فضائی آلودگی

اےک رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی پاکستان میں صحت کے لیے دوسرا سب سے اہم خطرہ ہے، تاہم بنیادی طور پر دل کی بیماریاں سب سے زیادہ خطرے کی علامت ہیں۔آلودگی میں اضافے سے دماغی صحت کے کئی امراض بھی لاحق ہوسکتے ہیں جن میں انزائٹی اور ڈپریشن شامل ہیں۔عالمی سطح پر جنوبی ایشیا کو سب سے زیادہ سنگین نتائج کا سامنا ہے، بنگلادیش، بھارت، نیپال اور پاکستان جو دنیا کی تقریبا 25 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں میں سب سے زیادہ آلودگی پائی جاتی ہے۔ پاکستان کی پوری بائےس کروڑ آبادی ان خطوں میں مقیم ہے جہاں فضائی آلودگی کی سالانہ اوسط عالمی ادارہ صحت کی مقرر کردہ حد سے زیادہ ہے۔یہ معیار تجویز کرتے ہیں کہ پارٹیکیولیٹ میٹر کی سالانہ اوسط سطح پانچ مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سے کم رہنی چاہیے، اس کے علاوہ چوبےس گھنٹے کی اوسط نمائش پندرہ مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ملک کی تقریبا 98.3 فیصد آبادی ان علاقوں میں مقیم ہے جہاں سالانہ اوسطا فضائی آلودگی پاکستان کے قومی فضائی معیار اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے طے کردہ فضائی آلودگی کی گائیڈلائنز سے زیادہ ہے۔ اگر آلودگی کی موجودہ سطح اسی طرح برقرار رہی تو پنجاب، اسلام آباد اور خیبرپختونخوا میں رہنے والے افراد کی اوسط عمر میں تقریبا 3.7 سے 4.6 سال کی کمی واقع ہونے کا امکان ہے۔ فضائی آلودگی کسی بھی کیمیائی، جسمانی یا حیاتیاتی ایجنٹ کے ذریعہ اندرونی یا بیرونی ماحول کی آلودگی ہے جو ماحول کی قدرتی خصوصیات کو تبدیل کرتی ہے۔ صحت عامہ کی اہم تشویش کے آلودگیوں میں ذرات، کاربن مونو آکسائیڈ، اوزون، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ شامل ہیں۔ بیرونی اور اندرونی فضائی آلودگی سانس اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتی ہے اور یہ بیماری اور اموات کے اہم ذرائع ہیں۔ہوا کے معیار کا عالمی سطح پر زمین کی آب و ہوا اور ماحولیاتی نظام سے گہرا تعلق ہے۔ فضائی آلودگی کے بہت سے محرکات بھی گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج کے ذرائع ہیں۔ فضائی آلودگی کو کم کرنے کی پالیسیاں، اس لیے، آب و ہوا اور صحت دونوں کے لیے جیت کی حکمت عملی پیش کرتی ہیں، جو فضائی آلودگی سے منسوب بیماریوں کے بوجھ کو کم کرتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے قریب اور طویل مدتی تخفیف میں حصہ ڈالتی ہیں۔فضائی آلودگی سے مراد ہوا میں مختلف زہریلے ذرات کا اخراج ، ان ذرات کااخراج انسانی صحت اور مجموعی طور پر زمین کے لئے نقصان دہ ہے۔ فضائی آلودگی سے ہونے والے طویل مدتی صحت کے اثرات میں دل کی بیماری ، پھیپھڑوں کے کینسر اور سانس کی بیماریاں جیسی وبائی امراض شامل ہیں۔ فضائی آلودگی لوگوں کے اعصاب ، دماغ ، گردوں ، جگر اور دیگر اعضا کو طویل مدتی نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ ہر سال فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں لگ بھگ ستر لاکھ اموات ہوتی ہیں ۔ دس میں سے نو انسان ایسی آلودہ ہوا میں سانس لیتے ہیں جو ڈبلیو ایچ او کے رہنما اصولوں کی حد سے تجاوز ہوتی ہے۔ فضائی آلودگی کو کسی بھی ذرائع کے تمام تباہ کن اثرات سے تعبیر کیا جاتا ہے جو ماحول کی آلودگی یا ماحولیاتی نظام کے خراب ہونے میں معاون ہوتا ہے۔ فضائی آلودگی انسانی مداخلت اور قدرتی مظاہر دونوں کی وجہ سے ہے۔ جیواشم ایندھن جلانے سے گیسیں اور کیمیکل ہوا میں خارج ہوجاتے ہیں، فضائی آلودگی نہ صرف آب و ہوا کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ زہریلی گیسوں کی وجہ سے یہ اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کی شکل میں ہوا کی آلودگی زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہے۔ہوا میں ہر وہ ذرہ جو انسانی صحت کو متاثر کرسکتا ہے یا ماحول پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے اسے فضائی آلودگی قرار دیا گیا ہے۔ذراتی آلودگی ، کار بن مونوآکسائیڈ ، سلفر ڈائی آکسائیڈ ، نائٹروجن آکسائیڈ ، اور سیسہ وہ اہم فضائی آلودگی کے عناصر ہیں جو انسانی صحت کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور ماحولیاتی نظام کو بھی اوران سے مختلف قسم کے کینسر سمیت متعدد بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ذراتی آلودگی فضائی آلودگی کا بڑا حصہ ہے، ایک عام سی تعریف میں وہ ہوا میں پائے جانے والے ذرات کا مرکب ہیں۔ ذراتی آلودگی زیادہ تر پھیپھڑوں اور دل کی بیماریوں کے آغاز اور بڑھنے سے براہ راست وابستہ ہے، چھوٹے سائز کے ذرات تنفس کے نچلے حصے تک پہنچ جاتے ہیں اور اس طرح پھیپھڑوں اور دل کی بیماریوں کا باعث بننے کے زیادہ امکانات رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ متعدد سائنسی اعداد و شمار نے یہ ثابت کیا ہے کہ ذراتی آلودگی دل یا پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا لوگوں میں قبل از وقت موت کا سبب بنتی ہے جس میں دل کا دورہ ، دمہ اور پھیپھڑوں کے افعال میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ جزوی آلودگی ہلکے سے شدید بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔ جیسا کہ سانس کی دشواری ، کھانسی ، خشک منہ وغیرہ۔ کاربن مونوآکسائیڈ ایک بے رنگ اور بو کے بغیر گیس ہے جو جیواشم ایندھن کے ذریعہ تیار کی جاتی ہے کار بن مونوآکسائیڈ کی فضا میں موجودگی سے مختلف بیماریاں جنم لے سکتی ہیں جن میں سر درد ، چکر آنا ، کمزوری ، متلی ، الٹی ، اور بے ہوش ہونا شامل ہیں۔ سلفر ڈائی آکسائیڈ ایک بے رنگ ، انتہائی رد عمل والی گیس ہے جسے ایک اہم فضائی آلودگی کی عنصر کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر جیواشم ایندھن کی کھپت ، قدرتی آتش فشاں کی سرگرمیوں اور صنعتی عمل سے خارج ہوتا ہے۔ سلفر ڈائی آکسائیڈ پودوں کی زندگی ، جانوروں اور انسانی صحت کے لئے بہت نقصان دہ ہے۔ پھیپھڑوں میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کا دخول ناک کی سانس لینے کے مقابلے میں منہ کی سانس لینے کے دوران زیادہ ہوتا ہے۔ گہری ، تیز سانس لینے میں ہوا کے بہاﺅ میں اضافہ گہری پھیپھڑوں میں گیس کے دخول کو بڑھاتا ہے۔ لہذا ، جو لوگ آلودہ ہوا میں ورزش کرتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ سلفر ڈائی آکسائیڈ سانس کے ذریعے لیتے ہیں۔سیسہ مختلف صنعتوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔اسی آلودگی کا نتیجہ انڈور اور آﺅٹ ڈور دونوں ذرائع سے ہوسکتا ہے۔ یہ موٹر انجنوں سے خارج ہوتا ہے ، اس سے پیٹ میں درد ، خون کی کمی ، قبض ، سر درد ، چڑچڑاپن ، یاداشت کی کمی وغیرہ جنم لے سکتی ہیں ۔نائٹروجن آکسائےڈ بنیادی طور پر موٹر انجنوں سے خارج ہوتا ہے، اس سے کھانسی، ناک یا گلے میں جلن ، سر درد ، سینے میں درد اوربخار ہوسکتا ہے۔ترقی پذیر ممالک میں ناکافی قانون سازی اور مناسب پالیسیوں کی عدم دستیابی کے نتیجے میں فضائی آلودگی کی اونچی سطح کی وجہ سے بیماریوں کے واقعات ہوتے ہیں ، جو معاشرے پر بلا شبہ ایک بھاری مالی بوجھ بھی ہیں۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے بیماریوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کے سبب ہوا کے معیار کے لئے معیاری اقدار کی وضاحت ضروری ہے اور ہوا کی کوالٹی کی نگرانی ریگولیٹری پالیسیوں کی تیاری میں اہم کردار ادا کرتی ہے، ترقی پذیر ممالک میں فضائی آلودگی کا کنٹرول انتہائی ضروری ہے اور حکومتوں کی ترجیحی فہرست میں سرفہرست ہونا چاہئے۔یونیورسٹی آف شکاگو کے انرجی اینڈ پالیسی کے ادارے کی جانب سے شائع کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف طریقوں سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔ آلودہ فضا انسانی جسم کو تو متاثر کرتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسری بیماریوں سے لڑنے کی قوت کو بھی متاثر کرتی ہے۔پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور بھارت کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو فضائی آلودگی کی وجہ سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔پاکستان میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پاکستان میں رہنے والے لوگوں کی عمر میں دو سال تک کی کمی ہو رہی ہے، گاڑیوں میں استعمال ہونے والا پیٹرول، صنعتی کارخانوں کا دھواں، فصلوں کا جلایا جانا اور ہمارا ٹرانسپورٹ کا نظام فضائی آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔پچےس فیصد فضائی آلودگی کی وجہ ٹرانسپورٹیشن ہے، یہاں کوڑے کو بھی جلایا جاتا ہے اور پاکستان کے پاس کوئی مکمل ڈیٹا تک موجود نہیں ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ پاکستان کس حد تک فضائی آلودگی سے متاثر ہورہا ہے۔ پاکستان میں بڑی تعداد میں استعمال ہونے والا پیٹرول معیار کے حساب سے بالکل بھی ماحول دوست نہیں ہے، یورو فائیو تو پاکستان نے متعارف کروا دیا ہے مگر یہ کچھ شہروں کے کچھ اسٹیشنز پر ہی دستیاب ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ آلودگی سے متعلق اگر ڈبلیو ایچ او کے اصولوں پر عمل کیا جائے تو صاف ماحول اور ہوا کی وجہ سے ایک فرد کی زندگی میں تقریبا سوا دو سال تک کا اضافہ ممکن ہے۔ آلودہ ہوا و ماحول پھیپھڑوں سمیت دل اور کئی دفعہ کینسر کا باعث بنتے ہیں۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ سگریٹ نوشی سے عالمی سطح پرانسانوں کی اوسط عمر میں ڈھائی سال کی کمی ہوئی ہے۔