جلد انتخابات کے مطالبے میں شدت

سینیٹ میںپیپلز پارٹی کے اراکین رضا ربانی اور نثار کھوڑو نے الیکشن کمیشن سے انتخابات کی تاریخ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے الیکشن کی تاریخ فوری طور پردے۔اس موقع پر نثار کھوڑوکا کہنا تھاکہ آج جس پاکستان میں کھڑا ہوں وہاں آئین دکھائی نہیں دے رہا،وہ الیکشن جو نوے دن میں ہونے تھے ان کا کوئی اتا پتہ نہیں،تاریخ کا اعلان کرنے میں قباحت کیا ہے؟ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویزاشرف کا کہنا ہے کہ سیاسی و معاشی استحکام کےلئے انتخابات کا جلد انعقاد ناگزیر ہے، انتخابی شیڈول کا اعلان جلد ہونا چاہیئے۔ نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی سے ملاقات میں راجہ پرویزاشرف نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کے لئے سازگار فضا کی فراہمی نگران حکومت کی ذمہ داری ہے، سیاسی جماعتوں کو انتخابی سرگرمیوں کے حوالے سے یکساں سازگار ماحول ملنا چاہئے۔نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ الیکشن میں سیکیورٹی فراہم کرنے کی ذمہ داری پوری کریں گے، نگران حکومت الیکشن کمیشن کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔پی پی پی کے جنرل سیکرٹری سید نئیر بخاری نے کہا ہے کہ ہم سب کے لئے لیول پلیئنگ فیلڈ چاہتے ہیں اور اگر نہ ملی تو انتخابی نتائج پر سوالات ہوں گے۔ نئیر بخاری کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا مطالبہ ہے الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے، پیپلز پارٹی سب کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ چاہتی ہے، لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے سے انتخابی نتائج پر سوالات ہوں گے۔مسلم لیگ نون کے قائد نوازشریف وطن واپس پہنچ چکے ہیں اور ایسے میں پیپلزپارٹی نے ایک بار پھر الیکشن کی تاریخ مانگنا شروع کردی ہے ۔ادھر عام انتخابات کی مجوزہ تاریخ بھی سامنے آگئی ہے اور کہا جارہا ہے کہ عام انتخابات کے لیے 28 جنوری 2024 بروز اتوار متوقع تاریخ ہے۔ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ آف پاکستان کو اس حوالے سے تحریری طور پر آگاہ کر دے گا۔نون لیگی رہنما خواجہ آصف نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے دو نومبرکو الیکشن کمیشن کو بلایا ہے، امید ہے الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے دے گا۔تاہم صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو یقین نہیں کہ الیکشن جنوری میں ہو پائیں گے۔نوازشریف نے جاتی امرا میں ملاقاتوں کے بعد یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ سیاسی رہنماﺅں سے ملاقاتیں کریں گے، کیا ان کی آصف علی زرداری سے بھی ملاقات ہو گی؟ بلاول بھٹو زرداری مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ایک شخص کے لئے انتخابات کو روکا گیا ہے۔اس وقت دو جماعتیں ایسی ہیں جو انتخابات نہیں چاہتیں، ایک مسلم لیگ نون اور دوسری جمعیت العلمائے اسلام ف ‘پیپلزپارٹی کیوں جلد انتخابات چاہتی ہے، حالانکہ حالات تو اس کے لئے بھی کچھ زیادہ ساز گار نہیں شاید اس کی و جہ یہ ہو سکتی ہے کہ موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ کے لئے ابھی کوئی بڑا داﺅ کھیلنا ممکن نہیں، ویسے یہ اتنا آسان نہیں ہوگا کہ زمینی حالات کے برعکس اپنی من پسند جماعت کے لئے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کی جا سکے۔ پیپلزپارٹی اس لئے فوری انتخابات چاہتی ہے کہ تحریک انصاف کو جن پابندیوں کا سامنا ہے اور جس طرح اس کے نمائندوں کو کارنر میٹنگز تک کرنے کی اجازت نہیں، انتخابات میں وہ حصہ لیتے ہیں یا نہیں فی الوقت یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ایسے میں اسی خلا کا فائدہ پیپلزپارٹی اٹھانا چاہتی ہے کیونکہ مسلم لیگ نون کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ ڈیل کر چکی ہے۔ اس لئے اگر تحریک انصاف کے حامیوں کو اپنے نمائندے چننے کا موقع نہ ملا تو وہ اپنا ووٹ مسلم لیگ نون کی مخالفت میں پیپلزپارٹی کو دے سکتے ہیں ،سیاسی فضا میں تو یہ خبریں بھی زیر گردش ہیں کہ آصف علی زرداری موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف میں انتخابی اتحاد کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔ خود تحریک انصاف بھی مشکل صورتِ حال سے نکلنے کے لئے ایسا کوئی فیصلہ کر سکتی ہے۔ ایسا ہوا تو مستقبل کا سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہو جائے گا۔کہا جا رہا ہے کہ فیصلہ سازوں کی یہ کوشش ہو گی کہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی میں کوئی مفاہمت نہ ہو بلکہ ان کے درمیان وہی کشیدہ صورتحال پیدا ہو جائے جو ایک زمانے میں ان دونوں جماعتوں کا خاصا رہی ہے تاکہ تحریک انصاف کو مائنس کر کے اگر انتخابات کرانے پڑیں تو مقابلے کی فضا پیدا کی جا سکے۔ مگر آصف علی زرداری کیا ایسی گیم کا حصہ بنیں گے؟ کیا وہ ایک طے شدہ معرکے میں شریک ہو کر پیپلزپارٹی کے ڈمی کردار پر رضا مند ہو جائیں گے؟ غالبا ایسا نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ کے وفد نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کے دوران حلقہ بندی کا عمل جلد مکمل کرنے کے حوالے سے تجاویز الیکشن کمیشن کو دی تھےں۔لیگی وفد نے اپنی تجاویز میں کہا کہ حلقہ بندیوں کا عمل پندرہ سے بےس دن قبل مکمل ہو سکتا ہے، نئی ووٹر لسٹوں کو ساتھ مرتب کیا جا سکتا ہے، نومبر تک حلقہ بندیاں مکمل کر کے انتخابی شیڈول جاری کیا جا سکتا ہے، اس عمل سے جلدی انتخابات ممکن ہو سکیں گے، آئین اور قانون کے مطابق جتنا جلدی الیکشن ہو ملک کیلئے بہتر ہے۔مسلم لیگ نون کے وفد کے ارکان کا کہنا تھا کہ ہماری تجویز پر الیکشن کمیشن نے مثبت جواب دیا، الیکشن کمیشن اپنی صلاحیت اور اہلیت دیکھ کر جلد انتخابات کروانے کی کوشش کرے گا، الیکشن کمیشن بھی چاہتا ہے کہ سیاسی عمل جاری رہے اور وہ بھی یہ ذمہ داری جلد نبھانے کا خواہاں ہے۔لیگی رہنماﺅں نے کہا تھاکہ آئین اور قانون نوے دن میں انتخابات کرانے کا کہتا ہے، آئین کے مطابق نئی مردم شماری کے سرکاری نتائج جاری ہونے کے بعد نئی حلقہ بندیاں ضروری ہیں، امریکی سفیر کی الیکشن کمیشن حکام سے ملاقات الگ معاملہ ہے، پیپلزپارٹی کی سیکرٹری اطلاعات شازیہ مری نے فیصل کریم کنڈی اور شہزاد سعید چیمہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جلد از جلد انتخابات کا انعقاد ملک کے مفاد میں ہے تاکہ ملک موجودہ غیر یقینی صورتحال سے نکل سکے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نئی مردم شماری کے بعد حلقہ بندی ضروری ہے ۔