فلسطینیوں کی پکار سننے والا کوئی نہیں

اسرائیل نے غزہ پر حملے مزید تیز کر دیے ہیں اور خبردار کیا ہے کہ حماس کے خلاف اس کی جنگ طویل اور مشکل ہو گی۔فلسطینی عوام پر اس بدترین جبر کو روکنے کے لیے اپیلیں کی جا رہی ہیں اور ریڈ کراس نے ناقابل برداشت مصائب سے خبردار کیا ہے۔اے ایف پی کے مطابق چوبےس لاکھ آبادی پر مشتمل غزہ میں ہزاروں عمارتیں مسمار کر دی گئی ہیں، اسرائیل کی جانب سے تقریبا مکمل علاقے کا محاصرہ کر لیا گیا ہے جبکہ نصف سے زیادہ آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کی صدر مرجانا سپولجارک نے ناقابل برداشت سطح تک انسانی مصائب پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ اس تنازع کو کم کریں۔حماس کے حکام نے شمالی غزہ میں دو پناہ گزین کیمپوں پر راتوں رات ہونے والے حملوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کی اموات کی اطلاع دی ہے۔غزہ میں اسرائیل کی شدید بمباری کے دوران انٹرنیٹ سروس منقطع ہونے کے تقریبا دو روز بعد عالمی نیٹ ورک مانیٹر نیٹ بلاکس نے بتایا ہے کہ غزہ میں انٹرنیٹ سروس بحال ہو رہی ہے۔خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اب وہاں وہ انٹرنیٹ استعمال کر پا رہے ہیں اور جنوبی غزہ میں لوگوں سے فون پر رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔مصر کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ مصر اور غزہ کے درمیان رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ کو امداد کی فوری ترسیل میں اسرائیل کی جانب سے رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ رفح کراسنگ کی جانب جانے سے قبل اسرائیلی نظرانہ کراسنگ پر ٹرکوں کا لازمی معائنہ کیا جاتا ہے جس کے بعد رفح کراسنگ تک پہنچنے کے لیے 100 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے، اس کی وجہ سے امداد کی ترسیل میں کافی تاخیر ہوتی ہے۔ رفح کراسنگ مصر کے زیرِ انتظام ہے اور اسرائیل کی سرحد سے متصل ہے، حماس کے حملے اور اسرائیل کی جانب سے غزہ کا محاصرہ کرنے کے بعد سے یہ امداد کی ترسیل کا اہم مقام بن گیا ہے۔غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ سات اکتوبر کو اسرائیل حماس تنازع کے آغاز کے بعد سے غزہ میں 8 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں سے نصف تعداد بچوں کی ہے۔عرب ممالک نے اسرائیل کو غزہ پٹی میں مزید کارروائیں سے خبردار کردیا ہے اور سعودی عرب نے زمین پر قبضہ ناانصافی قرار دیا، عمان بھی اسرائیل کی کارروائی کو ممکنہ جنگی جرائم قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔قطر کے وزیرخارجہ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے کہا کہ اسرائیل کی زمینی کارروائی کے عام شہریوں پر بدترین نتائج ہوں گے اور اس سے انسانی بحران گمبھیر ہوجائے گا۔اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ غزہ پٹی کے اندر لڑائی مشکل اور طویل ہوگی، جہاں اسرائیلی فوج کی کارروائی جاری ہے، جس سے چوبےس گھنٹوں سے بھی زائد ہوگئے۔متحدہ عرب امارات 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے عرب ممالک میں شامل ہے تاہم اس نے کہا کہ اسرائیلی فوج کی زمینی کارروائی اور انسانی بحران پر انتہائی تشویش ہے، جس سے مزید انسانی جانوں کے ضیاع کا خطرہ ہے۔اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے رات کو کی گئی بمباری کے بعد غزہ کی صورت حال خوف ناک ہے۔ گزشتہ شب سے تمام رابطے منقطع ہیں اور غزہ پٹی میں موجود اپنے عملے کے کسی بھی رکن سے رابطہ نہیں ہو رہا ہے۔حماس نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل اپنے شہریوں کی رہائی کے لیے ان کے پاس قید تمام فلسطینیوں کو رہا کرے۔ حماس کے القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا کہ ہمارے پاس قید اسرائیل کے قیدیوں کی قیمت تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہے۔اگر دشمن جلد ہی ان گرفتار افراد کے قریب آنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ہم تیار ہیں، اگر وہ چاہتا ہے قدم بہ قدم ہو تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔اسرائیل کی حکومت نے کہا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اروان کے بیان کے بعد اپنے سفیر کو واپس آنے کا حکم دیا گیا ہے ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات پر نظر ثانی کا بھی حکم دیا گیا ہے۔معصوم نہتے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی صیہونی ظلم اور قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے، اسرائیل مسلسل جنگی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے۔بے گناہ شہریوں، خواتین، معصوم بچوں کو ٹارگٹ کرنا انسانی حقوق اور انسانیت کی بدترین پامالی ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں سمیت ظلم و ناانصافی کی مخالف اقوام نے اسرائیل کی مذمت اور فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا کا اسرائیلی مطالبہ بین الاقوامی طور پر غیر قانونی ہے، اس ناجائز مطالبہ پر عمل ایک نئے انسانی المیہ کو جنم دے گا، وہ جو اپنے ملکوں میں جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھتے ہیں، انہیں فلسطین میں انسانوں کا بہتا ہوا خون بھی نظر نہیں آ رہا،جب کہ پاکستان کو آج فلسطینی کاز کے لیے حکومتی سطح پر اسی موقف کی ضرورت ہے جو بانیان پاکستان قائداعظم اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنایا تھا۔تاریخ انسانی میں ایسے واقعات بھی کم نہیں ہوں گے جب مظلوم کے بجائے ظالم کا ساتھ دیا جائے۔ مظلوم کی مدد کے بجائے ظالم کی طاقت میں اضافے کے لیے فیصلے ہوں۔ تاریخ میں ایسی چیزیں دہرائی جاتی ہوں گی لیکن ان دنوں فلسطین کے خلاف جیسے دنیا کے بڑے ممالک اسرائیل کی حمایت میں متحد ہوئے ہیں، انہوں نے ایک مرتبہ پھر امن کے حوالے سے اپنے دہرے معیار پر مہر لگائی ہے۔اسرائیل کی بربریت عروج پر ہے، سفارتی سطح پر کوششیں بھی اسرائیل کو فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے سے نہ روک سکیں، اسرائیلی فورسز نے غزہ میں مزید اسپتالوں پر حملے شروع کر دیے ہیں۔ القدس، الشفا اسپتال اور ہلال احمر کے ہیڈ کواٹرز کے قریبی علاقوں پر آدھے گھنٹے تک بمباری کی گئی، جس کے نتیجے میں چوبیس گھنٹوں میں مزید چھ سو اٹھتہر فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔غزہ میں اسرائیلی بمباری سے طبی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، محصور پٹی میں ادویات اور دیگر طبی سامان کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے، ڈاکٹر زخموں کے علاج کے لیے سرکہ استعمال کرنے لگے ہیں۔غزہ میں اسپتالوں کی اس بدترین صورت حال پر نرس بھی رو پڑیں، اور کہا کہ طبی عملہ اور ڈاکٹرز بے بس ہیں، اسپتال میں دوائیاں ہیں اورنہ ہی بیڈز، زخمیوں کے علاج کی بھی جگہ نہیں، ایسی صورتِ حال پہلے کبھی نہیں دیکھی۔