بہادر شاہ ظفر کی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا اور جنگ کے بعد اگست 1858 میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلان ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو تاج برطانیہ کے براہ راست سپرد کردیا تھا۔1947 سے اب تک گلگت بلتستان کے ہزاروں جوانوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ بلتستان اور کارگل و لداخ کے ہزاروں خاندان ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ یہ سب کچھ یہاں کے لوگوں نے وطنِ عزیز پاکستان کی محبت میں قبول کیا۔ 2009 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے صدارتی آرڈینینس کے ذریعے اسے محدود خودمختار صوبے کا درجہ دے دیا۔ جس کے تحت اب تک تےن حکومتیں الیکشن کے ذریعے بن چکی ہیں۔ گلگت بلتستان کے لوگوں اور عوامی نمائندوں کا پر زور مطالبہ ہے کہ اس علاقے کو باقی صوبوں کی طرح مکمل آئےنی حیثیت دی جائے ۔ اس لےے حکام کو چاہےے کہ عرصہ دراز سے آئےنی حےثےت کے منتظر خطے کے عوام کو ان کا حق دےنے میں لےت و لعل سے کام نہ لےا جائے۔ ہمیں خود احتسابی کی راہ پر گامزن ہو کر ملک کی بہتری اور ترقی کےلئے فیصلے کرنے ہوں گے۔ ہمیں مٹھی بھر اشرافیہ سے اپنا حق چھین کر عدل و انصاف، مساوات، بھائی چارہ اور اخوت کی داغ بیل ڈالنا ہو گی، ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط کرنا ہو گا، ہمیں کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ کر حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست کی بنیاد رکھنا ہو گی۔ شومئی قسمت کہ قوموں کی برادری میں ہم اپنے حکمرانوں سے پہچانے جاتے ہیں جو روز اول سے ہی اشرافیہ کی بہت بڑی آماجگاہ ہے ۔اس لےے لازم ہے کہ سب مل کر خطے کی ترقی کے لےے اپنی بھرپور صلاحےتوں و توانائےوں کا استعمال کرےں۔