پیپلز پارٹی ہمیشہ نوے دن کے اندر انتخابات کرانے کے حق میں رہی ہے، چاہے پنجاب میں ہو یا کہیں اور، پیپلز پارٹی کو نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے لیے وقت ضائع کیے جانے پر تحفظات ہیں، الیکشن کمیشن نے اس سے قبل حلقہ بندیوں کی مدت میں کمی کی تھی اور پارٹی کی رائے ہے کہ اس مدت کو مزید کم کیا جا سکتا ہے تاکہ انتخابات کے انعقاد کے لیے نوے دن کی آئینی حد کی زیادہ خلاف ورزی نہ ہو۔ قانونی ماہرین نے سی ای سی کے شرکا کو آگاہ کیا کہ صدر عارف علوی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ سکیں یا انتخابات کی کوئی تاریخ تجویز کرسکیں۔شازیہ مری نے کہا کہ پاکستان کے عوام دیکھ رہے ہیں کہ کابینہ میں شامل کیے جانے والے یہ لوگ ایک مخصوص پارٹی کی جانب جھکاﺅ کے لیے جانے جاتے ہیں، یہ نگران حکومت کی غیرجانبداری کے لیے موزوں نہیں ہے۔ شازیہ مری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کے معاملے پر ایک پیج پر ہوں تاکہ کسی کو اس کے نتائج پر اعتراض نہ ہو۔ شازیہ مری نے الزام عائد کیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پیپلزپارٹی کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے کیونکہ سندھ میں اپنی مدت پوری کرنے سے قبل پیپلزپارٹی کی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ منصوبوں پر پابندی عائد کردی گئی جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگران حکومتیں بغیر کسی روک ٹوک کے نئی ترقیاتی اسکیمیں شروع کررہی ہیں۔اےک موقف ےہ ہے کہ سابق حکمران جماعت مہنگائی اور گورننس کے مسائل کی وجہ سے قبل ازےں تقریبا ہر ضمنی الیکشن میں ہار رہی تھی حتی کہ اپنے گڑھ خیبر پختونخواہ میں بھی بلدیاتی انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام سے بری طرح ہاری تھی، لیکن اب اچانک دوبارہ مقبولیت کی طرف گامزن ہے۔مسلم لےگ سمجھتی ہے کہ بڑے ترقیاتی منصوبوں کی کمی کے باعث مسلم لیگ نواز پرامید ہے کہ ووٹر اس کے ترقی کے بیانیے کے ساتھ کھڑا ہوگا۔مسلم لیگ نواز کو مریم نواز شریف کی مقبولیت کا بھی فائدہ ہوگا جنہوں نے گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں پارٹی کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو خاصے جارحانہ انداز میں آگے بڑھایا ہے۔ انتخابات سے قبل پارٹی رہنما نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی سے پارٹی کو بڑا فائدہ ہو سکتا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی گزشتہ انتخابات میں سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی مگر مرکز میں تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔ ماہرین کے مطابق پیپلز پارٹی سندھ میں اب بھی اپنی مضبوط پوزیشن برقرار رکھے گی۔ تاہم پنجاب، کے پی اور بلوچستان میں پارٹی کی مقبولیت میں گزشتہ سالوں میں کوئی خاص اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پیپلز پارٹی قیادت کو امید تھی کہ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں حاصل ہونے والی مرکزی اور صوبائی سطح پر اتحادی حکومت کے دوران وہ ان علاقوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے کی کوشش کرے گی۔گزشتہ سال سابق صدر آصف زرداری اور پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور رہ کر سیاسی رابطے بڑھائے ہیں اور پارٹی کا جنوبی پنجاب میں ووٹ بینک بھی ہے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ آئندہ انتخابات میں جنوبی پنجاب میں کن الیکٹیبلز کو ٹکٹ دے گی اور کیا مسلم لیگ نون کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کا بھی امکان ہو گا۔