صوبائی وزیر خزانہ انجینئر محمد اسماعیل نے کہا ہے کہ تمباکو ایکٹ پر عملدرآمد بہت ضروری ہو گیا ہے حکومت اس حوالے سے فوری اقدامات اٹھائے گی۔ تمباکو کا استعمال منشیات کی طرف راغب ہونے کی پہلی سیڑھی ہے۔ ہمیں اپنے نوجوان نسل کو تمباکو سے دور رکھنے کے لئے اقدامات کرنے ہونگے۔ گلگت بلتستان تمباکو ایکٹ 2020 میں ترامیم کر کے تمباکو کی نئی مصنوعات پر بھی کسی حد تک پابندی عائد کی جاسکتی ہے جس کے لئے قانون سازی کی جائے گی۔ اس موقع پر سیڈو کے میڈیا اینڈ کمیونیکیشن منیجر نے صوبائی وزیر خزانہ کو بتایا کہ آج کل تمباکو مافیا نت نئی مصنوعات مارکیٹ میں لا رہا ہے جسے ایمرجنگ ٹوبیکو پراڈکٹ بھی کہا جاتا ہے جن کے ذریعے نوجوان نسل کو منشیات کی طرف راغب کیا جا رہا ہے اور نوجوان ان مصنوعات کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں جو کہ کافی تشویشناک ہے۔ صوبائی حکومت کو اس حوالے سے بھی قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے گلگت بلتستان تمباکو ایکٹ 2020 میں ترامیم کر کے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے تو بہت حد تک نوجوان نسل اس نشے سے دور رکھا جا سکتا ہے۔پاکستان تمباکو کی پیداوار اور استعمال کرنے والے سر فہرست پندرہ ممالک میں شامل ہے ،پاکستان میں ہر سال تقریبا ایک لاکھ سے زائد افراد تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ان بیماریوں میں دل کے امراض، فالج کا حملہ اور کینسر شامل ہیں۔ پاکستان میں تقریبا ایک لاکھ سے زائد افراد ہر سال تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں جن میں منہ، حلق، سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کا کینسر شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چھالیہ اور پان کے ساتھ تمباکو کھانے کے عادی افراد میں منہ، غذائی نالی اور معدے کے سرطان کی بیماریاں سب سے عام ہیں۔ پاکستان میں کسی نہ کسی شکل میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے، ایک تحقیق کے مطابق ملک بھر کی تقریبا 32 فیصد بالغ مردانہ آبادی سگریٹ نوشی کرتی ہے جبکہ سگریٹ نوش بالغ خواتین، آبادی کا کل آٹھ فیصد ہیں۔ اگر ہم تمباکو کے استعمال کو پان، چھالیہ، گٹکے یا نسوار کے ساتھ دیکھیں تو ملک کی تقریبا 54 فیصد آبادی اس لت میں مبتلا ہے۔چھالیہ اور پان کے ساتھ تمباکو کھانے کے عادی افراد میں منہ، غذائی نالی اور معدے کے سرطان کی بیماریاں سب سے عام ہیں۔ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان بھر میں تمباکو نوشی کے عادی افراد کی تعداد 25 ملین سے تجاوز کر چکی ہے اور روزانہ تقریبا 1200 کم عمر نوجوان اس عادت کو اختیار کرتے ہیں۔تمباکو نوشی ایک ایسی موت ہے جس کو خود پیسے دے کر خریدا جا رہا ہے ۔ اس زہر سے نہ صرف سگریٹ پینے والا خود متاثر ہوتا ہے بلکہ اپنے آس پاس موجود اپنے دوستوں اور پیاروں کو بھی نادانستہ طور پر نقصان پہنچاتا ہے ۔سگریٹ نوش افراد کی زندگی عام طور پر غیر سگریٹ نوش افراد سے دس سال کم ہوتی ہے ۔تمباکو اور کاغذ کے جلنے سے 4000 سے زائد مضرِ صحت کمیکل بنتے ہیں جن میں سے 70سے 80 کمیکل کینسر ، جبکہ دوسرے، دیگر مختلف بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں ۔ پھیپھڑوں کے کینسر کے مریضوں میں سے 90 فیصد مریضوں کی بیماری کا تعلق کسی نہ کسی طرح تمباکونوشی سے جڑا ہوتا ہے۔ پھیپھڑوں کا کینسر ایک ایسی بیماری ہے جس کے دو تہائی مریض ڈاکٹر کے پاس اس وقت پہنچتے ہیں جب مرض شدت اختیار کر چکا ہوتا ہے اور اس کا علاج مشکل ہو جاتاہے ۔ تمباکو نوشی سے ہونے والی دیگر بیماریوں میں گلے ، لبلبے اور بریسٹ کینسر کے علاوہ دیگر بیماریاں جیسا کہ سٹروک ، دل کی بیماریاں اور پھیپھڑوں کی بیماری جسے ایمفازیما بھی ہو سکتی ہے۔ تمباکو نوش افراد اکثر یہ ارادہ کرتے ہیں کہ وہ اس بری عادت کو چھوڑ دیں گے لیکن اس میں کامیابی بہت کم لوگوں کی ہوتی ہے ۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تمباکو میں نکوٹین کی موجودگی ہے جو دماغ پر ایسے اثرات ڈالتی ہے جس سے انسان تمباکوکی طلب محسوس ہوتی رہتی ہے۔ اگرچہ اب ایسی ادویات دستیاب ہیں جو اس لت سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود اس عمل میں تمباکو نوش فرد کی قوتِ ارادی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ بعض ایسے مریض جن کو کینسر تشخیص ہو چکا ہوتا ہے ، چلنا پھرنا دشوار اور پھیپھڑوں کا بھی برا حال ہوتا ہے وہ بھی کہتے ہیں کہ سگریٹ چھوڑنا مشکل ہے ۔ سگریٹ کی عادت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے اینٹی سموکنگ پیچ،گم اور مختلف ا دویات استعمال کروائی جاتی ہیں لیکن یہ تمام کوششیں صرف اس وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب مریض کا ارادہ مضبوط ہو۔ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا زیاد ہ تر افراد تمباکو نوشی کی کسی نہ کسی قسم کے عادی ہوتے ہیں ۔ ایک تشوشنا ک امر یہ بھی ہے کہ ان افراد میں نوجوان اور خواتین بھی شامل ہیں ۔ کینسر پر ریسرچ کی عالمی ایجنسی کے مطابق پھیپھڑوں کا کینسر پاکستان میں تیسرا سب سے زیادہ پایا جانے والا کینسر ہے ۔ یہ عمومی طور پر ایسی سٹیج پر شناخت کیا جاتا ہے جب مریض کے بچنے کے امکانات انتہائی کم رہ چکے ہوتے ہیں۔ زیادہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد میں پھیپھڑوں کے کینسر کی ابتدائی مرحلے میں تشخیص مناسب علاج کے ذریعے مریض کی جان بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔حالیہ دنوں میں حکومت پاکستان کی جانب سے سگریٹ کی خریداری پر کئی گناہ ٹیکس لگایا گیا ہے جو کہ دراصل سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کی ایک کوشش ہے ۔ اس سے قبل کھلے سگریٹ کی فروخت پر پابندی لگائی گئی تھی جو کہ ایک مستحسن قدم ہے اور اس سے نوجوانوں کو سگریٹ نوشی سے بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں خصوصا امریکہ اور یورپ میں تمباکو نوشی کے شرح کم ہوتی جارہی ہے۔ اس تبدیلی کی ایک وجہ تو لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی ہے تو دوسری اہم وجہ وہاں کی حکومتوں کی جانب سے اس حوالے سے سخت قوانین کا نفاذ بھی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں اب عوامی مقامات پر تمباکو نوشی کرنا قابلِ سزا جرم ہے ۔ اس طرح ان ممالک میں اس عادت کی حوصلہ شکنی کے لیے سگریٹ کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کیا گیا ہے تا کہ یہ کم لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوتی جائے۔ پاکستان میں بھی ایسے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ والی نسلیں اس تباہی سے بچ سکیں ۔ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کے مطابق دنیا بھر کی حکومتیں تمباکو اگانے پر سالانہ کروڑوں ڈالر خرچ کرتی ہیں اور تمباکو کی جگہ خوراک اگائے جانے کی صورت میں دنیا کو صحت کو ترجیح دینے، ماحولی نظام کو تحفظ، مہیا کرنے اور تمام لوگوں کے لئے غذائی تحفظ کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اس وقت دنیا بھر میں 349 ملین لوگوں کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے اور ان میں بیشتر تعداد براعظم افریقہ کے تےس ممالک میں رہتی ہے جہاں گزشتہ دہائی میں تمباکو کی کاشت 15 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ تمباکو پیدا کرنے والے دس بڑے ممالک میں سے نو کا شمار کم اور متوسط آمدنی والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ قابل کاشت اراضی پر تمباکو اگائے جانے کے نتیجے میں ان ممالک کے ہاں غذائی تحفظ سے متعلق مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔ تمباکو کی کاشت سے مقامی ماحول اور لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں کیونکہ فصل کا زیرکاشت رقبہ بڑھنے سے جنگلات میں کمی آتی ہے، پانی کے ذرائع آلودہ ہو جاتے ہیں اور زمین انحطاط کا شکار ہونے لگتی ہے۔ تمباکو کی صنعت کی جانب سے کسانوں کو محتاجی کے موذی چکر میں پھانسنے اور نقد آور فصل کے طور پر تمباکو کے معاشی فوائد کو بڑھا چڑھا کر پیش کئے جانے کا انکشاف بھی کیا گیا ہے۔ تمباکو پیدا کرنے والے بیشتر ممالک کی مجموعی قومی پیداوار میں اس فصل کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے اور اس فصل کا منافع دنیا میں سگریٹ بنانے والے بڑی کمپنیوں کو جاتا ہے جبکہ کسان تمباکو کمپنیوں کے قرض کے بوجھ سے چھٹکارا پانے کی جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ تمباکو کے کسانوں کی صحت کو نکوٹین اور خطرناک کیڑے مار ادویات سے خطرہ رہتا ہے اور اس کے لوگوں اور معاشروں پر وسیع تر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اندازے کے مطابق تقریبا 1.3 ملین بچے سکول جانے کے بجائے تمباکو کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔پاکستان میں تمباکو کی سالانہ پیداوار 113 ملین کلوگرام ہے، جو 50 ہزار 787 ہیکٹر رقبے پر کاشت کی جاتی ہے۔یہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ، صوابی، مردان، بونیر اور چارسدہ کے اضلاع میں کثرت سے کاشت کی جاتی ہے۔پاکستانی تمباکو کی بیرون ملک ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے تمباکو کمپنیاں کسانوں سے پیداوار بڑھانے کے دیرپا معاہدے کر رہی ہیں۔ مالی سال 22-2021 میں 22.4 ملین کلوگرام تمباکو برآمد کیا گیا تھا، جس سے 77.3 ملین ڈالرز زرمبادلہ کمایا گیا تھا۔اب تمباکو سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ سوگنا بڑھ سکتا ہے۔ یورپی ممالک کو پاکستانی تمباکو انتہائی سستا پڑتا ہے،پیداوار زیادہ ہونے کی وجہ زہریلی ادویات کا استعمال ہے، جس سے علاقے کی معاشی حالت بدل گئی ہے۔ پیسے تو اچھے مل جاتے ہیں لیکن صحت خراب ہو جاتی ہے۔ بچے اور خواتین زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔خطرناک بات ےہ ہے نوجوان اس جانب تےزی سے راغب ہو رہے ہےں اس لےے گلگت بلتستان کی حکومت نے تمباکو اےکٹ لانے کا مثبت فےصلے کےا ہے جس کے ےقےنا حوصلہ افزاءنتائج برآمد ہوں گے۔