اسرائیلی فوج نے پناہ گزیں کیمپ میں دو گھروں پر بمباری کرکے مزید چالیس فلسطینی شہید کیے، دیرال بلاح میں بھی گھر کو نشانہ بناکر دس فلسطینیوں کوشہید کیا گیا، جبکہ متعدد ملبے تلے دب گئے۔الزیتون کے علاقے میں گھروں پربےس بم برسائے گئے، جس سے چھتیں مکینیوں کے سروں پر آگریں۔نوصائرت کے علاقے میں مسجد پر بمباری سے خواتین اور بچوں سمیت درجنوں افراد شہید ہوگئے، 12 فلسطینیوں کو بندرگاہ کے قریب نشانہ بنایا گیا۔ اہم ممالک نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے کے بجائے اسرائیل کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان ممالک کو اسرائیل کی دہشت گردی نظر نہیں آتی۔ انہیں اسرائیل کی فوج کے مظالم دکھائی نہیں دیتے ،انہیں دہائیوں سے جاری اسرائیلی افواج کے مظالم پر سانپ سونگھ جاتا ہے۔ یہی وہ دہرا معیار ہے جو اقوام متحدہ کی افادیت اور حیثیت پر سوالیہ نشان ہے۔ امریکا، فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کے رہنماﺅں نے حماس کے حملوں کے خلاف دفاع کی کوششوں میں اسرائیل کی حمایت کا عہد کیا ہے۔غزہ کے انسانی المیے کو نظرانداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اسرائیل کے ملٹری ایکشن کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ حقائق کو مسخ کرکے مغربی میڈیا پروپیگنڈا پھیلانے میں ان لوگوں کا آلہ کار بن رہا ہے جو جنگ کے خواہش مند ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ان کی معروضی صحافت کا مقصد صرف اپنے حکمرانوں کی اسرائیلی حمایت کی غیرمبہم پالیسی کی حمایت کرنا ہے۔امریکا کے معروف ٹی وی نیٹ ورک ایم ایس این بی سی نے مبینہ طور پر تےن مسلمان اینکرز کو معطل کردیا کیونکہ وہ غزہ میں محصور عوام کی بپتا اپنے شو کے ذریعے دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کررہے تھے۔ عرب نیوز کے مطابق ایک صحافی نے کہا کہ یہ بالکل 9 ستمبر کے بعد کا دور لگ رہا ہے کہ یا تو اس بحث میں آپ ہمارے ساتھ ہیں یا پھر ہمارے خلاف۔جس طرح چند مغربی میڈیا گروپس اسرائیلی بربریت اور فلسطینیوں کے بےرحمانہ قتلِ عام کے خلاف مظاہروں کی رپورٹنگ کررہے ہیں، اس سے ان کی سوچ کا اندازہ ہورہا ہے۔ بی بی سی ٹی وی کی رپورٹ میں فلسطینیوں کی حمایت میں کیے جانے والے مظاہرے کو حماس کی حمایت میں مظاہرے کے طور پر بیان کیا گیا۔ بعدازاں ادارے نے عوام کو گمراہ کرنے کا اعتراف کیا لیکن اس پر معذرت نہیں کی۔بہت سے یورپی ممالک بشمول فرانس، جرمنی اور اٹلی نے مظاہروں پر پابندی لگادی ہے لیکن پابندی کے باوجود لوگ جنگی جرائم کا شکار ہونے والے فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں نکال رہے ہیں اور ان سے اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں۔ غزہ میں خراب ہوتی صورتحال سے عوام کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہوگا۔اگرچہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم پر مغربی مین اسٹریم میڈیا آنکھیں بند کیے ہوئے ہے لیکن اسرائیلی بمباری سے ہونے والی تباہی کی سوشل میڈیا اور الجزیرہ جیسے چند میڈیا نیٹ ورکس بھرپور کوریج کررہے ہیں۔ مگر اب ان پلیٹ فارمز کو بھی غزہ میں قتلِ عام کی رپورٹنگ اور تبصرے کرنے سے روکنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔افسوسناک امر ےہ ہے کہ ساٹھ اسلامی ممالک میں سے فلسطےن کی پکار سننے والا کوئی نہےں۔